"KDC" (space) message & send to 7575

فاٹا کے بعد بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بھی بڑھانا ہوں گی

صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے از سر نو تعین کے لیے قومی اسمبلی میں آئینی ترمیمی بل 2019ء پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سابق فاٹا کے عوام نے بہت مشکلات کا سامنا کیا ۔ قومی اسمبلی میں قبائلی اضلاع (سابق فاٹا) کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے لیے 26 ویں آئینی ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا‘ جس کے بعد ان اضلاع میں قومی اسمبلی کی نشستیں چھ سے بڑھ کر بارہ اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں 16 سے بڑھ کر 24 ہوجائیں گی۔ قبائلی اضلاع کی نشستوں میں اضافے کیلیے آئینی بل کی منظوری بلاشبہ ایک اہم پیش رفت ہے۔اس سے ملک کی پارلیمنٹ کی بالادستی پر نا صرف مہرتصدیق ثبت ہوئی ہے ‘بلکہ اراکینِ پارلیمنٹ نے قوم و ملک کو درپیش ایک امتحانی صورتحال میں دہشت گردی سے تباہ ہونے والے قبائلی خطے کے عوام کو پہلی بار حقیقی مسرتوں سے آشنا کیا ہے۔ 
سیاستدان کشیدگی اور محاذ آرائی کی پیچیدگیوں کے باوجود قبائلی علاقوں کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے ایجنڈے پر ہمیشہ متفق رہے تھے‘ مگر بعض مذہبی قائدین کا کہنا تھا کہ سابقہ فاٹا کی اصلاحات ‘انضمام اور نو آبادیاتی دور کے سیاہ قوانین کی تنسیخ کے معاملات انتہائی حساس ہیں‘ لہٰذا پختون عوام اور سیاسی جماعتوں کے خدشات اور تحفظات کا ازالہ کیے بغیر اتنا بڑا قدم نہ اٹھایا جائے‘ تاہم سیاستدانوں نے ایوان میں مکمل اتفاق رائے سے قبائلی نشستوں میں اضافے کا تاریخ ساز فیصلہ کیا ‘ اس طرح حکومت کی خصوصی دلچسپی سے یہ اہم صوبائی مسئلہ خوش اسلوبی سے طے ہوگیا ‘تاہم سینیٹ سے اس بل کی منظوری میں دشواری پیش آسکتی ہے ‘کیونکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ارکان ِسینیٹ کے تحفظات دُور کرنا ہوں گے اور ان کا موقف ہے کہ بلوچستان کی نشستیں بھی بڑھانا ہوں گی‘ کیونکہ موجودہ حالات میں بلوچستان کی قومی اسمبلی کا حلقہ پورے فاٹا کے برابر ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کی قومی اسمبلی کی نشستیں 14 سے بڑھا کر 30 کردی جائیں اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی 65 سے بڑھا کر100 کردی جائیں‘ اسی دوران بلوچستان کے ارکانِ سینیٹ بلوچستان کی نشستوں کے حوالے سے بھی اہم بل لا رہے ہیں اور انہوں نے قومی اسمبلی کے مجوزہ بل کی سینیٹ میں منظوری کے لیے اپنے بل کی منظوری کی شرط رکھنے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے ۔قومی اسمبلی میں نشستوں کے حوالے سے جو بل منظور ہوا ہے ‘اس میں ابہام اور خامیاں بھی دانستہ طور پر رکھی گئی ہیں‘ فاٹا کے 8 اضلاع کے بارے میں یہ گنجائش نہیں رکھی گئی کہ انتظامی نشستوں کی تعداد کس پیمانے یا معیار کے مطابق رکھی جائے گی ۔ اس طرح حلقہ بندیوں کے موقع پر یہاں کشیدگی پیدا ہونے کے امکانات موجود ہیں ‘جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اضافی نشستوں کی حلقہ بندیاں کرانے میں چھ ماہ سے زائد کا عرصہ لے گا۔ صدر مملکت کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کوسابقہ شیڈول واپس لینا ہوگا ۔اس طرح فاٹا میں غیر معینہ مدت کے لیے الیکشن ملتوی ہو جائیں گے۔
26 ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نشستوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ‘کیونکہ25 ویں آئینی ترمیم سے پہلے ہی فاٹا کی قومی اسمبلی کی نشستیں 12 تھیں۔25 ویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کی قومی اسمبلی کی نشستیں 12 سے کم کرکے 6 کی گئی تھیں‘ تاہم ابھی اس پر عمل ہونا باقی تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرلی گئی اور فاٹا کی نمائندگی 12کردی گئی۔ اس طرح قومی اسمبلی میں 12 اور سینیٹ میں 8 نشستیں ہیں ‘جو برقرار رہیں گی‘ تاہم خیبرپختونخوا کی پہلے 124 صوبائی اسمبلی کی نشستیں تھیں جن میں فاٹا کی جنرل نشستیں 24 اور مخصوص سات نشستوں کا اضافہ ہوجائے گا اور صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 155 ہوجائے گی۔ فاٹا کے بارے میں جو 26 ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی ہے‘ اس سے نیا پنڈورا باکس کھلنے کے امکانات بھی ہیں‘ کیونکہ اسی فارمولے کے تحت کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستوں میں بھی اضافے کا کوئی مطالبہ سامنے آسکتا ہے اور پنجاب کی قومی اسمبلی کی نشستیں جو نئی مردم شماری کے تحت بلوچستان اسلام آباد اور صوبہ خیبر پختونخوا کو تفویض کردی گئی تھیں‘ مردم شماری کے حتمی نتائج آنے اور پنجاب کی آبادی میں اضافہ سامنے آنے سے پنجاب کے کوٹہ کے ساتھ نشستوں پر بھی اختلاف رائے سامنے آسکتا ہے۔اس طرح فاٹا میں نشستوں کے اضافہ کے بعد فاٹا میں الیکشن کم از کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ اٹھارہ ماہ کے دوران کروائے جائیں گے‘ جس سے فاٹا کے اضلاع میں بے چینی پیدا ہوگی اور فاٹا کے اضلاع کی 16 نشستوں پر جو انتخابات 2 جولائی کو ہو رہے تھے‘ ان کے ملتوی ہونے پر شدید مزاحمت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے فاٹا کے اضلاع کے نوجوانوں کو احسن طریقے سے مطمئن کیا ہے‘ مگران اضلاع میں غیر معینہ مدت کے لیے الیکشن ملتوی کرنے سے اضطراب کی لہر دوڑ جائے گی۔ فاٹا کے لیے اضلاع کی نشستوں میں اضافہ کرتے ہوئے مجوزہ بل میں شق رکھنا چاہیے تھی کہ ان اضافہ شدہ نشستوں پر عملدرآمد اگلے جنرل الیکشن میں کیا جائے گا‘فی الحال 16 نشستوں کے انتخابات آئین اور قوانین کے مطابق؛ 2جولائی کو ہی کروائے جائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان کی آئینی و قانونی ٹیم نے ان کو اس مجوزہ بل کے مضمرات سے آگاہ نہیں کیا اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری ‘جو صوبہ خیبرپختونخوا کے جغرافیائی‘ سیاسی‘ معاشی اور انتظامی معاملات کے ماہر ہیں‘ ان سے بھی اس مجوزہ بل کے بارے میں بریفنگ نہیں لی گئی۔ اس طرح صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق چیف سیکرٹری شہزادارباب ‘جو اس وقت وزیراعظم عمران خان کے دست ِراست ہیں‘ ان کو بھی اندھیرے میں رکھا گیا ۔بل لانے کی تحریک رکن ِ قومی اسمبلی محسن داوڑ کی طرف سے پرائیویٹ بل کے طور پر پیش کی گئی‘ جسے حکمران جماعت سمیت دیگر تمام جماعتوں نے من و عن منظور کرلیا ۔ حکمران جماعت نے وفاقی وزیر قانون و انصاف سے بھی اس پرائیویٹ بل کے مضمرات کو دیکھنے کے لیے نہیں کہا گیا‘جبکہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اوروزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری کو ان باریکیوں کا ادراک ہی نہیں تھا۔
ملک کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے‘ جب کسی پرائیویٹ ممبر کا بل متفقہ طور پر منظور کیا گیا ۔بل کے حق میں 288 ووٹ آئے‘ جبکہ کسی نے بھی مخالفت نہیں کی۔قبائلی اضلاع کو قومی دھارے میں لانے کے لیے آئینی ترمیم صحیح سمت میںدرست قدم ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کو پارلیمانی عمل میں مناسب حصہ دیئے بغیر ملکی ترقی کا خواب مکمل نہیں ہوسکتا ‘لیکن اس کے برعکس حقائق جو پوشیدہ رکھے جارہے ہیں‘ ان کی داستان زیبا یہ ہے کہ وزیر مذہبی امور نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذریعے انتخابات ملتوی کرانے کی بہت کوشش کی‘ جبکہ لیکن چیف الیکشن کمشنر نے ان کو 25ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ 25 جولائی سے آگے نہیں جا سکتے‘ لہٰذا اس کے بعد ان دونوں معزز شخصیات نے آئینی ترمیم کے ذریعے سابق فاٹا کی صوبائی نشستوں پر قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کرنے کے لیے 26 ویں آئینی ترمیم کا سہارا لیا۔ اصولی طور پر حکمران جماعت کے ارادے فاٹا کی بہتری اور مفاد میں ہوتے تو وہ بل میں یہ شق شامل کروا دیتے کہ اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فاٹا کے اضلاع میں صوبائی انتخابات کرانے کا شیڈول جاری کیا ہے‘ لہٰذا یہ بل آئندہ انتخابات کے لیے قابل قبول ہوگا‘ لیکن اسی بل میں یہ شرائط شامل کر دی گئیں کہ وہاں صوبائی اسمبلی کے انتخابات چھ ماہ سے پہلے نہیں ہو سکیں گے اور یہ مزید ڈیڑھ سال تک ملتوی کیے جائیںگے ۔ اس طرح صوبائی اسمبلی میں قبائلی علاقوں کو نمائندگی سے پہلے ہی ایک سال تک محروم رکھنے کے بعد مزید ڈیڑھ سال کے لیے محروم کیا جا رہا ہے‘ لہٰذا سینٹ سے قومی اسمبلی کا بل منظور ہو جاتا ہے تو صدر کے دستخط کے ساتھ الیکشن کمیشن فاٹا کے اضلاع میں انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں