"KDC" (space) message & send to 7575

کیا بلاول عمران خان کے اتحادی بن سکتے ہیں؟

حکومت ملک کی معاشی بنیادیں درست کرنے کی پوری سعی کر رہی ہے ۔ اس نے معیشت کو دستاویزی بنانے اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کرکے اقتصادی صورتحال کو مستحکم کرنے کا آغاز کر دیا ہے ۔ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ حکومت معیشت کی بہتری کے لیے سنجیدہ ہے لیکن باوجود اس کے عوام کو گمراہ کرنے کا گورکھ دھندا جاری ہے ۔ امیر قطر کا حالیہ دورہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے تھا ‘اس کے پس منظر کے بارے میں کچھ حقائق سامنے آئے ہیں۔ملک کو اس وقت معاشی استحکام کی ضرورت ہے مگردنیا کی تاریخ ایسی ایک بھی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے کہ کسی ملک نے سیاسی طور پر مستحکم ہوئے بغیر معاشی اوراقتصادی ترقی کی منازل طے کی ہوں۔ یہ قومی بقا ‘ حکومتی اور ریاستی ڈھانچے اور عوام کی زندگی سے جڑے براہ راست وہ حقائق ہیں جن میں حکومت اور اپوزیشن کو مل جل کر کام کرنا ہوگا ۔معیشت کی بحالی کو قومی ذمہ داری سمجھ کر حکومت اور اپوزیشن دونوں کو کام کرنا ہوگا۔
اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف پارلیمان کے اندر اور باہر احتجاج کا فیصلہ اور سیاسی درجہ حرارت بڑھانے سے ملک کو درپیش معاشی بحران میں اضافے کا امکان ہے ۔ کل جماعتی کانفرنس کے اہم شرکا نے چیئرمین سینیٹ کو بدلنے اور دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف 25جولائی کو یوم سیاہ منانے کافیصلہ کیا ہے جبکہ بجٹ ‘نو تشکیل شدہ قومی ترقیاتی کونسل ‘ فارن قرضہ کمیشن اور ججز کے خلاف ریفرنس کو مسترد کردیا گیا ہے ۔ان فیصلوں سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ۔یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پیپلزپارٹی درون خانہ عمران خان سے روابط بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے قریبی اور اہم راہنما‘ جن کے عمران خان سے غیر سیاسی تعلقات ہیں‘ انہیں پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت کے بارے میں بریف کر رہے ہیں اور اعتزاز احسن کے اس نقطۂ اعتراض کو آگے بڑھا رہے ہیں جس میں اعتزاز احسن نے بلاول بھٹو زرداری کو مشورہ دیا تھا کہ وہ نواز لیگ کی اعلیٰ قیادت سے ہوشیار رہیں کیونکہ مسلم لیگ ن اپنے عرب دوستوں کے ذریعے خفیہ سمجھوتے پر کام کر رہی ہے ۔ عمران خان کو بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے بریف کیا جا رہا ہے کہ بلاول کسی نااہلی کے مقدمہ میں ملوث نہیں ہیں اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان کو کلین چٹ دیتے ہوئے معصوم قرار دے دیا تھا۔ عمران خان کو یہ بھی تاثر دیا جارہا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں میں پیپلزپارٹی ہی ایسی جماعت ہے جن کے پاس بہترین پارلیمنٹیرینز ہیں۔ان کے پاس خارجہ امور کے ماہرین کی پوری ٹیم موجود ہے‘ موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی ماضی میں پیپلز پارٹی کی ٹیم کا حصہ تھے نیز پیپلز پارٹی کے پاس ایسے مخلص کارکن موجود ہیں جنہیں سیاسی تحریکوں کا وسیع تجربہ ہے ۔ اس کے علاوہ معاشی ٹیم میںپیپلز پارٹی کے پاس چوٹی کے ماہرینِ اقتصادیات موجود ہیں اور ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ بھی ماضی میں اس ٹیم کے اہم رکن رہے جبکہ سٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر کے والد محمد باقر نظریاتی پیپلزپارٹی کے اہم رکن اور ذوالفقار علی بھٹو اورملک معراج خالد وغیرہ کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ قانونی ماہرین کی اچھی خاصی مہارت رکھنے والی ٹیم بھی پیپلز پارٹی کے پاس موجود ہے ۔ تحریک انصاف ایسے جہاندیدہ ساتھیوں سے محروم ہے‘ ان کی پارٹی میں ادھر ادھر سے آئے ہوئے لوگوں کا ہجوم ہے‘ جن کی مہارت تصدیق شدہ نہیں ‘ ان کی بے ہنگم پالیسیوں کا کوئی خوشگوار نتیجہ سامنے نہیںآ رہا ‘ ڈالر164سے تجاوز کر گیا تھا‘ اور اس کے اثرات معیشت کو سر سے پاؤں تک متاثر کرتے ہیں ۔ سیاسی کشیدگی کے باعث کاروبار پر گہری دھند چھائی ہوئی ہے ۔ اوور سیز پاکستانیوں کی اکثریت بھی عمران خان صاحب کی حکومت سے مایوس نظر آتی ہے۔ 
ادھر وزیراعظم آفس میں متعدد مشیروں کے ذاتی مفادات کے تانے بانے ہیں اور وہ اپنے مفادات حاصل کر رہے ہیں ۔وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈئیر اعجاز شاہ کے فرائض میں شامل ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کے ذریعے ان پر نظر رکھیں۔ وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی اور وزرا کی کرپشن پر نظر رکھنے کے لیے انٹیلی جنس کو اہم ذمہ داریاں تفویض کی ہوئی تھیں۔
وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں نے باور کرایا ہے کہ مشترکہ اپوزیشن اسلام آباد مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو جائے گا‘ لہٰذا اکتوبر سے پیشتر جب اسلام آباد لاک ڈاؤن کی طرف پیش قدمی کی جائے‘ بلاول بھٹو زرداری سے خفیہ مفاہمت کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اسی طرح جس طرح اخترمینگل کو مشترکہ اپوزیشن کے چنگل سے نکالنے کیلئے کامیاب حکمت عملی تیار کی گئی تھی اور ماضی میں ایک کامیاب تحریک کے دوران 1982ء میں جنرل ضیا الحق نے سردار عبدالقیوم کا اے آر ڈی سے لاتعلقی کا اظہار کروا کے اے آر ڈی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور جنرل ضیا الحق نے ایک طویل مدت تک کامیاب حکومت کی تھی۔
عمران خان کو مشترکہ کانفرنس کی کارروائی کو عمیق نظر سے دیکھنا چاہیے ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ بلاول بھٹو زرداری حکومت کے خلاف کوئی بڑا اقدام کرنے کا فیصلہ نہیں رکھتے ۔ اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کی تجویز پر بھی بلاول نے اشارتاً اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور انہوں نے مولانا فضل الرحمن کی مذہبی حوالے سے قرارداد کو بھی بالائے طاق رکھنے کا کہہ کر عمران خان کو بیل آؤٹ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر مولانا فضل الرحمن کی قرارداد کو اپنایا جاتا تو ملک تاریکیوں میں چلا جاتا اور حکومت بہت کمزور ہو جاتی۔ ان تمام حالات کو گہری نظر سے دیکھا جائے تو یوں محسوس ہورہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری عمران خان کی سحر انگیز شخصیت کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
اندرونی کیفیت یہ ہے کہ عمران خان چوہدری برادران کے بارے میں شاکی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ اور سردار اختر مینگل سندھ میں پیر آف پگاڑا کا الائنس‘ ان سب گروپس کی وجہ سے عمران خان مشکلات کا شکار ہیں۔وزیر اعظم آفس میں ایسی قد آور شخصیات کا فقدان ہے جو عمران خان کو معاشی‘ سیاسی اور اندرونی بحران سے نکالنے میں اہم کردار ادا کریں۔ وزیر اعظم کے ارد گرد ایسے چھوٹے چھوٹے گروپس موجود ہیں جنہوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو پنجاب کا ہیرو بنانے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور دو قومی نظریہ کی نفی کرنے کی مہم پر گامزن ہیں۔
پاکستان کی منجدھار میں پھنسی ناؤکو کامیابی سے کنارے پر پہنچانے کے لیے برطانیہ ‘امریکہ اور متحدہ عرب امارات میں ایسی سوچ رکھنے والے آگے بڑھ رہے ہیں کہ عمران خان کو قائل کیا جائے کہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ اتحاد کر کے ان کو حکومت میں شامل کرلیا جائے اور اس دوران آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے گھروں کو سب جیل قرار دے کر ان کو سیاسی امور سے الگ کر دیا جائے۔ ویسے بھی مشترکہ اپوزیشن کے اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری کی صرف علامتی شرکت تھی۔ آصف علی زرداری نے بھی نظریۂ ضرورت کے تحت چودھری پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم مقرر کرنے کے لیے رولز آف بزنس میں ترمیم کی تھی تھی۔ اسی حوالے سے اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو بلاول بھٹو زرداری چودھری پرویزالٰہی سے تو زیادہ ہیوی ویٹ ہیں کیونکہ چوہدری برادران کو اس وقت قومی اسمبلی کی 45 نشستیں حاصل تھیں جبکہ بلاول بھٹو زرداری کے قومی اسمبلی میں56سے زائد ارکان اور 18کے لگ بھگ سینیٹر موجود ہیں۔ اور پیپلز پارٹی سندھ میں بھی حکومت کر رہی ہے جبکہ بلوچستان کی حکومت میں بھی ان کا بڑا عمل دخل ہے۔ چیئرمین سینیٹ بھی ان کے رحم و کرم پر ہیں۔ میرے نقطۂ نظر سے یوں محسوس ہورہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کو قریب لانے کیلئے یو ٹرن لینے کی اصطلاح دہرائی جائے گی۔ اب اگر واقعی وزیراعظم اتنا بڑا یوٹرن لے لیں گے تو یہ ایک اہم اور بڑا تاریخی قدم ہوگا‘وہ چھوٹے گروپس کے ہاتھوں بلیک میل ہونے سے نجات حاصل کرلیں گے۔ قومی اسمبلی میں ان کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی اور بلاول بھٹوزرداری مستقبل قریب میں عمران خان کے اتحادی ہوں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں