"KDC" (space) message & send to 7575

عالمی مالیاتی ادارے اور ہماری پسماندگی

بین الاقوامی شہرت یافتہ مصنف جان پرکنز کی سوانح عمری Confessions of an Economic Hit Man میرے مطالعہ میں رہی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ میرے خاندان کے بزرگ کنور محمد حنیف نے بڑی خوبصورتی سے کیا تھا اور اس کا دیباچہ میں نے لکھا تھا۔ جان پرکنز نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ عالمی ادارے پسماندہ ممالک کو قرض دے کر اپنے جال میں پھنساتے اور ان کی معیشتوں کو گروی رکھ لیتے ہیں۔ جان پرکنز کے بقول عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی ادارے معاشی قاتلوں کے گماشتے ہیں‘ جو قدرتی وسائل سے مالا مال پس ماندہ ممالک کے لیے بڑے بڑے قرضوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ ان قرضوں کا ایک بڑا حصہ مغربی مشاورتی کمپنیوں کی کنسل ٹینسی فیس کی مد میں ادا کر دیا جاتا ہے اور پھر پاورہاؤس‘ انفراسٹرکچر اور انڈسٹریل پارکس جیسے ترقیاتی منصوبے بھی مغربی کمپنیوں کو دیے جاتے ہیں جبکہ ان قرضوں سے ہونے والی کرپشن کے ذریعے اکٹھا ہونے والا لوٹ کا مال بھی واپس مغربی ممالک پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح یہ پسماندہ ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں‘ جنہیں وہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے‘ اور ان ممالک کو عالمی مالیاتی اداروں کی ہر شرط ماننا پڑتی ہے۔ بالآخر یہ ادارے ان ممالک کے حکمرانوں کو نادہندگی سے بچنے کے لیے قرضے ری شیڈول کرنے کی تجویز دیتے ہیں‘ اس طرح قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے د ے کر عالمی مالیاتی اداروں کو ان ممالک کو گروی بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔
ایسی صورتحال میں معدنی وسائل پر مغربی طاقتوں اور مالیاتی اداروں کی ملٹی نیشنل کمپنیاں کنٹرول حاصل کر لیتی ہیں جبکہ مغربی ممالک مقروض ممالک کو اپنے فوجی اڈوں کے قیام اور دفاعی اشیا کی آمد و رفت جیسے معاہدے کرنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ جان پرکنز کی کتاب کا حوالہ عمران خان اکثر دیتے رہتے ہیں‘ لیکن پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال جان پرکنز کے فارمولے کے تحت آگے بڑھ رہی ہے۔ آج کل پاکستان کے گرد بھی آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کاگھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بنا رہے ہیں۔ ان مالیاتی اداروں کا یہ منصوبہ ہے کہ پاکستان کے قرضے جب 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں اور پاکستان کی معیشت میں اتنی سکت نہ رہے کہ وہ اس کا سود ادا کر سکے‘ تو اس صورت میں پاکستان اگر ڈیفالٹ کرتا ہے تو امریکہ آئی ایم ایف کے ذریعے بیل آؤٹ پیکیج کی پیشکش کرے گا اور بدلے میں پاکستان کو اپنے نیوکلیئر پروگرام پر سمجھوتا کرنا پڑ سکتا ہے یا ایسی ہی کوئی اور کڑی شرط اس سے منوائی جا سکتی ہے۔
صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں پاکستان کی معیشت ترقی کی جانب گامزن تھی۔ پہلا اور دوسرا پانچ سالہ منصوبہ‘ اپنے اپنے اہداف کو پورا کر چکے تھے جبکہ تیسرے پانچ سالہ منصوبے کے خدوخال تیار کیے جا رہے تھے‘ جو 1970ء تک چلنا تھا اور چوتھے پانچ سالہ منصوبے کی تکمیل سے پاکستان ایک فلاحی مملکت بنتا ہوا نظر آ رہا تھا کہ سی آئی اے اور پینٹاگان کے ہاں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی کہ اگر پاکستان کا چوتھا پانچ سالہ منصوبہ مکمل ہو گیا تو وہ جاپان سے آگے نکل جائے گا۔ اس دوران سی آئی اے نے پلاننگ کمیشن کے سینئر حکام کی معاونت سے پاکستان کی ترقی روکنے کے لیے '22 خاندانوں‘ اور 'غریب ملک کا امیر ترین صدر‘ جیسے نعرے لگوا کر ملک میں گھیراؤ جلاؤ شروع کرا دیا۔ پاکستان کی ترقی کی بساط مارچ 1969ء میں جنرل یحییٰ خان کی وساطت سے لپیٹ دی گئی۔ اس منصوبہ بندی میں مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے بعض رہنماؤں کا بڑا عمل دخل تھا۔ 1960-1970ء کے دوران معاشی ریٹنگ کے ادارے پاکستان کی معاشی صورتحال کی اچھی پیش گوئی کر رہے تھے‘ مگر پاکستان کی ترقی مغربی ممالک کے مفاد میں نہیں تھی‘ اور 1970ء سے اب تک پاکستان میں صورت حال انتشار‘ خلفشار اور ترقیٔ معکوس کی طرف ہی گامزن نظر آ رہی ہے‘ اور لگتا ہے کہ بہتری کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے یقین دلایا تھا کہ زرداری اور شریف خاندان سے لوٹی ہوئی دولت واپس آ جائے گی۔ یہ خود سے اور حقیقی دنیا سے دوری کی انتہا تھی۔پاکستان کے پسماندہ عوام ہمیشہ خیالات میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی خود فریبی بھی ایسا ہی ماورائی نظریہ ہے جس کی ناکامی نوشتۂ دیوار بنتی جا رہی ہے۔ نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور دیگر کرپٹ سیاستدانوں سے مفروضہ دولت واپس لانے کی ناگزیر ناکامی کے بعد آئی ایم ایف سے 10ارب ڈالر قرض لے لیے جائیں تو بھی مسئلہ وہیں کا وہیں رہے گا۔المیہ یہ ہے کہ گزشتہ حکومتوں کے برعکس موجودہ حکومت ہر پہلو سے خود فریبی کا شکار ہے اور چاہتی ہے کہ عوام بھی خوابوں میں رہنا شروع کر دیں۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران اسد عمر اور ان کی معاشی ٹیم کو تبدیل کرنا اور آئی ایم ایف سے منسلک افراد کو لانا شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف کو امریکی اور ان مغربی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے جن کی آنکھوں میں پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام اور سی پیک منصوبہ شروع دن سے کھٹک رہا ہے ۔ایسے حالات میں آئی ایم ایف سے مزید قرض لینا ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ اسی پس منظر میں سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے حلف نہ اٹھانے والوں کی تعیناتی پر اعتراض کیا ہے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ مشیر خزانہ اور نہ ہی گورنرسٹیٹ بینک نے حلف رازداری اٹھایا ہی نہیں ہے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ آج عوام غربت ‘مہنگائی اوربے روزگاری کے ہاتھوں پہلے سے بھی زیادہ مضطرب ہورہے ہیں جبکہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کے مشکل حالات کے حوالے سے آئے روز کے بیانات سے عوام کی مایوسی مزید بڑھ رہی ہے۔رواں ماہ پیش ہونے والے وفاقی اور صوبائی بجٹ کو عوام دوست بنانے کی ضرورت ہے ۔اگر یہ بجٹ عوام نے مسترد کر دیے تو حکومت اس کے رد عمل میں عوامی غضب پر قابو نہیں پا سکے گی۔
ایف بی آر کے نئے چیئر مین سید شبر زیدی کا استدلال ہے کہ سٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر کی تعیناتی پاکستان کا ایک طویل المدت ویژن ہے جس کے ثمرات 2020 ء کے پاکستان پر نہیں بلکہ 2030 ء کے پاکستان پر ظاہر ہوں گے۔ اسلام آباد میں بیوروکریسی کے حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ عبدالحفیظ شیخ اور ڈاکٹر رضا باقر دونوں نے آئی ایم ایف میں اکٹھے کام کیا ہے۔ عبدالحفیظ شیخ انہیں اپنی ٹیم میں شامل کرنا چاہتے تھے؛چنانچہ اب معاشی پالیسیاں بین الاقوامی ادارے ہی بنائیں گے۔ان حالات میں ملک کو اقتصادی جمود اور سکوت سے نکالنا موجودہ حکومت کے لیے مشکل مرحلہ ہے اور عوام جائزہ لے رہے ہیں کہ چہرے پر وقت سے پہلے پڑنے والی جھریاں روح پر لگے زخموں کا عکس ہوا کرتی ہیں۔
حفیظ شیخ کی دبئی میں ایک پرائیویٹ ایکوئٹی کمپنی بھی ہے جس کی بعض بھارتی سرمایہ کاروں کے ساتھ شراکت داری بتائی جاتی ہے جبکہ ڈاکٹر رضا باقر کے والد محترم ایس ایم باقر مشہور قانون دان رہے ہیں۔ان کا تعلق بورے والا‘ وہاڑی سے بتایا جاتا ہے اور وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے ہیں۔ مارچ 1977ء کے انتخابات میں انہوں نے صوبائی اسمبلی کی نشست سے بورے والا کے حلقے سے انتخاب بھی لڑا لیکن قومی اتحاد کے امیدوار سے شکست کھا گئے ۔ 1988 میں بے نظیر بھٹو کے وزارت عظمیٰ کے دور میں ایس ایم باقر کو سوئٹزرلینڈ میں سفیر مقرر کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر رضاباقر غیر ملکی شہریت کے حامل ہیں ‘قومی شناختی کارڈ 5 پانچ مئی بروز اتوار کو رات گئے نادرا کا آفس کھلوا کر جاری کیا گیا۔ اس طرح انہوں نے معین قریشی کی یاد تازہ کروا دی جب ان کو لاہور ایئرپورٹ پر اسی طرح شناختی کارڈ جاری کروا کے ان سے نگران وزارتِ عظمیٰ کا حلف دلوایا گیا تھا۔ حکومت کی سراسیمگی یوں بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ اتوار کے روز ہی انہوں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کا چارج سنبھال لیا ۔رولز آف بزنس کسی دور میں بہت اہمیت کے حامل ہوتے تھے ‘ تعطیل کے دوران عموماً سرکاری گزٹ یا اپنے عہدے کا چارج نہیں لیا جاتا۔مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں