"KDC" (space) message & send to 7575

نئے صوبے کا قیام اور یکجہتی

وفاقی قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے 26 ویں آئینی ترمیم کے بل کی خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں متفقہ منظوری کے بعد پنجاب میں نیا انتظامی یونٹ بنانے کے سوال پر اتفاق رائے کے لئے سیاسی رابطے شروع ہوچکے ہیں۔ درحقیقت قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبے کے لیے ایوان کی خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی حکومتی تحریک کثرت رائے سے منظور کرلی گئی تھی مگر اس کے ساتھ ہی بہاولپور کو علیحدہ صوبہ بنانے یا پنجاب میں شامل رکھنے کی پرانی بحث شروع ہو گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب کے عوام نے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو نئے صوبے کا مینڈیٹ دیا تھا اس کے پیش نظر آئینی ترجیحات کے لیے آرٹیکل 1‘ 51‘ 59‘106‘198 اور 218 میں ترامیم لانا ہوں گی۔ ماضی کی بات کریں تو 2012ء میں صدر آصف علی زرداری کی خواہش پر صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کے لیے قومی اسمبلی میں بل لانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا ۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کی سربراہی میں 26 رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی تھی اور صوبہ جنوبی پنجاب کے لئے بل کے خدوخال بھی تیار کیے جارہے تھے ۔میں نے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی خواہش پر پارلیمانی کمیٹی کو بریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کے لیے از سر نو جغرافیائی باؤنڈری تیار کی گئی اور حلقہ بندیوں کا کام شروع ہوا تو ڈیرہ اسماعیل خان کو صوبہ جنوبی پنجاب میں شامل کرنا ہوگا۔میرے نقطۂ نظر کی مخالفت عوامی نیشنل پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نے کی اور ان کا کہنا تھا کہ انہیں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے پر اعتراض نہیں لیکن صوبہ خیبر پختونخوا کی ایک انچ زمین بھی نئے صوبے کو نہیں دی جائے گی‘ لہٰذا پیپلزپارٹی دوتہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث مذکورہ صوبہ بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ نواز شریف بطور اپوزیشن لیڈر اس بل کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس طرح آصف علی زرداری اپنی کوششوں میں ناکام ہوگئے۔ میں نے صوبہ بنانے کی پارلیمانی کمیٹی کے روبرو جو دستاویزات پیش کی تھیں‘ وہ اب بھی قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں موجود ہوں گی ۔
پاکستان مسلم لیگ (ن )کے ارکان صوبائی اسمبلی ماضی میں اپنے پیش کردہ ایک آئینی مسودے میں الجھے رہے اور پیش رفت نہ ہوسکی حالانکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے متعدد ارکان جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے حامی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے حسب روایت انتہائی عجلت میں قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب کے لیے ترمیمی بل پیش کیا ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان قومی اسمبلی بہاولپور‘ جنوبی پنجاب صوبوں کے قیام کا بل قومی اسمبلی میں جمع کرا چکے ہیں۔ یہ بل مجلس قائمہ میں پہلے سے موجود ہے اور اسی تناظر میں تحریک انصاف پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کو جامع حکمت عملی بنانا ہوگی ‘ لیکن موجودہ سیاسی آتش فشانی ماحول میں ان دونوں جماعتوں سے مذاکرات کرنے کے لئے تحریک انصاف میں متحرک اور محرک شخصیات کا فقدان ہے۔
جہاں تک ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سمیت ایک سے زائد مقامات پر عام لوگوں کو ان کے گھروں کے قریب سہولتیں فراہم کرنے کے لیے نئے انتظامی یونٹ کا تعلق ہے تو یہ بحث جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد سے جاری ہے۔ اکتوبر 1999 ء میں جنرل پرویز مشرف نے اپنے سات نکاتی ایجنڈے میں پاکستان میں مزید صوبوں کی بنیاد رکھتے ہوئے ملک میں مزید سات صوبے بنانے کا عزم ظاہر کیا تھا ۔ان کے آئینی عزائم نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے اور بعد ازاں صدر زرداری بھی نئے صوبے بنانے میں ناکام رہے کیونکہ اندرون خانہ سید یوسف رضا گیلانی بھی اس کے حامی نظر نہیں آرہے تھے۔ اسی طرح جنرل ضیا الحق بھی ظفر احمد انصاری کمیشن کے تحت ملک میں 35 صوبے بنانے کے خواہش مند تھے ‘لیکن جنرل ضیا الحق افغان جنگ میں بری طرح پھنس کر رہ گئے تھے لہٰذا ظفر انصاری کمیشن رپورٹ پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔
بہاولپور کو صوبہ بنانے کی تحریک 1951ء سے جاری ہے کیونکہ یہ تحریک اپنے مضبوط حقائق کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے۔ تاریخی شواہد کے مطابق 30 اپریل 1951ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے وزیراعظم لیاقت علی خان کے ساتھ نواب بہاولپور سر صادق محمد خان کا ایک اہم معاہدہ ہوا جس کی رو سے 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا کے مرکزی امور سے متعلق فہرستیں تیار ہوئیں۔فہرست اول میں جملہ موضوعات کے اختیارات ریاست بہاولپور کی جانب سے حکومت پاکستان کو تفویض کر دیے گئے جن میں دفاع‘ خارجہ امور‘ اور مواصلات شامل تھے اور فہرست ثانی میں صوبوں سے متعلق اختیارات بہاولپور کے پاس رہنے دیے گئے‘ جس کے تحت بہاولپور ایک علیحدہ صوبے کے طور پر پاکستان کا حصہ بن گیا‘ جس کے پاس تمام ڈویژن‘ صوبائی ملازمین کا ڈھانچہ موجود تھا اور افواج کے کمانڈر انچیف کا عہدہ بھی نواب صادق محمد کے پاس تھا‘ لیکن پانچ سال بعد 1955ء میں بہاولپور‘ پنجاب ‘سندھ‘ سرحد اور بلوچستان پانچوں صوبوں کو ملا کر ون یونٹ بنا دیا گیا‘ جس سے چھوٹے صوبے یعنی مشرقی پاکستان کے برابر لانا مقصود تھا ۔ طے یہ تھا کہ ون یونٹ ختم ہونے کی صورت میں بہاولپور کی سابقہ حیثیت کو بھی بحال کر دیا جائے گا لیکن 30 مارچ 1970ء کے وقت ون یونٹ کا خاتمہ کرتے وقت بہاولپور کی قانونی صوبائی حیثیت کو دوسرے صوبوں کی طرح بحال کرنے کی بجائے اسے صوبہ پنجاب میں ضم کردیا گیا ۔
ان حالات میں اگر تاریخی پس منظر میں تمام معاہدات کو پہلو در پہلو ملحوظ رکھا جائے تو ہر قسم کے تعصبات سے بالا تر ہوکر انتظامی ضرورتوں کی بنیاد پر بہاولپور کو پاکستان کے پانچویں صوبے کا درجہ دیتے ہوئے آئین میں ترمیم کی جا ئے گی اور جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع کو بہاولپور صوبے کا حصہ بنایا جا ئے گا۔ اس طرح صوبہ بہاولپور پاکستان کے انتہائی ترقی یافتہ صوبے کی حیثیت اختیار کرکے فیڈریشن کی مضبوطی کا باعث بنے گا۔جنوبی پنجاب کے اضلاع بہاولپور کا حصہ بننے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیںگے ‘اس طرح بہاولپور کو صوبہ بنانے سے بلوچستان‘ سندھ اور صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی مزید صوبے بنانے کی تحریک ازخود ختم ہوجائے گی ۔صوبہ جنوبی پنجاب کی تشکیل کیخلاف البتہ پنجاب میں اندرونی طور پر پراسرار طریقے سے ایک خطرناک مہم کا آغاز ہوچکا ہے جس بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ لوگ پنجاب کی تقسیم کو باآسانی قبول نہیں کریں گے اور لسانی فسادات برپا کئے جانے کے اندیشے بھی موجود ہیں اور 'جاگ پنجابی جاگ ‘کا نعرہ بھی تقویت پکڑ سکتا ہے۔
ان تمام حقائق کے مطابق ریاستوں کی ذمہ داری میں اس پہلو کو خاص اہمیت حاصل ہے کہ وہاں رہنے والے لوگوں کی عام ضروریات ان کی دہلیز پر مہیا کی جائیں۔ یورپ اور امریکہ کے متعدد حصوں میں مقامی سطح پر آسانی اس حد تک بڑھائی جا چکی ہیں کہ پاسپورٹ اور ویزے کی سہولتیں بھی عام آدمی کو اپنے شہر میں دستیا ب ہیں۔بھارت سمیت کئی ممالک میں بڑے صوبوں کو چھوٹے انتظامی یونٹوں میں تبدیل کرکے نہ صرف سرکاری مشینری کی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد ملی بلکہ عام لوگوں اور حکومت دونوں کے لیے وقت کے ضیاع سے بچنے اور اخراجات میں کمی کی صورت پیدا ہوئی۔ آج کے دور کے مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جو شہردارالحکومت سے جتنا دور ہے اتنا ہی پسماندہ ہے۔ وہاں ترقی کے ثمرات فاصلے کے باعث موثر طور پر نہیں پہنچ پاتے۔ امریکہ اور یورپ سمیت منفرد مقامات پر یہ تدبیر کی گئی کہ چھوٹے انتظامی یونٹوں کی تشکیل کی صورت میں اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچا دیا گیا اور تیز رفتار مواصلاتی سہولتوں کے ذریعے دارالحکومت سے عام آدمی کا فاصلہ ختم یا بہت کم کر کے عوام اور اہلکار دونوں کے لیے فوری رابطے آسان بنا دیے گئے۔ 
ان باتوں کو سمجھنے والے حکمران ہمیں نصیب ہوتے تو دنیا ہمارے نصیب پر رشک کرتی۔ حیرت ہوتی ہے ان حکمرانوں اور اپوزیشن کے لوگوں پر جو سامنے کی بنیادی حقیقتوںسے بھی واقف نہیں۔ان کی غلط تاویلوں ہی کی وجہ سے ان کی سمجھ بوجھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور وہ بھی اتنے دبیز کہ فہم و فراست اس راہ سے گزر ہی نہ سکے۔ میرے خیال میں جنوبی پنجاب کی ثقافت‘ تہذیب‘ تمدن‘ روایات اور اقدار کی ترویج کیلئے بہاولپور کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی راہ ہموار ہونی چاہئے۔ جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع اس میں شامل کرکے ایک خوشحال خطے کی بنیاد رکھی جس سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں