"KDC" (space) message & send to 7575

شاہد خاقان عباسی کا مستقبل

جج ارشد ملک صاحب کے حوالے سے متنازع ویڈیوز کا معاملہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ملکی سیاست کے افق پر ایک طرح کا دھندلکا چھایا ہوا ہے۔ جہاں تک قومی اداروں کی بات ہے تو حالات کچھ ایسے بن چکے ہیں کہ عوام کی نظر میں اب کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں۔ عوام اب ملک کے کسی بھی شعبے کی ساکھ پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کرنے سے قاصر ہیں۔ سوشل میڈیا پر عوام جس طرح کے جذبات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں‘ اس سے بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے اور سمجھنے والے سمجھ بھی جاتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے سابق حکمرانوں سے اربوں روپے کی رقوم کی وصولی کا معاملہ ہے تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے یہ رقوم سرکاری کے نام پر اپنے کاروباری دوروں پر خرچ کیں‘ تو وہ رولز آف بزنس کی آڑ میں رقوم واپس نہیں کریں گے‘ لیکن بالفرض ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا وزیر اعظم عمران خان اس وصولی کے لیے سعودی فارمولہ استعمال کر سکتے ہیں جس کے تحت وصولی کے لئے اندرون ملک ان کے اثاثوں کو ضبط کیا جائے؟ کیونکہ ملک اس وقت قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے‘ اور قومی آمدنی کا نصف حصہ سود کی ادائیگیوں میں صرف ہو رہا ہے‘ بلکہ صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ پُرانے قرضوں اور ان پر واجب الادا سود کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لینا پڑتے ہیں۔
احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک صاحب کے مبینہ ویڈیو سکینڈل کے مرکزی کردار میاں طارق کی ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد یہ چشم کشا واقعات سامنے آئے ہیں کہ میاں طارق نے ویڈیو بنانے اور بلیک میلنگ کو اپنا پیشہ بنا لیا تھا اور انہوں نے اہم سرکاری اور غیر سرکاری شخصیات اور ان کے قریبی عزیز و اقارب کی ذاتی زندگی کی مختلف طریقوں سے ویڈیو بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا‘ ایسی ویڈیوز میاں طارق خود بھی ان افراد کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرنے لگا اور دیگر بلیک میلرز کو بھی لاکھوں روپے میں ویڈیوز فراہم کرنے میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے لگا۔ ایف آئی اے کے حکام کے بروقت ایکشن سے میاں طارق کو اس کی اسلام آباد کی رہائش گاہ سے گرفتار کرنے کے موقع پر اس کے گھر سے ویڈیوز بھی برآمد کی گئی ہیں۔ میاں طارق کے پاس ایک محتاط اندازے کے مطابق ایسی دو سو کے لگ بھگ ویڈیو موجود ہیں جو کہ اعلیٰ شخصیات اور ان کے قریبی عزیز و اقارب کی ہیں اور ایف آئی اے کی انکوائری کے دوران ان ویڈیوز کی برآمدگی سے کئی بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام سامنے آنے کا امکان ہے‘ جو کہ ان ویڈیوز کی برآمدگی کے حوالے سے اپنے مذموم حربے استعمال کر رہے ہیں۔ ملتان کے رہائشی طارق اور ان کی فیملی کا الیکٹرونکس کا کاروبار تھا‘ تاہم اس کاروبار کی آڑ میں مبینہ طور پر ان کے بھائی میاں ادریس منشیات کی سمگلنگ کا کام کرتے تھے۔ 
ملک میں ٹیکسوں کا سونامی ہے اور عوام پریشان نظر آ رہے ہیں۔ کسی نے سابق امریکی صدر کی ایک ویڈیو اپ لوڈ کر دی ہے‘ جس میں موصوف اسلامی دنیا کے عظیم فلاسفر اور تاریخ دان ابن خلدون کا ایک قول دہرا رہے ہیں کہ قوموں کے وقتِ زوال میں ٹیکس بڑھ جاتے ہیں‘ آمدن کم ہو جاتی ہے۔ مصر کو ''ترقی اور خوش حالی کے بام عروج پر‘‘ پہنچانے والے گورنر سٹیٹ بینک نے رپورٹ جاری کی ہے اور اس کے آخر میں قوم کو یہ بتا کر مزید مضطرب کر دیا ہے کہ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ ترقی کی رفتار سست ہو گئی ہے اور مزید سست ہو گی۔ بیرونی اور مالیاتی شعبے کمزور ہو گئے ہیں اور مزید ہوں گے‘ صنعتی شعبے کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے اور مزید ہو گی‘ جاری اخراجات تیزی سے بڑھ رہے ہیں‘ ترقیاتی اخراجات کم کر دیے جائیں گے‘ لیکن مالیاتی خسارہ بڑھ گیا ہے اور مزید بڑھے گا۔
میاں نواز شریف کی فیملی پاکستان کی قومی سیاست سے آؤٹ ہو چکی ہے اور شہباز شریف اور ان کی فیملی کو بھی اب ایسی صورت حال کا سامنا ہے۔ شریف خاندان کا سیاسی مستقبل کافی حد تک مخدوش ہو چکا ہے‘ جس کی بنیادی وجہ مریم نواز کی لا حاصل سیاست ہے ۔ ڈان لیکس سے لے کر اب تک کے حالات کا جائزہ لیں تو مسلم لیگ (ن) کی ساری مشکلات اور جنگی سیاست کے پیچھے مریم نواز نظر آتی ہیں۔ حکومت اس وقت معاشی پالیسیوں اور غیر معقول فیصلوں کی وجہ سے اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔ بد عنوانی اور منی لانڈرنگ کے مجرموں کی گرفت کا معاملہ ہی ہے جو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو سہارا دیے ہوئے ہے۔ اگر وزیر اعظم عمران خان اپنے دورۂ امریکہ میں صدر ٹرمپ سے کوئی ریلیف لینے میں کامیاب ہو گئے تو وہ اپنی حکومت کو بہتر اور مستحکم کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے اور حالات پر ان کا کنٹرول بڑھ جائے گا۔ ملک اس وقت شدید اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ اقتصادی بحران کے گہرے بادل چھائے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان میں سے امید کے سورج کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی۔ وزیر اعظم کے دورۂ امریکہ سے ملنے والی اقتصادی امداد کی بحالی کی امید قرینِ قیاس نہیں۔ حکومت نے اختلافی آوازوں کو اپنی سیاسی اور انتظامی کمزوریوں کی جانب موڑ رکھا ہے۔ جن حضرات کو ان کی سابقہ جماعت نے نظر انداز کر دیا تھا عمران خان کی مقبولیت ان لوگوں کی کارکردگی اور آتش فشانی للکار سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے ماحول میں جب ریاست اور حکومت کا فرق مٹ جائے تو ریاست اور جمہور کے مفاد میں تصادم پیدا ہو جاتا ہے۔
شاہد خاقان عباسی کی ایل این جی سکینڈل میں گرفتاری نے سیاسی درجہ حرارت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ قومی خزانے کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا نقصان پہنچانے پر قومی احتساب بیورو نے شاہد خاقان عباسی کو اپنی تحویل میں لیا ہے‘ لیکن یہاں حیران کن تاثرات سامنے آ رہے ہیں۔ ملک کے ممتاز صحافی اور اینکر کامران خان نے گزشتہ دنوں کے ایک پروگرام میں شاہد خاقان عباسی کے بارے میں ملک کے ممتاز تجزیہ کاروں سے رائے حاصل کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی گرفتاری کے حوالے سے دال میں کچھ کالا ہے۔ میں ان کی گرفتاری اور ان کے بارے میں ردِ عمل دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بعض قوتوں نے پاکستان میں متبادل قیادت پر کام شروع کر دیا ہے اور شاہد خاقان عباسی کو کچھ حوالوں سے ریلیف ملنے کے امکانات موجود ہیں۔ میڈیا میں ان کے حق میں دلائل ملنے سے یوں احساس ہو رہا ہے کہ مستقبل میں نواز خاندان کی سیاست ہمیشہ کے لئے ختم ہو رہی ہے۔ شہباز شریف غیر ملکی فنڈنگ سے باہر نہیں نکل رہے ہیں ‘ نواز شریف ‘ مریم نواز اور حمزہ شہبازکا مستقبل تاریک ہو چکا ہے۔ اس صورتحال میں قوی امکان ہے کہ شاہد خاقان عباسی پاکستان مسلم لیگ کے لیے نئے سربراہ ہو سکتے ہیں اور وہ اپنی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ کے پارلیمانی گروپ کو مضبوط اور فعال بنانے کی کوشش کریں گے۔ یہ امکان بھی ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اپنے اقتدار کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے چوہدری نثار علی خان کو آگے لے کر آئیں گے اور مبینہ طور پر جب شاہد خاقان عباسی پارٹی کی گرفت مکمل طور پر حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو فلور کراسنگ کا عمل بھی وقتی طور پر رک جائے گا۔ توقع ہے کہ اسی اثنا میں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ پر بھی فیصلہ سامنے آ جائے گا‘ جبکہ عارف نقوی کے احتسابی بیان سے تحریک انصاف کو ممکنہ طور پر آئین کے آرٹیکل 17 کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ایسی صورتحال سے شاہد خاقان عباسی فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ وزیر اعظم عمران خان ان گردشی حالات سے تبھی نکل پائیں گے جب وفاقی کابینہ میں سے ایسے افراد کو باہر نکال دیں جو اِن کے لئے باعثِ تشویش بنتے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پوری وفاقی حکومت کے لیے ایک با اثر ترجمان کی ضرورت بھی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں