"KDC" (space) message & send to 7575

متحدہ اپوزیشن کیسے ناکام ہوئی؟

الیکشن کمیشن کے سندھ اور بلوچستان کے ارکان کے تقرر کا معاملہ ایک طرح سے بند گلی میں داخل ہو گیا ہے۔ آئین کے تحت الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے لئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اتفاق رائے سے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجتے ہیں ‘ اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر الگ الگ تین ، تین نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجتے ہیں اورپارلیمانی کمیٹی کم از کم دو تہائی اکثریت سے چھ میں سے ایک نام کا انتخاب کر تی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی میں مجوزہ ناموں پر ڈیڈلاک پیدا ہوجائے تو اس بارے میں آئین خاموش ہے۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین اسی معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا اور اپوزیشن اور حکومت ‘ دونوں کمیشن کے ارکان کے تقرر کے لئے سپریم کورٹ سے رہنمائی کی خواہش مند ہیں۔
الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تقرری کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کے آئینی‘ قانونی جواز کے حوالے سے میری ناقص رائے یہ ہے کہ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 213‘ 217 اور 218 کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آئینی معاملے میں فیصلہ دینے سے گریز کر سکتی ہے۔ اس کا آئینی راستہ یہی ہو سکتا ہے کہ قومی اسمبلی میں ارکانِ الیکشن کمیشن کے تقرر کے لئے اٹھارہویں ترمیم سے پیشتر کا طریقہ بحال کیا جائے۔ اس طریقۂ کار سے الیکشن کمیشن کی غیر جانبدارانہ حیثیت مستحکم ہو گی۔
برطانیہ اور پاکستان کے مابین ملزمان کی حوالگی کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ بنیادی طور پر حکومت سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار‘ حسن نواز اور حسین نواز کو پاکستان واپس لاکر ان کا ٹرائل کرنا چاہتی ہے ‘مگر اس مقصد کے لئے وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اپنی توانائیاں استعمال کرنے کے باوجود برطانیہ کے ساتھ ملزموں کی حوالگی کا کوئی ایسا معاہدہ نہیں کرسکے جس کے تحت برطانیہ میں مقیم کسی پاکستانی شہری کو سیاسی بنیادوں پر سزا دیے جانے کا خطرہ موجود ہو۔ تحویلِ مجرمان کا معاہدہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان 2007ء تک موجود تھا‘ جس کے تحت برطانیہ نے پاکستان کو چند مجرم دیئے بھی تھے‘ تاہم مجرم کراچی پہنچنے کے چند روز بعد ہی رشوت اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر نام نہاد این آر او کی آڑ میں جیل سے باہر آ گئے تو دونوں ملکوں کے درمیان اس معاہدے پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ صدر پرویز مشرف نے امریکی حکومت کے دباؤ کے تحت ‘ کونڈولیزا رائس کے کہنے پر اور صدر بش کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جو این آر او کیا تھا‘ اس سے پاکستان کے تمام کرپٹ بیوروکریٹس ‘ سیاسی ورکرز اور سیاسی رہنماؤں کو نئی جلا ملی اور پاکستان میں رشوت‘ منی لانڈرنگ اور جرائم کے لیے راہ ہموار ہو گئی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سینکڑوں مجرم کارکنوں کی سزائیں منسوخ ہوگئیں اور ان کو محکموں میں چھپا دیا گیا‘ جس سے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا‘ اور تاجر و سرمایہ کار اس صورتحال کی وجہ سے ملک سے فرار ہونے لگے۔
پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا معاملہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے‘ کیونکہ برطانیہ کا غیر ملکی ایکٹ 2003ء اس کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ ایکٹ ایسے کسی فرد کی حوالگی کی اجازت نہیں دیتا جس کو اس کے ملک میں نسل‘ مذہب ‘قومیت یا سیاسی بنیادوں پر سزا دیئے جانے کا خطرہ ہو۔ اس کے علاوہ بھی اسی ایکٹ میں درجنوں ایسی شقیں موجود ہیں مثلاً کسی شخص کو غیر منصفانہ ٹرائل کا خدشہ ہو ‘ ملزم سے انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کے مطابق سلوک کی توقع نہ ہو اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ملزم کو سزائے موت سنائے جانے کا بھی خطرہ ہو‘ لہٰذا برطانوی قوانین کی رو سے اور بین الاقوامی قوانین اور انٹرنیشنل ریلیشنز لا کے مطابق اسحاق ڈار سمیت کسی بھی مجرم کو پاکستان کے حوالے کئے جانے کی امید نہیں ہے۔ اسحاق ڈار‘ حسن نواز‘ حسین نواز برطانیہ ہی میں کاروبار کر رہے ہیں‘ برطانوی قانون کا احترام کرتے ہیں‘ برطانیہ حکومت کو باقاعدگی سے ٹیکس دیتے ہیں‘ اگر مبینہ طور پر یہ مجرم پاکستان سے اربوں روپے منی لانڈرنگ کر کے برطانیہ کے بینکوں میں جمع کروا چکے ہیں اور برطانیہ کی معاشی ترقی و استحکام کا باعث بن رہے ہیں تو برطانیہ ایسے سنہری خاندان کے افراد کو پاکستان کے حوالے کیوں کرے گا؟ نیشنل اکنامک ڈیویلپمنٹ کونسل ان قوانین کا اپنے ماہرین کے ذریعے جائزہ لے کر قوم کو ان مبہم بیانات سے نجات دلائے کیونکہ ان حالات میں وزیر اعظم عمران خان کو ادراک ہونا چاہئے کہ برطانیہ کسی ایسے ملک کے ساتھ حوالگی کا معاہدہ نہیں کرتا جہاں پے درپے مارشل لا کی تاریخ ہو اور پولیس و انصاف کے نظام میں بے شمار خامیاں ہوں۔ ایک اور حقیقت بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ دولتِ مشترکہ کے ممالک میں بھارت واحد ملک ہے جس کا برطانیہ کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ موجود ہے۔ یہ معاہدہ 1992ء میں ہوا تھا لیکن اس کے باوجود گزشتہ سال کے دوران بھارت کی طرف سے برطانیہ کو دی گئی درخواست کے بعدبھی برطانیہ نے بھارت کو مطلوب ملزم اس کے حوالے نہیں کیا۔ حکومت کی برطانیہ سے مفاہمت کی یاد داشت تحویل ملزمان کے لئے نہیں بلکہ صرف اسحاق ڈار کے لئے ہے یعنی دونوں حکومتوں نے مفاہمت کی جس دستاویز پر دستخط کئے ہیں وہ صرف اسحاق ڈار کی حوالگی کے لئے ہے‘ حسن اور حسین نواز کے لئے نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو اس ساری صورتحال کا از سر نو جائزہ لیتے ہوئے شہزاد اکبر‘ جو احتساب کے امور کے ماہر ہیں‘ سے وضاحت لینی چاہئے۔ ملکی سالمیت پر نظر رکھنے والوں کو احساس ہے حکومت پاکستان نے بر طانیہ سے ہمیشہ سیاسی افراد کی ہی واپسی کا مطالبہ کیا ہے ملکی سالمیت سے کھیلنے والے مجرموں کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔
اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس بادی النظر میں بلاول بھٹو زرداری کی حکمت عملی سے ناکام ہوگئی ہے ۔ اپوزیشن کی جارحانہ پالیسی کو چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کی طرف موڑ دیا گیا ہے‘ حالانکہ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی سے عوام کا کوئی سروکار نہیں جبکہ اپوزیشن کا 25 جولائی کو الیکشن کے حوالے سے یوم سیاہ مناناعوام کو لالی پوپ دینے کے مترادف ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور وفاقی سطح پر آصف علی زرداری کی پارٹی کو بیک ڈور چینل سے فوائد حاصل ہورہے ہیں۔ بلوچستان حکومت میں اختر مینگل کی مکمل طور پر اجارہ داری ہے ۔ سردار اختر مینگل پاکستان کے منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ انہوں نے محسوس کرلیا تھا کہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے دو سٹیک ہولڈرز کا مطمح نظر یہی ہے کہ حکومت پر دباؤ ڈالتے ہوئے ان سے اپنے معاملات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ فائدہ لیا جائے ۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی خفیہ حکمت عملی کو بھی سرداراخترمینگل بھانپ چکے تھے کہ پنجاب کا بجٹ 15 منٹ میں منظور کرا لیا گیا‘ اس طرح دراصل عوام کے ساتھ ہاتھ ہو چکا ہے اور آصف علی زرداری اپوزیشن کی کانفرنس میں سندھ پر مکمل کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں جبکہ مولانافضل الرحمن چونکہ بارگین لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور ان کو صوبہ خیبرپختونخوا میں پشتون تحریک نے مکمل طور پر ناک آؤٹ کر رکھا ہے لہٰذا وہ جنرل پرویز مشرف سے حاصل کردہ مراعات کو قومی احتساب بیورو سے بچانے کے لئے الیکشن کو تسلیم نہ کرنے کی مہم چلا کر اپنے فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ سردار اختر مینگل نے اپوزیشن کیمپ میں جانے سے گریز کرتے ہوئے بلوچستان کے مفاد کو مدنظر رکھا ہے۔ اخترمینگل سیاسی انداز میں اپنا پہلوبچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے احتجاجی تحریک چلانے سے عدم اتفاق کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کے اس مطالبے پر بھی اتفاق نہیں کیا کہ وزیراعظم عمران خان بعض معاملات کے حوالے سے اپنی غلطیوں پر قوم سے معافی مانگیں اور مریم نواز نے بھی اصولی بات کی ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے ہٹانے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے؛ تاہم حکومت لرز جائے گی کیونکہ چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے لیے متحدہ اپوزیشن سے کسی کو آگے لایا جائے گا اور چیئرمین سینیٹ ہی صدر کی عدم موجودگی میں قائم مقام صدر مملکت کی ذمہ داری سنبھالتا ہے‘ لہٰذا چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نومبر تک موخر کر دی جائے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں