"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن : ارکان کے تقرر کا معاملہ

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو ارکان کے تقرر کا معاملہ آئینی سقم کی وجہ سے معلق ہو گیا ہے۔ الیکشن کمیشن آئینی و قانونی طور پر اہم فیصلے کرنے سے بادی النظر میں قاصر نظر آرہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں ضم کئے گئے سابق فاٹا کے 8 اضلاع میں 16 صوبائی نشستوں پر انتخابات 20 جولائی کو ہو رہے ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی ایجنسیوں کی نگاہیں سابق فاٹا کے حساس ترین علاقوں کے الیکشن پر لگی ہیں اور صوبہ خیبر پختونخوا کی تحریک انصاف کی حکومت کا دارومدار ان اضلاع کے نتائج پر ہے۔ آئندہ ہفتوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن )کے درجنوں ارکان اسمبلیوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے اور فلورکراسنگ کے ریفرنسزبھی سپیکر کی وسا طت سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوائے جانے کا امکان ہے۔ان حالات میں الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی غیر موجودگی سے الیکشن کمیشن کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔ علاوہ ازیں فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ بھی اب اجاگر ہو گیا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان صاحب کے دورۂ امریکہ کے موقع پر حسین حقانی گروپ کا میڈیا بھی سر گرم رہے گا اور وزیر اعظم سے تنقیدی سوالات کرے گا اور بدقسمتی سے ایسے مواقع پر وزیراعظم صاحب سیاق و سباق سے ہٹ کر متنازعہ ریمارکس دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ اس صورتحال میں الیکشن کمیشن آف پاکستان فارن فنڈنگ کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں اپنا فیصلہ سنانے کے قریب ہے کیونکہ ضابطے کی کارروائی تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو ارکان کے تقرر میں جو خلیج حائل ہے اس میں اپوزیشن کی حکمت عملی کا بڑا عمل دخل ہے کیونکہ اصولی طور پر بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کو دو ناموں پر متفق ہو جانا چاہیے‘ مگر اپوزیشن اور حکومت میں چونکہ اعتماد کا فقدان ہے اور دونوں فریقین نے پارلیمانی ماحول کو آلودہ کر رکھا ہے ؛چنانچہ ان حالات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان کا تقرر نہیں ہوسکا‘ جو کہ آئین کے آرٹیکل 213 کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے ۔ وزیراعظم پاکستان کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ آئین میں ایسی شق موجود ہے جس کے تحت صدر مملکت الیکشن کمیشن کے دو ار کان کا تقرر کرنے کے مجاز ہیں ۔ وزیر اعظم کو شاید آئین کے آرٹیکل 267کا حوالہ دیا جا رہا ہے جس کی رو سے اگر ابہام پیدا ہوجائے تو صدرمملکت اسی آرٹیکل کے تحت کارروائی کرنے کے مجاز ہیں‘ لیکن میری ناقص رائے کے مطابق ایسا ممکن نہیں ہے ۔اگر صدر مملکت نے کسی ایسی شق کا سہارا لیا تو اپوزیشن سپریم کورٹ میں صدر کے فرمان کو چیلنج کر دے گی اور ممکن ہے کہ عدالت صدر مملکت کے مقرر کردہ ارکان کے نوٹیفکیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ویسے ہی ریمارکس جاری کردے جیسے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے مشتاق سکھیرا کی سبکدوشی کی آئینی پٹیشن کے حوالے سے دیئے ہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹیکس محتسب کے حکم ِامتناعی میں توسیع کرتے ہوئے یہ چشم کشا ریمارکس دئیے کہ صدر کو برطرفی کا اختیار دے کر حکومت 58(2) بی کا انتہائی خطرناک دروازہ کھول رہی ہے۔ ٹیکس محتسب کو سپریم جوڈیشل کونسل ہٹاسکتی ہے۔ میری تجویز یہی ہے کہ ارکان الیکشن کمیشن کے تقرر کے لئے آئین میں جو ابہام پایا جارہا ہے اس کو سترہویں ترمیم کے تحت دور کیا جائے اور الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقرر کا طریقہ کار جو اٹھارہویں ترمیم سے پیشتر تھا‘وہی بحال کر دیا جائے۔ اس طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان غیر جانبداری کے سفر کو آگے بڑھا سکے گا ۔یاد رہے کہ موجودہ سسٹم کے تحت الیکشن کمیشن کو غیر جانبداری کے حوالے سے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
پاکستان کی اشرافیہ نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی رحلت کے بعد جدید اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کی تشکیل سے متعلق ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا اور اس کے برعکس اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر جمہوریت کو نا قابلِ اعتماد بنا دیا ۔ مفاد پرست طبقات نے حکمران اشرافیہ کا روپ دھار کر قائداعظم کے پاکستان کو یرغمال بنا لیا ۔ عمران خان صاحب نے معاشرے میں پھیلی ناانصافیوں کے خاتمہ کے لیے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تھا ‘ کرپشن کے خلاف جدوجہد کے لئے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ گزشتہ ادوار میں واپس چلے گئے۔ ان کی حکومت کے حوالے سے ابھی تک خاطر خواہ نتائج نہیں آرہے ۔ یوں لگتا ہے کہ ان کے احکامات کو نظرانداز کیا جارہا ہے‘ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک خاتون کو ایک ادارے میں اہم ذمہ داریاں دینے کے حوالے سے وزیراعظم کی ناراضگی کے باوجود کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ خاتون کو عہدے سے برطرف نہیں کیا گیا اور موصوفہ سوشل میڈیا پر اپنی سرکاری حیثیت سے عمران خان صاحب کی حمایت میں ٹویٹ کر رہی ہیں۔
وزیراعظم صاحب خوش قسمت ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی معیشت کو مستحکم بنانے کے لئے کرپشن اور بے ضابطگیوں کے تدارک کے مشکل فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر حکومت کی مکمل حمایت کا اعلان کرکے کرپشن فری پاکستان کے تصور کو تقویت دی ہے۔بے شک کرپشن فری پاکستان کی تشکیل یقینی بنائی جا سکتی ہے‘ اس کے لیے قومی اور ریاستی اداروں میں مثالی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان صاحب کی موجودہ ٹیم کرپشن فری ملک بنانے کی قومی مہم میں ناکام ہوتی ہے تو اس کے اثرات افواج پاکستان سمیت تمام قومی اداروں پر پڑیں گے۔ بعض سیاستدان ملک و قوم کے مفاد میں نہیں سوچتے‘ ان کے اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں‘ تاہم وزیراعظم عمران خان پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے کہ کرپٹ عناصر کی حوصلہ شکنی کریں اور اپنی پارٹی کے ان ساتھیوں کو بھی وزارت سے علیحدہ کریں جو قومی احتساب بیورو کے ریڈارپر ہیں۔وزیراعظم عمران خان صاحب نے قوم کے لئے جو سخت ترین اقدامات اٹھائے ہیں‘ پوری قوم ان کی پشت پر ہے‘ لیکن ان کے ترجمانوں نے حالیہ بجٹ‘ انکوائری کمیشن اور آئی ایم ایف کے معاہدات پر قوم کو ابہام کا شکار کر دیا ہے ۔ ان حالات میں وزیراعظم عمران خان کو اردگرد کے ماحول پر گہری نظر رکھنا ہوگی اور اپنے بعض معاونین کو فارغ کرنا ہو گا۔
عمران خان صاحب نے قرض کے حوالے سے جو انکوائری کمیشن بنایا ہے اس سے سابقہ حکومتوں کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ انکوائری کمیشن کی مدد کرنی چاہیے تاکہ پتہ چل سکے کہ اتنی بھاری رقم کہاں گئی۔مگر اپوزیشن انتہائی خوفزدہ ہے کہ اگر آزادانہ انکوائری ہوتی ہے تو اپوزیشن کے اہم رہنما احتساب بیورو کی زد میں آجائیں گے۔اگر تاریخ کے جھروکے میں جھانک کر دیکھا جائے تو جنرل پرویز مشرف کوایک منصوبے کے تحت اقتدار سے علیحدہ کیا گیا‘سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی تحریک کہاں سے شروع ہوئی اس پر بھی انکوائری کمیشن کو غور کرنا چاہیے۔جب جنرل پرویز مشرف نے محسوس کیا کہ معاملات ہاتھ سے نکل رہے ہیں اور ان کے معاونین ان کو نظر انداز کر رہے ہیں تو انہوں نے پریشانی میں اپنی والدہ سے مشورہ کیا کہ ان حالات میں انہیں کیا کرنا چاہیے تو وہ فوراً بولیں کہ پہلی فرصت میں جنرل کیانی کو بلاؤ اور ان سے فیصلہ کن بات کرو۔ جنرل پرویز مشرف نے فوری طور پر اگلے دن جنرل کیانی کو بلایا اور انتہائی دوستانہ انداز میں مخاطب ہوکر ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا اور اگلے ہی دن انہوں نے 18اگست 2008ء کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا اور اسی رات صدارت سے سبکدوش ہو گئے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں