"KDC" (space) message & send to 7575

میثاق ِ معیشت اور معاشی ترجیحات

پاکستان میں اس وقت احتساب کا جو عمل جاری ہے اگر یہ نتیجہ خیز نہ ہوسکاتو حکومت کی سیاسی مقبولیت کو نقصان پہنچے گا اور مستقبل میں کرپشن کو روکنا بھی مشکل ہو جائے گا ۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا 11 اگست 1947ء کا تاریخی خطاب‘ جس میں قائد اعظم نے کرپشن کو پاکستان کے لیے ناسور قرار دیتے ہوئے اس کے ازالے کے لیے مؤثر قانون سازی کی طرف اشارہ دیا تھا‘ کو پاکستان میں احتساب کے عمل کا نقطہ آغاز کہہ سکتے ہیں۔ اسی آئین ساز اسمبلی نے پروڈا اور ایبڈو جیسے احتساب کے قوانین کے ذریعے بدعنوانی میں ملوث ان سیاستدانوں کامحاسبہ کیا تھا جو پاکستان کی بااثر شخصیات تصور کیے جاتے تھے۔ بعد ازاں مختلف مواقع پر سیاستدانوں کو پلاٹ‘ پرمٹ‘ وزارتیں اوردیگر مراعات اور لوٹ مار کے مواقع فراہم کیے گئے اور سیاست میں کرپشن کا زہر گھول دیا گیا۔
جو سیاستدانوں اس ملک کو چلاتے رہے ہیں‘ ان کا احتساب میری رائے میں 1985ء سے شروع ہونا چاہیے۔ پاکستان کے عوام نے سیاست اور جمہوریت کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں‘ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کئی شعبوں میں مثالی کامیابی حاصل نہیں کر سکی‘ خاص طور پر معیشت میں ‘مگر اس وقت علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے ‘ امریکہ نے ایران کے خلاف جنگ کا طبل بجا دیا ہے اورایران کے خلاف جنگ کے آغاز سے پورے خطے میں جنگ کے اثرات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ خطے کی اس نازک صورتحال میں پاکستان میں ہر سطح پر سنجیدہ رویہ اختیار کر نے کی ضرورت ہے‘ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سیاسی قیادت ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہے۔ قومی معیشت گزشتہ چند ماہ سے تیزی سے پستی کی طرف جا رہی ہے‘ مہنگائی اور بے روزگاری میں جس رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اور ہماری کرنسی جس بد ترین گراوٹ کا شکار ہے ہر با شعور پاکستانی ایسی صورتحال میں اضطراب میں مبتلا ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم کا‘بقول سپیکر قومی اسمبلی‘ میثاق معیشت پر آمادہ ہو جانا قومی معیشت کی بحالی کے امکانات کے لیے خوش آئند پیش رفت ہے۔ 
دنیا کے تمام ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں معیشت ‘تعلیم ‘بلدیاتی نظام اور داخلی اور خارجی امور سمیت کم و بیش تمام شعبہ ہائے زندگی کی حکمت عملی کے بنیادی خدوخال بڑی حد تک مستقل بنیادوں پر متعین ہوتے ہیں۔ حکومتوں کے آنے جانے سے اس میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیںہوتی۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اورجرمنی سمیت پوری مغربی دنیا نیز جنوبی کوریا اورجاپان جیسے ممالک اس حقیقت کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جن ملکوں میں جمہوری روایات مستحکم نہیں ہوتیں‘ ان میں اقتدار میں آنے والا ہر گروہ اپنی الگ شناخت بنانے اور اپنی انفرادیت کا اظہار کرنے کے لیے سابق دورکی ہر پالیسی کو بدل ڈالنا ضروری سمجھتا ہے۔ وطن عزیز بھی اپنی عمر کے ستر سالہ دور میں بار بار تجربات سے دوچار ہوچکا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ آج تک یہاں نہ کوئی مستقل تعلیمی نظام وجود میں آ سکا ہے‘ نہ معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام کا اہتمام ممکن ہوا ہے اور نہ ہی نظامِ عدل میں اصلاحات حتمی شکل اختیار کر سکی ہیں۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کا بھی یہی حال ہے۔ بظاہر اس رویے کے باعث ہماری معیشت‘ جسے سال ڈیڑھ سال پہلے تک دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں شمار کیا جاتا تھا‘آج سنگین صورتحال سے دوچار ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم کی 'میثاق معیشت ‘ پر آمادگی قومی مفاد کا تقاضا پورا کرنے اور دانشمندی کی راہ اپنانے کے مترادف ہے‘ لیکن آصف علی زرداری اور شریف برادران اس کو احتساب مقدمات سے مشروط کر کے اس نیک جذبے کی روح کو زائل کر رہے ہیں۔ مریم نواز نے تو حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے 'مذاقِ معیشت‘ قرار دے کر دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس طرح اگر ماضی جیسی محاذ آرائی کو فروغ دیا جاتا رہے گا اور افہام و تفہیم کے بجائے اپنی اپنی انا ہی کو مقدم رکھا جائے گا تو ماضی کی طرح جمہوریت کی بساط لپٹ جانے کے خد شات خارج از امکان نہیں۔ مفاد پرست سیاستدانوں کی وجہ سے جمہوریت کو خطرہ لاحق رہے گا مگر ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ حکومتی اقدامات سے بڑھنے والی مہنگائی سے عوام بھی خاصے زچ ہیں۔ اسی تناظر میں قومی افہام و تفہیم کا راستہ ہی جمہوریت کے استحکام کا باعث بن سکتا ہے؛ چنانچہ کیوں نہ سچے دل سے فلاحی ریاست کا عزم کرتے ہوئے کام کا آغاز کیا جائے‘معیشت کو بحال کیا جائے‘ لوگوں کو روزگار اور آئینی حقوق فراہم کیے جائیں اور قومی قرضہ جات سے نجات حاصل کرنے کا عہد کیا جائے۔ اگر حکومت ان خطوط پر آگے بڑھنے کیلئے سنجیدہ ہے تو عوام موجودہ بجٹ کی تلخیوں اور مشکلات کو منظور کر نے کو بھی تیار ہو سکتے ہیں ‘مگر عوام سے مزید قربانی کی بجائے کیوں نہ پارلیمنٹ کے اخراجات میں پچاس فیصد کٹوتی کی جائے اور ایوان صدر کے صدارتی گیسٹ ہائو س کو بھی کرائے پر دے کر صدارتی عملے کے اخراجات ان سے پورے کیے جائیں؟ 
میثاق معیشت کی مثالی صورت یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی اور ریاستی فریق مل بیٹھ کر اپنے معاشی خطوط اور ترجیحات طے کریں‘ جن کی روشنی میں پاکستان کو ایک دست نگر معیشت کی بجائے پیداواری معیشت کے راستے پر گامزن کیا جا سکے۔ ہمارے اخراجات عدم توازن کا شکار ہیں‘ ہماری واحد امید انسانی سرمائے کے بہتر معیار سے منسلک ہے اور اس کے لیے معیاری تعلیم کا اہتمام کرنا ہو گا۔ میثا ق معیشت کا مقصد ایسا اتفاق رائے ہونا چاہیے جس میں قومی سلامتی کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قوم کے معاشی امکان کو بروئے کار لایا جاسکے۔ موجودہ صورتحال میں ایسے تدبر اور بالغ نظری کے امکانات معدوم ہیں‘ لیکن پاکستان کی قیادت کو جلد یا بدیر ان خطوط پر سوچنا ہو گا۔ قومی معیشت چلانے کا یہ کوئی مناسب طریقہ نہیں کہ ہر سال نئے قرض لے کر ماضی کے قرض چکا ئے جائیں؛ چنانچہ میرے خیال میں مریم نواز صاحبہ کو زیب نہیں دیتا کہ میثاق معیشت کو مذاقِ معیشت کہہ کر اس اتفاق رائے کے امکانات کو تحلیل کر نے کی کوشش کریں۔ ہمارے ہاں سیاسی مقاصد کے لیے بیان بازی بھی معیشت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ایک بیان سے سٹاک مارکیٹ گرجاتی ہے اور حکومتی ارکان کی بے پروائی والی گفتگو سے ڈالر مہنگا ہو جاتا ہے۔ میثاق معیشت میں ایسے اصول وضع کیے جائیں جن کے تحت سیاسی اختلافات کے کسی بھی صورت میں معیشت پر اثرات نہ پڑیں۔ وزیر اعظم نے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ملکی تاریخ کے ایسے وزیر اعظم ہیں جن کو ریاستی اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے اوریہ ملکی مفاد کے لیے ایک خوشگوار حقیقت ہے کیونکہ وزیراعظم عمران خان اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود دیانت دار سیاستدان ہیں اور ریاستی اداروں کی جانب سے ایسے لیڈر کی حمایت ملکی اور قومی مفاد میں ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی نے عمر ایوب خان کے نقطۂ اعتراض پر کہ سلیکٹڈ کا لفظ استعمال کرنے پر پابندی لگائی جائے ‘ ریمارکس دیتے ہوئے یہ لفظ استعمال کرنے سے گریزکا مشورہ دیا۔ ویسے دنیا کی پارلیمانی تاریخ میں یہ لفظ غیر پارلیمانی کے زمرے میں نہیں آتا؛ تاہم سپیکر قومی اسمبلی نے حالات کے مطابق درست مشورہ دیا ہے کہ عمران خان صاحب کو تحریک انصاف کی پارلیمانی کمیٹی نے لیڈر آف ہائوس سلیکٹ کیا اور قومی اسمبلی نے انہیں منتخب کیا۔ یہی قانون کا تقاضا ہے۔ عمران خان صاحب کو طنزیہ طور پر سلیکٹڈ وزیراعظم کہنے والوں کو احساس ہونا چاہیے کہ انتخابات کے بعد پارلیمانی کمیٹی ابتدا میں اپنے سینئر رکن کو لیڈر آف ہاؤس سلیکٹ کرتی ہے اور بعد ازاں ان کو ہاؤس ہی نے منتخب کرنا ہوتا ہے۔ اس لفظ کو غیر پارلیمانی قرار دینے کے لیے سپیکر قومی اسمبلی پارلیمنٹ رولز اور ایکٹ کے تحت با قاعدہ رولنگ بجٹ اجلاس کے بعد قومی اسمبلی کے ایوان میںجاری کر سکتے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کوکسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا‘ نہ ہی یہ آئین کے آرٹیکل 19 کے زمرے میں آتی ہے۔ 'سلیکٹڈ‘ لفظ پر قدغن کے خلاف کسی عدالتی فورم پر جانا درست نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں