"KDC" (space) message & send to 7575

تازہ ہوا کا جھونکا

حالیہ دنوں پاک فوج میں اعلیٰ سطحی تقرریاں عمل میں لائی گئی ہیں اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جینس تعینات کیا گیا ہے۔ افواجِ پاکستان میں تقرر و تبادلے عوامی توجہ کا معاملہ ہیں‘ جبکہ آئی ایس آئی کی سربراہی کے عہدے پر تعیناتی پر اندرونی حلقوں کے ساتھ ساتھ بیرونی قوتوں کی بھی گہری نظر ہوتی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی ریٹائرمنٹ کے بعد اکتوبر 2018ء میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تعینات ہوئے‘ اب انہیں کور کمانڈر گوجرانوالہ تعینات کیا گیا ہے اوران کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی کی سربراہی سونپی گئی ہے۔ معروضی حالات خصوصی طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر بنائے جانے والے سازشوں کے جال آئی ایس آئی کے فعال کردار کے متقاضی ہیں ۔دنیا میں بہترین شہرت کی حامل پاکستان کی صف اول کی خفیہ ایجنسی اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرتے ہوئے دشمنوں کی سازشوں اور ناپاک منصوبوں کو ناکام بناتی رہی ہے۔جنرل نوید مختار کے بعد جنرل عاصم منیر اس ادارے کو بڑی مہارت سے لیڈ کرتے رہے‘ اب یہ ذمہ داری جنرل فیض حمید کے کندھوں پر ہے۔ وہ اس سے قبل آئی ایس آئی میں کاؤنٹر انٹیلی جینس اور انٹرنل سکیورٹی کے سربراہ رہے ہیں اور ان کی کارکردگی مثالی رہی ہے ۔ انٹرنل سکیورٹی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے دہشت گردی کے خلاف اہم کامیابیاں حاصل کیں۔جنرل فیض حمید کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور تجربے کے باعث قوم کی نگاہیں اب بھی دنیا کی صف اول کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی طرف لگی ہوئی ہیں ۔
قیامِ پاکستان کے بعد ہی آرمی کی خفیہ ایجنسی نے سرحدوں کی حفاظت کے لیے فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔ سوویت یونین کی نظریاتی یلغار کو روکنے کے لیے بھی آئی ایس آئی نے اہم قومی خدمات سر انجام دیں ۔ صدر ایوب خان کے دور میں آئی ایس آئی کو جدید خطوط پر موثر اور فعال بنایا گیا‘ لیکن اس زمانے میں سول انٹیلی جینس بھی اہم کردار ادا کر رہی تھی‘ جن کے سربراہوں میں اے بی اعوان اور این اے رضوی نمایاں تھے‘ جبکہ آئی ایس آئی میں لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی نے بلوچستان میں شورش پر قابو پانے میں وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی معاونت کی اور جنرل ضیا الحق کے دورِ حکومت میں جنرل حمید گل اور جنرل اختر عبدالرحمن کی قومی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ جنرل مشرف کے دورِ حکومت میں ملک کو استحکام بخشنے میں جنرل محمود‘ جنرل احسان الحق اورجنرل اشفاق پرویز کیانی کا اہم کردار رہا مگر لیفٹیننٹ جنرل رانا نسیم چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت جہانگیر کی حمایت کی پاداش میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا۔ رولز آف بزنس آرمی ایکٹ51 کے تحت آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اندرونی اور بیرونی مدو جزر کے بارے میں وزیراعظم کو سمری بھیجنے کے قانونی طور پر پابند ہوتے ہیں‘ اسی طرح انٹیلی جینس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل بھی اندرونی حالات کے بارے میں لمحہ بہ لمحہ حالات سے وزیراعظم کو آگاہ کرتے ہیں ‘مگر جب امورِ مملکت کو ذاتی مفاد اور منی لانڈرنگ اور بزنس کے روپ میں تبدیل کردیا گیا ‘یہ روایت بھی پس منظر میں چلی گئی ‘تاہم جنرل فیض حمید کے تقرر سے وہی روایات برقرار رکھی جائیں گی اور وہ وزیراعظم پاکستان کو پاکستان کے لیے اہم اندرونی اور بیرونی حالات سے آگاہ کرتے رہیں گے ۔
اگرچہ پاکستان کی سول سوسائٹیوں کو کروڑوں روپے کی امداد ملتی رہتی ہے اور انہوں نے اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت وہ بیرونی قوتوں کو افواج پاکستان کے حوالے سے غلط تاثر دیتی رہتی ہیں۔ 2002ء کے الیکشن میں بعض سول سو سائٹیوں نے اس انداز میں یہ منفی پراپیگنڈہ کیاکہ 2007ء کے الیکشن سے پہلے ہی پاکستان میں امریکی سفیر ‘یورپی یونین کے ممالک اور برطانوی امدادی اداروں نے الیکشن کمیشن کو گھیرے میں لیا‘تاہم اس وقت کے الیکشن کمیشن کے عہدیدار فخر سے یہ کہہ سکتے ہیںکہ ہم نے مغربی اداروں کے تمام خدشات کاازالہ کیا اور انہیں پاکستان کے اداروں کی صلاحیتوں اور کام کرنے کے انداز سے مطمئن کر دیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ 2008 ء کے انتخابات کو ان ممالک کے مبصرین نے پاکستان کی تاریخ کے شفاف انتخابات قرار دیا۔ اسی طرح 11 مئی 2013 ء کے انتخابات کا جائزہ ہماری خفیہ ایجنسیاں لیتی رہیں کہ الیکشن کے بارے میں اور ان کے ریکارڈ میں اصل حقائق موجود ہوں ۔ 2018ء کے انتخابات میں پاک فوج کے پولنگ سٹیشنوں پر فرائض کے بارے میں یورپی یونین کے ممالک اور ان کے مبصرین نے تحفظات کا اظہار کیا تھا‘ مگر آخری تجزیات میں ان الزامات کو خود ہی رد کر دیا۔ ریکارڈ پر موجود ہے کہ میں نے یورپی یونین کے مبصرین کو آئینہ دکھاتے ہوئے وارننگ دی تھی کہ وہ بین الاقوامی مبصرین کے ضابطہ اخلاق کو کراس نہ کریں۔ میں نے نگران وزیر اعظم چیف جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک کو بھی آگاہ کر دیا تھا کہ اور وفاقی وزیر قانون و انصاف سید علی ظفر اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان کو بھی حالات سے مطلع کرتا رہا۔یہ کوششیں رنگ لائیں اور یورپی یونین کے مبصرین اپنے ضابطہ اخلاق کے دائرے ہی میں رہے ۔
آئی ایس آئی کے نئے سربراہ جنرل فیض حمید کا تقرر پاکستان کے اندرونی و بیرونی استحکام کے لیے ہر لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ انہیں ان تمام کرداروں کے بارے میں مکمل معلومات ہے‘ جو مختلف بہروپ میں غیر ملکی گماشتے کے طور پرکام کرتے رہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کرپشن فری معاشرے کے ایجنڈے کے ساتھ عوامی مینڈیٹ حاصل کرکے اقتدار میں آئے ہیں ۔ انہوں نے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے پہلے دن سے اب تک ملک اور قوم کو معاشرے کے کرپٹ عناصر سے نجات دلانے کا عزم کیا ہوا ہے۔ اس حوالے سے ان کے جذبے اور سٹیٹ کی عملداری پر کوئی شک و شبہ نہیں‘ تاہم جمہوریت اور انصاف کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ جمہوریت کی گاڑی کو سبک خرام بنانے اور استحکام کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لیے اپوزیشن کو نظریۂ مملکت کی خاطر ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے‘ بصورت ِدیگر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں میں محاذ آرائی سنگین صورت ِحال اختیار کرتی ہے‘ جس سے پارلیمنٹ کے باہر بیٹھے غیر جمہوری عناصر کی جمہوریت کے خلاف سازشیں پروان چڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے نتائج ماضی میں قوم اور قومی سیاسی قائدین متعدد بار بھگت چکے ہیں ‘ اسی تناظر میں حکمران جماعت اور اس کی قیادت کو ہی معاملہ فہمی سے کام لینا ہے ۔ اس لیے عوام کو اور حزب اختلاف کو مطمئن کرنے کے لیے وفاقی اور پنجاب کے بجٹ پر نظر ثانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
سننے میں آیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کو تقریر نہ کرنے دینے کی ہدایت وزیراعظم نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں دی تھی اور کہا تھا کہ اپوزیشن سے ضمانت لو کہ وہ ہمیں بھی خاموش رہ کر تقریر کرنے دے گی اور اپوزیشن لیڈروں کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کی ہدایت بھی انہوں نے ہی دی تھی۔ اپوزیشن اسمبلی میں وزیر اعظم کی تقریر میں خلل ڈالتی ہے یا حکومتی پارٹی اپوزیشن لیڈر کو بولنے نہیں دیتی‘ دونوں طرز عمل جمہوری رویوں کے منافی ہیں۔ پارلیمنٹ جمہوریت کا چہرہ ہے‘ عوام کو اس ضمن میں مختلف الخیال سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی حاصل ہے‘ ان کا نقطۂ نظر توجہ سے سننا چاہیے۔اپوزیشن نے وزیر اعظم کی تقاریر میں مداخلت کرنے کا اعلانیہ اظہار کیا تھا تو قوم حیرت میں پڑ گئی‘ بہرکیف18 جون کے بعد حکومتی ارکان نے اپنی پالیسی کے برعکس یو ٹرن لیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ان کی تقاریر میں مداخلت کرنے سے گریز کیا جائے‘ اسی سے آئندہ کی حکمت عملی واضح ہو جاتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں