"KDC" (space) message & send to 7575

چوہدری نثار علی خان کا راز

چوہدری نثار علی خان گاہے میڈیا کے حلقوں میں گفتگو کے ذریعے اشارتاً وزیر اعظم عمران خان کے بارے چند جملوں کے ذریعے سیاسی ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جیسے ان کا ذو معنی انداز میں یہ کہنا کہ عمران خان صاحب کے لیے حالات سازگار بنتے چلے گئے ہیں‘ اور اس حوالے سے وہ بہت سے رازوں سے واقف ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے یہ بھی کہا ہے کہ سچ بولوں گا تو طوفان برپا ہو جائے گا۔ دراصل اتنے اہم راز‘ جن کا چودھری نثار علی خان اشارہ دے رہے ہیں‘ کے بارے میں باتوں سے یوں لگتا ہے کہ آج کے حالات 1970ء سے بھی زیادہ پراسرار ہیں‘ اور یہ کہ سیاست دانوں کو ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں ان کا کہنا یہ تھا کہ سیاستدان ہر معاملے سے باخبر ہونے کے باوجود حالات کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ چوہدری نثار علی خان صاحب کو ریاست کے مفاد میں سچ بولنے میں ہچکچاہٹ دو سال سے محسوس ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں بے شک ان کے سچ بولنے سے طوفان برپا ہو جائے‘ لیکن سچ نہ بول کر وہ ملک سے بے وفائی کر رہے ہیں۔ ریاست جب خطرات کا سامنا کر رہی ہے‘ تو میرے خیال میں چوہدری نثار علی خان سچ نہ بول کر آئین کے آرٹیکل پانچ کو نظر انداز کر رہے ہیں‘ جس کے تحت ہر شہری ریاست کے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھانے کا مجاز ہے۔
دوسری جانب بجٹ کی بات کی جائے تو سابق صدر آصف علی زرداری کے بقول بجٹ پاس نہیں ہوا‘ بلکہ بلڈوز ہوا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے اس طرح کی سیاست کسی بھی طور پر عوام کی پریشانیوں کا حل نہیں ہے۔ ملک کو مشکلات سے نکالنے اور اس کے مسائل حل کرنے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا عوام کے تمام منتخب نمائندوں کا فرض عین ہے اور اس فرض کی حقیقی طور پر ادائیگی اسی صورت ممکن ہے جب اپوزیشن کے اہم رہنما اپنے اندر قوم کو سچ بتانے کا حوصلہ پیدا کریں اور اس سلسلے میں ڈپلومیسی کا کھیل نہ کھیلیں۔ الزامات محض اپوزیشن پر نہیں جناب وزیر اعظم کے کچھ قریبی ساتھیوں پر بھی ہیں‘ لہٰذا منتخب ایوان اور اس کے ارکان‘ معیشت سمیت تمام امور ہائے مملکت کی بہتری میں اسی وقت اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں جب الزام تراشی کی سیاست سے مکمل طور پر گریز کرتے ہوئے ان معاملات کا فیصلہ متعلقہ احتسابی اداروں پر چھوڑ دیں‘ اور احتسابی عمل میں غیر جانب دارانہ انداز میں آگے بڑھتا رہے۔ آصف علی زرداری نے لندن میں ملک کی ایک اہم شخصیت کے حوالے سے جس انویسٹی گیشن کی جانب اشارہ کیا ہے اور چوہدری نثار علی خان نے جو ذو معنی باتیں کی ہیں‘ اس پر ریاستی اداروں کو توجہ دینا ہو گی۔
اگر معیشت کو زیر غور لایا جائے تو اس وقت ہمارا ملک جس سنگین معاشی بحران سے دوچار ہے‘ تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں جس طرح بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے‘ روپے کی قدر میں جس تیزی سے کمی آ رہی‘ صنعتوں اور کارخانوں کے لیے سازگار حالات کا جو فقدان پیدا ہو چکا ہے اور بے روزگاری میں مسلسل جو اضافہ ہو رہا ہے‘ اس پر وزیر اعظم جناب عمران خان کی حکومت کو بجٹ کے بعد سے خصوصی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؛ تاہم وزیر اعظم کے ترجمان اور معاشی ماہرین عوام کو مشکلات کے اصل اسباب کے بارے آگاہ نہیں کر رہے‘ محض الزام تراشی اور کردار کشی کے ذریعے حالات اور معاملات کو محاذ آرائی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ حکومت کے ترجمانوں کو سابق حکومت کے پانچویں اور چھٹے بجٹ کا تقابلی جائزہ پیش کر کے عوام کی آنکھیں کھولنی چاہئیں اور بتانا چاہئے کہ ماضی میں کیا کیا کچھ ہوتا رہا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ معاشی استحکام کے لیے آخری حد تک ہر شعبے‘ ہر ادارے اور ہر فرد میں ایک جیسا عزم سامنے آئے‘ پوری قوم معاشی بحران سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ تبھی وطن عزیز کو مالی مسائل کے گرداب سے نکالا جا سکے گا‘ جو ماضی کی حکومتوں کی مالی اور معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
اب بات کرتے ہیں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی ممکنہ تحریک کی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اپنائی گئی حکمت عملی کے تحت حزب اختلاف کی یہ تحریک یقیناً ناکام ہو جائے گی‘ کیونکہ تحریک ناکام بنانے کے لیے 16 ارکان کی ضرورت ہے جبکہ اس حقیقت سے سبھی آگاہ ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 30 میں سے 13 ارکانِ سینیٹ آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے؛ اگرچہ اصولی طور پر ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہی ہے اور اسی جماعت کے ارکان اسمبلی کے ووٹوں سے ان کا انتخاب ہوا تھا۔ جب نواز شریف 22 فروری 2018ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پاکستان مسلم لیگ (ن )کی سربراہی کے لیے بھی نا اہل قرار دے دیئے گئے تھے اور بطور پارٹی صدر وہ امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کے اہل ہی نہیں رہے تھے کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا کہ سزا یافتہ شخص پارٹی کے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا مجاز نہیں‘ تو اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں سینیٹ کے انتخابات میں اپنے امیدوار آزاد حیثیت میں کامیاب کروائے تھے۔ اسی پس منظر میں چیئرمین سینیٹ پر تحریک عدم اعتماد کے دباؤ کو کم کرانے کے لیے پنجاب اسمبلی کے 15 ارکان کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد حکومتی زعما اس جماعت کا شیرازہ بکھرنے کے دعوے کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے چیئرمین سینیٹ کو عدم اعتماد سے بچانے یا دوسرے الفاظ میں اس محاذ پر بھی اپوزیشن کو سر نگوں کرنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ بادی النظر میں اپوزیشن ابھی کچھ عرصہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے معاملے کو مؤخر رکھ کر وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالتی رہے گی اور سردار اختر مینگل بلوچستان حکومت گرانے کا عندیہ دے کر چیئرمین سینیٹ کی تحریک کے دباؤ کو کمزور اور کم کرتے رہیں گے۔
اب آخر میں کچھ مسلم لیگ نون کی سیاست پر بات ہو جائے۔ مریم نواز صاحبہ کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے قانونی فیصلے میں محفوظ ہے۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اہم فیصلہ صادر کرنا ہے کہ مریم نواز ضمانت پر رہا ہونے کے بعد کوئی سیاسی عہدہ رکھ سکتی ہیں یا نہیں۔ مریم نواز صاحبہ کو ادراک ہی نہیں ہے کہ عوام‘ بالخصوص ان کی پارٹی کے روشن خیال ارکان ان کی پالیسی اور حکمت عملی سے متفق نہیں ہیں۔ مریم نواز کو اپنے دادا میاں محمد شریف کی نصیحت بھی یاد نہیں جو ایک اُردو روزنامے میں 15 اکتوبر1999ء کو صفحۂ اول پر شائع ہوئی تھی‘ اور جس میں انہوں نے نواز شریف اور شہباز شریف کو چند لوگوں کی شر انگیزی سے بچنے کی تلقین کی تھی۔ آج مجھے وہی عناصر مریم نواز کے ارد گرد جمع ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایک صاحب کے بارے میں میاں محمد شریف نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی تھی کہ ان سے محتاط رہنا‘ جبکہ وہی صاحب اب مریم نواز کے چیف ایڈوائزر ہیں۔ چودھری نثار علی خان نے ان صاحب کے بارے میں کہا تھا کہ وہ دہلی کے نمائندے ہیں‘ اور ان کا پاکستان مسلم لیگ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ مریم نواز صاحبہ کو اپنے ارد گرد موجود کچھ لوگوں کا جائزہ لینا چاہئے‘ جن کی خاموشی معنی خیز ہے اور میرے خیال میں مریم نواز کی وجہ سے ہی یہ خاندان میں انتشار خلفشار اور ذہنی تناؤ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ دراصل ان کی اڑان بے نظیر بھٹو کی طرز پر جا رہی تھی۔ لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی والدہ محترمہ نصرت بھٹو سے اس بنیاد پر اختلاف کیا تھا کہ ان کا جھکاؤ میر مرتضیٰ بھٹو کی طرف تھا‘ لہٰذا بینظیر بھٹو سیاسی اور خاندانی رواداری کو بالائے طاق رکھ کر نصرت بھٹو کو پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن سے سبکدوش کر کے خود تا حیات چیئر پرسن بن گئی تھیں۔ مریم نواز میں وہ صلاحیت نہیں ہے جو بے نظیر بھٹو میں پائی جاتی تھی۔ اب دیکھئے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں