"KDC" (space) message & send to 7575

ریکوڈک ہرجانہ کیس کا فیصلہ

عالمی بینک کے انٹرنیشنل ثالثی ٹربیونل نے ریکوڈک کیس میں پاکستان پر چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کر دیا ہے۔ پاکستان کو ہرجانے کی رقم چلی اور کینیڈا کی مائننگ کمپنی کو ادا کرنا ہو گی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند ٹربیونل میں حکومتِ پاکستان کے ماہر کے طور پر پیش ہوئے تھے۔ انہوں نے گواہی دی تھی کہ ریکوڈک سے ڈھائی ارب ڈالر سالانہ کا سونا برآمد ہو گا اور ریکوڈک سے مجموعی طور پر 131 ارب ڈالر ملیں گے۔ ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں بتایا کہ پاکستان نے خود کہا ہے کہ یہ بہت بڑا پروجیکٹ ہے‘ تو اس پر چار ارب ڈالر ہرجانہ بنتا ہے۔ پاکستان سے 4 ارب 80 لاکھ ڈالر ہرجانہ اور ایک ارب 87 کروڑ ڈالر سود اور کمپنی کے خرچ کی قانونی رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ کمپنی کو 1993 میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا لائسنس جاری کیا گیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے 2011 میں کمپنی کا لائسنس اور معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔ کمپنی نے اس عدالتی فیصلے کے خلاف عالمی بینک کے ساتھ ثالثی ٹربیونل سے رجوع کیا اور پاکستان سے چھ ارب ڈالر ہرجانہ وصول کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو تکنیکی طور پر ثالثی ٹربیونل کو قائل کرنا چاہیے تھا کہ ریکوڈک سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے تھے جس کی پاکستان کی حکومت کو توقع تھی‘ لہٰذا سپریم کورٹ آف پاکستان نے حالت مجبوری اس معاہدے کو منسوخ کر دیا۔ ٹربیونل کے فیصلے کے پیراگراف 171 میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان معاہدے کو کالعدم قرار دیتے وقت بین الاقوامی قوانین سے نابلد تھی اور اس کے پاس پیشہ ورانہ مہارت بھی نہیں تھی۔ یہ درست نہیں۔ دراصل سابق چیف جسٹس آف پاکستان کو اس حوالے سے اپنے فیصلے سے پیشتر بین الاقوامی قوانین کے ماہرین سے مشاورت کرنا چاہیے تھی‘ جو انہوں نے نہیں کی۔
بلوچستان، افغانستان اور ایران کی سرحد کے قریب مشہور چاغی میں سونے اور تانبے کے ذخائرکا علاقہ ریکوڈک کہلاتا ہے اور دنیا بھر میں سونے اور تانبے کے پانچویں بڑے ذخائر کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ ریکوڈک کا لفظی مطلب ریت کا ٹیلا ہے۔ اس علاقے کو قدرت نے سونے، تانبے اور شیل گیس جیسی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی سونے کی کان چاغی میں واقع ہے‘ جس کے متعلق کئی حیران کن حقائق سامنے آئے ہیں۔ یہ دنیا کی پانچویں بڑی سونے کی کان ہے۔ یہ تقریباً ایک سو کلومیٹر پر محیط ہے۔ یہاں موجود سونے کے ذخائر کا اندازہ 54 ملین ٹن لگایا گیا ہے۔ اس سونے کی مالیت تقریباً2 کھرب ڈالر ہے۔ اس کمپنی نے کان کنی کے لیے چار سو کلومیٹر کا رقبہ اپنے قبضے میں لیا‘ اسے آڈٹ سے مستثنیٰ زون قرار دیا گیا۔ ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے علاوہ درجنوں دیگر معدنیات بھی موجود ہیں۔ یہاں شیل گیس کے دوسرے بڑے ذخائر ہیں۔ میری نظر میں چیف جسٹس (ریٹائرڈ) افتخار محمد چوہدری کا فیصلہ درست تھا کیونکہ ٹھیکہ دینے کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک اس میں بے قاعدگی اور کرپشن کی خبریں سامنے آتی رہیں۔ جہاں ڈرلنگ کرنے والی کمپنی نے معاہدے سے تجاوز کیا‘ وہیں پاکستانی حکام نے بھی کمپنی کی غیر قانونی سرگرمیوں کو نظر انداز کیا۔ پاکستان کی حکومت نے محض کان کنی پر اس کمپنی کو 75 فیصد دینے کا معاہدہ کیا تھا‘ حالانکہ سونا دنیا کی مہنگی ترین معدنیات میں سے ایک ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ اس کمپنی کو شترِ بے مہار آزادی ملنے پر ہی چیف جسٹس ریٹائرڈ سپریم کورٹ نے معاہدہ منسوخ کیا تھا۔ اس وقت اس فیصلے کی عمومی تحسین کی گئی جبکہ بلوچستان کی بااثر سیاسی قیادت‘ جس کے مفادات پر زد پڑتی تھی‘ خاموشی سے اس فیصلے کے خلاف لابنگ کرتی رہی۔
پاکستان کو جرمانہ کرنے والے ٹربیونل کی طرف سے فیصلے میں دو نکات میں کمزوری کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہی نکات دراصل پاکستان کے حق میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ ٹربیونل نے جرمانہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی گواہی پر کیا۔ بقول ٹربیونل پروجیکٹ اتنا بڑا ہے تو جرمانہ بھی زیادہ ہو گا۔ کمپنی نے اس کی منسوخی پر چالیس کروڑ ڈالر نقصان کا دعویٰ کیا، گویا بڑے پروجیکٹ کے باعث جرمانہ کیا گیا۔ علاوہ ازیں پاکستان کی عدلیہ کے بارے میں نامناسب ریمارکس دیے گئے ہیں جو قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ اس تناظر میں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کا کیس ٹربیونل کے سامنے صحیح طریقے سے پیش ہی نہیں کیا گیا اور ریکو ڈک کیس میں پاکستان نے ٹونی بلیئر کی اہلیہ کو ایک ارب روپے مقدمے کی فیس ادا کر دی جو پاکستان کے اس اہم کیس سے نا بلد اور نا تجربہ کار تھیں۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ ثالثی ٹربیونل نے پاکستان کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے چھ ارب ڈالر کا جرمانہ کیا ہے تاکہ اس کمپنی سے معاملات مذاکرات کے ذریعے طے کرکے ان ذخائر کا ٹھیکہ اسی کمپنی کو دلا دیا جائے۔ یہ بین الاقوامی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کی حکمت عملی درست ہے کہ انہوں نے اس کیس میں بھی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ واضح ہو سکے کہ بے ضابطگی کہاں ہوئی ہے۔ قرضوں کے حوالے سے حکومت پہلے ہی ایک کمیشن تشکیل دے چکی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ حکومت کو سینڈک پروجیکٹ‘ جو پاکستان کی دوسری بڑی سونے کی کان ہے‘ کے اندرونی معاملات اور سونے کو نکالنے اور بیرون ملک بھجوانے کے عمل کے معاہدے پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ بلوچستان کی جو بااثر شخصیات اس پروجیکٹ سے فوائد حاصل کرتی رہیں ان کو بھی عوام کے سامنے لایا جانا چاہئے۔ ریکوڈک اور سینڈک قدرت کی نعمت ہیں۔ 1963-64 میں جب پاکستان نے ایران سے سرحدی معاملات درست کئے تو رات کے اندھیرے میں پرکار کے ذریعے سرحدی علاقوں کی نشاندہی کرائی گئی تھی۔ اس وقت وزیر خارجہ بھٹو نے 13 سو کے لگ بھگ گائوں ان کے حوالے کر دیئے تھے‘ لیکن خدا کی رحمت دیکھیے کہ سینڈک اور ریکوڈک کے علاقے‘ جو ایران سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں‘ محفوظ رہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ حکومتوں کی عاقبت نا اندیشی اور ذمہ دار حکام کی نااہلی نے ملکی مفادات کو کتنا نقصان پہنچایا‘ اس کی ایک نظیر ریکوڈک کیس میں غیر ملکی کمپنی کے حق میں دیے جانے والے فیصلے کی صورت اگرچہ سامنے آ چکی ہے جس میں پاکستان پر چھ ارب ڈالر تقریباً ساڑھے نو کھرب روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ غیر ملکی کمپنی کو 1993 میں بے نظیر گورنمنٹ کے دوران یہ منصوبہ دیا گیا تھا اور بلوچستان کے ضلع چاغی میں سونے اور تانبے کی تلاش کا لائسنس فراہم کیا گیا تھا‘ جس کے نتیجے میں اربوں ٹن کے علاوہ ڈھائی ارب ڈالر سالانہ اور مجموعی طور پر 131 ارب ڈالر کا سونا حاصل ہونا تھا۔ 
ٹربیونل کا فیصلہ آنے اور اس کے نتائج کا علم ہونے پر وزیر اعظم نے کیس میں بھاری جرمانے اور دیگر نقصانات کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کی ہدایات کی ہیں جو معاملے کے ذمہ داروں کا تعین کرے گا۔ ان کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا اور انیس سو ترانوے سے اب تک اس معاملے میں بھاری مالی نقصانات کا سبب بننے والے تمام افراد کو شامل تفتیش کرے گا۔ چھ ارب ڈالر کے جرمانے سے بچانے کے لیے حکومت کی مخصوص لابی اس غیرملکی کمپنی کو ازسرنو ٹھیکہ دینے کی درپردہ کوشش کر رہی ہے جن کی مالی کرپشن اور مملکت کے مفادات کے خلاف ان کی کارروائی کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے لائسنس منسوخ کیا تھا۔ اگر کسی غیرملکی کمپنی کو جرمانے کے ازالے کیلئے ٹھیکہ دوبارہ دیا جاتا ہے تو سپریم کورٹ کے تحفظات اور زمینی حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا جن کی بنا پر سپریم کورٹ نے قومی مفادات کے تحت قدم اٹھایا تھا۔ جسٹس ریٹائرڈ افتخار محمد چوہدری کسی بھی کمیشن کے روبرو پیش نہیں ہوں گے کیونکہ آئین اور قانون کے مطابق کسی جج کو فیصلے کی بنیاد پر کمیشن کے سامنے طلب نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے ملک و قوم کے مفادات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا تھا جس میں حکومت نے تین کھرب ڈالر کے سونے اور تانبے کے ذخائر کا ٹھیکہ دو پرسنٹ خام مال کے بدلے دیا تھا۔ہماری حکومتوں کے فیصلوں کا خمیازہ قوم تنزلی کی شکل میں برداشت کرتی چلی آ رہی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں