"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی تنہائی…؟

پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کی معاونت سے گلگت بلتستان میں چلایا جانے والا ''بلاورستان نیشنل فرنٹ‘‘ حساس ادارے نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اس نیٹ ورک نے گلگت بلتستان میں انتشار پھیلانے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی‘ جسے پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بے نقاب کرکے ناکام بنا دیا۔ ''بلاورستان نیشنل فرنٹ‘‘ کی ''را‘‘ کی زیر سرپرستی آبیاری کی گئی‘ جس کا مقصد یونیورسٹی طلبا اور گلگت بلتستان کی نوجوان نسل کو دہشت گردی اور علیحدگی کی ترغیب دینا تھا۔ اس سلسلے میں ''بلاورستان نیشنل فرنٹ‘‘ کے حمید خان نے ''را‘‘ کے اشارے پر عالمی مالیاتی اداروں کو خطوط بھی لکھے‘ اور گلگت بلتستان اور دیگر مقامات پر ڈیموں کو مالی و تکنیکی مدد فراہم کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق بھارت نے حمید خان پر 1999ء سے 2007 ء تک اور پھر 2015ء سے 2018ء تک بھاری سرمایہ کاری کی۔ اسے گلگت بلتستان میں مذموم سرگرمیوں کے لیے ایک ارب روپے کے لگ بھگ رقم فراہم کی گئی اور ''بلاورستان ٹائمز ‘‘بھی شائع ہوتا رہا۔ اسی طریقے سے شیر نادر شاہی 2016ء میں عبدالحمید خان اور'' را‘‘ کی مدد سے متحدہ عرب امارات چلا گیا‘ جہاں سے وہ نیپال منتقل ہوا۔ عبدالحمیدخان نے پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں کی موثر کارروائی کے نتیجے میں 8 فروری 2019 ء کو غیر مشروط طور پر سرنڈرکیا تھا جبکہ 29 مارچ 2019ء کو شیر نادر شاہ نے بھی سرنڈر کر دیا‘ جسے پاکستانی حساس ایجنسی کی کامیابی کے ساتھ نیپال سے پاکستان واپس لایا گیااور ان کے جنگجو گروپ کے 14 متحرک کارکن اس آپریشن کے دوران حراست میں لے لئے گئے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘نئی دہلی کے ایما پر پاکستان کی سلامتی کے خلاف خفیہ اور ا علانیہ سازشوں میں مصروف رہتی ہے۔ بھارتی حکومت نے اس معاملے میں اسے فری ہینڈ دے رکھا ہے؛ چنانچہ وہ پاکستان کی سلامتی‘ استحکام اور ترقی کے ہر منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی اور گھناؤنی سازشیں کرتی رہی ہے۔ اس مقصد کے تحت وہ پاکستان کے اندر سے ہی چند این جی اوز اور دیگر مفاد پرست گروہوں کے ورکروں کوخرید کر انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے۔ اس کے لئے ''را‘‘ ان کی تربیت کرتی ہے اور وہ اپنی سرپرستی میں اسلحہ اور رقوم دے کر پاکستان کی سلامتی کو کمزور کرنے کے لیے مختلف منصوبوں پر غورکرتی ہے۔ پاکستان کی ترقی روکنے کی سازش کے تحت ہی ان کو گوادر پورٹ اور پاکستان چین اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے متحرک کیا گیا ۔ ان تمام تر سازشوں کا ہدف پاکستان کے استحکام کو کمزور کرنا تھا۔ پاکستان کی بد خواہی اور اس ملک کی سلامتی پر وار کرنے کی سازشیں تو بھارت کی سرشت میں شامل ہے ‘ مگر پاکستان میں بھارت نواز این جی اوز پر کڑی نظر رکھنا ہوگی اور سوشل میڈیا پر بعض لوگ جس انداز سے رائے عامہ میں زہر گھول رہے ہیں ان کے محاسبے کا بھی ٹھوس بندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت کی نا عاقبت اندیشانہ پالیسیوں کی وجہ سے ملک دیوالیہ پن کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ حکومت کی نااہلی اب ضرب المثل بن چکی ہے۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپوزیشن‘ حکومت کے خلاف مؤثر انداز میں احتجاجی تحریک کا آغاز کرنے کی حکمت عملی پر غور کر رہی ہے‘ لیکن اپوزیشن اندرونی خلفشار کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کی حکومت پر بھرپور وار کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ عمران خان نے اگست 2014 ء اور نومبر 2016ء میںاسلام آباد میں جو دھرنا دیا ‘ اس وقت عمران خان پارلیمنٹ میں سیاسی طور پر تنہا تھے اور انہوں نے یک طرفہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ارکان اسمبلی کے استعفے بھی قومی اسمبلی کے سپیکر کو بھجوا دیے تھے۔ عمران خان کو دیگر پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل نہ تھی اور جماعت اسلامی جو پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوامیں اتحادی تھی اس نے بھی عمران خان کے احتجاجی دھرنے میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس لئے عمران خان کے 126 دنوں کے دھرنے کی ناکامی کی بڑی وجہ عمران خان کی پارلیمانی تنہائی تھی۔ تب نواز حکومت کے بچ جانے کی بڑی وجہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن حکومت کا مضبوط اتحاد تھا۔ مگر اب متحدہ اپوزیشن عمران حکومت کو پسپا کرنے کے لیے متحد ہو گئی ہے‘ اور جون کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں اسلام آباد کو گھیرے میں لینے کے لیے حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔ اس وقت اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل کر اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں جبکہ عمران خان اپنی ٹیم کی کارکردگی کی وجہ سے سیاسی طور پر تنہائی کا شکار محسوس ہوتے ہیں۔ بظاہر ملک کی ایک بھی اپوزیشن جماعت پارلیمنٹ کے تحفظ میں عمران خان کے ساتھ نہیں ہے۔ جب متحدہ اپوزیشن کا لانگ مارچ طویل ہوتا جائے گا یا اپوزیشن اسلام آباد کا گھیراؤ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ‘ اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور جوائنٹ ڈیموکریٹک الائنس سندھ بھی عمران خان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے آئینی طور پر حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس لئے عمران خان صاحب کی سیاسی تنہائی ملک کے جمہوری نظام کو خطرے سے دوچار کر سکتی ہے۔
اپوزیشن کی اسلام آباد پر مجوزہ یلغار انتہائی خطرناک ہو گی کیونکہ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی قوت میں مدارس اور مذہبی رجحانات کے حامل لوگ شامل ہیں۔ ان کے کارکن اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں بہت فرق ہے۔ وہ اسلام آباد کو طویل عرصے تک بند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمان آٹھ مہینوں سے اسلام آباد مارچ کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہیں ایک سیاسی حمایت کی ضرورت تھی‘ جو بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر اور عیدالفطر کے بعد متحدہ اپوزیشن کی کانفرنس سے مل جائے گی۔ مولانا فضل الرحمن صاحب کے پورے پاکستان میں مدارس ہیں جبکہ صوبہ خیبرپختونخوامیں عوامی نیشنل پارٹی کی حمایت بھی ہے۔ اس تناظر میں صوبہ خیبر پختونخوا سے آنے والے سیاسی کارکن اسلام آباد مارچ میں کلیدی حیثیت رکھیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) سٹریٹ پاور کی صلاحیت نہیں رکھتی‘ ان کے چند ہزار ورکر چند دنوں کے لیے شرکت کریں گے‘ اسی طرح پیپلز پارٹی کے بھی چند ہزار سیاسی کارکنوں کی شرکت متوقع ہے‘ ایسے ماحول میں وزیر اعظم عمران خان کی اہم فاختائیں ممکنہ طور پر غیر جانبدار ہو کر ایک طرف کھڑی ہو جائیں گی۔ اس طرح وزیراعظم عمران خان کی سیاسی تنہائی ان کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت‘ اپوزیشن اور ملک کے عوام باہمی اتفاق سے ریاست کے وجود کو قائم رکھنے کے لیے باہمی طور پر کسی میثاق پر اتفاق رائے کرکے ملک کو معاشی بحران سے بچائیں۔ اس مقصد کے لئے وزیراعظم عمران خان کو اپنی ٹیم کی کارکردگی کو مدنظر رکھنا ہوگا‘ جو اِن کے لیے بوجھ بنی ہوئی ہے۔ ان کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ہو گا یا عہدوں سے ہٹانا ہو گا۔ تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی تذبذب کا شکار ہیں۔ اب اپوزیشن اپنے احتساب کی وجہ سے خار کھائے بیٹھی ہے‘ وہ حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے لانگ مارچ کے موقع کے انتظار میں ہے۔مہنگائی سے پریشان عوام کو اپوزیشن اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتی ہے۔ ملک میں اپوزیشن کا دباؤ ایک اور جانب بھی بڑھتا جا رہا ہے اور قومی احتساب بیورو کو متنازعہ بنانے کی مذموم مہم جاری ہے۔ چیئرمین نیب کو مخصوص مقاصد کے تحت ہدف بنایا جا رہا ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے پریس کانفرنس کرکے ملکی دولت لوٹنے والوںکو ان کے مکروہ چہرے دکھا دیے ہیں اور عوام اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اعزازی چیئرمین سید شبر زیدی کے لئے بیوروکریسی کو کنٹرول کرنا مشکل ترین ہو گا۔ ان کو چاہئے کہ میڈیا سے اجتناب کریں۔ اعزازی چیئرمین وزیراعظم کو مشورہ دے سکتے ہیں تاہم عملی طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو براہ راست وزیر اعظم کے کنٹرول میں چلا گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں