"KDC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کی کامیاب حکمتِ عملی

وزیراعظم عمران خان کا امریکہ میں عوامی اجتماع سے خطاب ایک نئی تاریخ رقم کر چکا ہے اور لگتا ہے کہ حالات نئی کروٹ لے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ 1985 کے بعد اصل تباہی شروع ہوئی تھی جس کے مہلک اثرات آج ملکی معیشت و معاشرت پر منفی صورت میں دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیر اعظم نے بیرونی دباؤ اور سفارشوں کو نظر انداز کیا ہے اور اب طاقتور ترین سمجھے جانے والے سابق حکمرانوں کا کڑا احتساب کیا جا رہا ہے۔ یہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال‘ چیئرمین قومی احتساب بیورو کی غیر جانبداری اور دیانتداری کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھی احتساب کے عمل کو درست قرار دیا ہے کیونکہ گزشتہ حکومتوں کے دور میں کرپشن ہوتی رہی۔ یقین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے انتخابی منشور کے مطابق ملک کو بد عنوانی کی دلدل سے نکالنے اور ملک میں سرمایہ کاری لانے کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ کی یقین دہانی کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ انہوں نے ماضی کے کرپٹ عناصر کے خلاف جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔ ان کے خطاب سے صدر ٹرمپ کو یہ واضح پیغام ملا ہو گا کہ ان کی ملاقات پاکستان کے ایک ایسے رہنما سے ہوئی ہے جو ملک اور بیرون ملک یکساں مقبول ہے۔ اب یہ بات تسلیم کی جا چکی ہے کہ جن ممالک میں سفارتی اور حکومتی رابطے ریاست کے اہداف پورے نہ کر سکیں وہاں عوامی ڈپلومیسی عمدہ نتائج دیتی ہے۔ وزیر اعظم کا خطاب امریکہ میں آباد صرف پاکستانیوں کے لیے ہی حوصلہ افزا نہیں بلکہ ان کی باتوں سے امریکی انتظامیہ کو بھی پاکستان کی ترجیحات سمجھنے میں سہولت ملی ہو گی۔
حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے فاٹا کے نام سے معروف سات قبائلی اضلاع کے عوام اپنی تاریخ میں پہلی بار صوبائی اسمبلی کیلئے آزادانہ جمہوری انتخابات کے تجربے سے گزرے ہیں۔ قومی اسمبلی کیلئے انتخابات یہاں پہلے بھی ہوتے رہے‘ لیکن صوبائی سطح پر یہ کام اب کیا گیا ہے۔ ماضی میں ان علاقوں میں انتخابی عمل میں عام آدمی کی شرکت عملاً ناممکن ہوتی تھی۔ 1997 میں پہلی مرتبہ صدر فاروق احمد خان لغاری نے ایک آرڈیننس کے ذریعے فاٹا کی آٹھ ایجنسیوں (اب اضلاع) میں قومی اسمبلی کے ارکان کا انتخابات کرانے کی راہ نکالی تھی اور تین فروری 1997 کے انتخابات میں فاٹا کے تقریباً پانچ لاکھ ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے براہ راست آٹھ ارکان قومی اسمبلی کے انتخاب کیلئے ووٹ کاسٹ کئے تھے۔ صدر پرویز مشرف نے جون 2002 میں فاٹا کی قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 12 کر دی تھی۔ سینیٹ میں ارکان کی تعداد چار سے بڑھا کر آٹھ کر دی گئی تھی۔ اب حال ہی میں نئی نشستوں کیلئے جو صوبائی انتخابات ہوئے‘ ان میں سے کئی ارکان آزاد ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ یہ حکومت میں شامل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد خواتین کی مخصوص نشستوں پر انتخاب ہو گااور ایک اقلیتی نشست بھی تحریک انصاف کے کوٹے میں آئے گی۔
اب کچھ سیاسی اور معاشی معاملات پر بات ہو جائے۔ پاکستان کے موجودہ اقتصادی بحران کے تناظر میں سیاسی تصادم اور سماجی ہیجان کے جو حالات بنائے جا رہے ہیں وہ کسی بھی طرح ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ ایسے حالات میں معیشت کو درست کرنا ممکن نہیں ہوتا جب سیاسی محاذ آرائی ہو رہی ہو اور لوگ خوف اور بے یقینی کا شکار ہوں۔ ان حالات میں کہ فیڈریشن کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں کیونکہ وزیر اعظم نے ذوالفقار علی بھٹو جیسی روش اختیار کرتے ہوئے محاذ آرائی کے تمام دروازے کھول دیئے ہیں۔ اس پس منظر میں امریکہ کا دورہ ترتیب دیا گیا تھا‘ جو کامیاب تو رہا‘ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ملک کے اندر کیا حالات ہوں گے۔ لگتا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کا آغاز ہونے والا ہے، اور پاکستان کو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی طرح تقسیم کرنے کی سازش بھی ہو رہی ہے۔ تحریکِ عرب بہار کے طوفان نے دنیائے عرب سے شمالی افریقہ تک خزاں مسلط کئے رکھی۔ یہ تحریک آمرانہ حکومتوں، کرپشن، بیروزگاری، انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘ بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اور دیگر سماجی قوتوں کے خلاف تھی۔ یہ تحریک حقیقی جمہوریت، انصاف، میرٹ، خوشحالی اور مساوات کے لئے تھی لیکن اس کو عالمی قوتوں نے ہائی جیک کر لیا اور اب وہاں خزاں ہی خزاں ہے۔ اپوزیشن والے سمجھ رہے ہیں کہ انہیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ ان کے خدشات درست ہیں کیونکہ وزیر اعظم نے اپوزیشن کو جوابات دینے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر چالیس کے لگ بھگ ترجمان مقرر کر رکھے ہیں۔ مختلف ادارے ان کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں اورDossiers مرتب کئے جا رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وفاقی حکومت کے دو وزرا غلام مصطفی کھر کی روش پر چل نکلے ہیں۔ قارئین کی رہنمائی کے لئے بتاتا چلوں کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ناؤ ڈوبتی ہوئی دیکھی تو ناراض غلام مصطفی کھر کو اپنا سیاسی مشیر مقرر کرکے ان کو وہی فرائض تفویض کر دیئے تھے جو ان دنوں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے وزرا کو تفویض کر رکھے ہیں۔ معیار پر پورا نہ اترنے پر سید صمصام بخاری کو صوبائی وزیر وزارت اطلاعات سے سبکدوش کر دیا گیا حالانکہ وہ روحانی بزرگ حضرت پیر کرماں والا کے پوتے ہیں‘ جن کے برصغیر میں لاکھوں مرید موجود ہیں۔ موجودہ حکومت کی مبہم پالیسیوں کے تحت سیاسی جماعتوں کو سیاسی تصادم پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ عام لوگ، تاجر، صنعت کار اور ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد خوف اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ سیاست کمزور اور معیشت غیر فعال ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا قومی وژن ان کے نااہل ترجمانوں نے دھندلا دیا ہے۔ پوری قوم ان کے وژن کو کامیاب بنانا چاہتی ہے لیکن ان کے ترجمانوں نے میڈیا ٹاک شوز کے شوق میں ان کی قومی پالیسی کو متنازع بنا دیا ہے۔ کاروباری حلقہ اپنے طور پر احتجاج اور مزاحمت کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ کاروبار کرنے والوں کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ پاکستانی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے عالمی اداروں اور بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے کارگر نہیں ہوں گے‘ نہ ہی اس سے عمران خان کا نیا پاکستان بنے گا۔ معیشت کا استحکام سیاسی استحکام سے مشروط ہے۔ معاشی ٹیم پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو جو معاشی روڈ میپ دے رہی ہے‘ اس نے اچانک تحریک عرب بہار کی طرز پر خوفناک لہر ابھار کر سامنے لانے کی اندرون خانہ تیاریوں میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ یہ قوتیں پاکستان کی ابھرتی ہوئی معیشت سے خوفزدہ ہیں اور فرقہ وارانہ فساد برپا کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لے رہی ہیں۔ پاکستانی معیشت کے حوالے سے آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر ٹریسا ڈرین کا اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں وہ بیان حکومت ہی نہیں پوری قوم کیلئے انتہائی قابل توجہ ہے جس میں انہوں نے اندرونی اور بیرونی اقتصادی محاذوں پر کلیدی اصلاحات کے لیے پالیسی سازی میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں معمولی اکثریت ہونے کے باعث قانون سازی کیلئے اپوزیشن کو اعتماد میں لینا ہو گا کیونکہ آئی ایم ایف پاکستانی نژاد معاشی ماہرین کے سہارے چل رہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے اپنے قابل ترین منتخب نمائندوں کو نظرانداز کرکے اپنی باگ ڈور ان معاشی ماہرین کے سپرد کر رکھی ہے جو دوہری شہریت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ حلف یافتہ بھی نہیں ہیں۔ ٹریسا ڈرین کے تجزیے کے مطابق حکومت کو اب درپردہ اپوزیشن کے نرم گوشہ رکھنے والے ارکان اسمبلی سے رابطے کرنا ہوں گے اور فارورڈ بلاک بنا کر ان کی حمایت حاصل کرکے پریشر گروپ رکھنے والی اتحادی جماعتوں کے چنگل سے نکلنا ہو گا جو ان کو بند اور اندھیری گلی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ دوسری جانب ہر ذی شعور پاکستانی خیال رکھتا ہے کہ اس وقت آئی ایم ایف کے قرضے کی سخت ترین شرائط قوم کے اعصاب پر مسلط ہیں۔ یہ حالات وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے پیدا کردہ نہیں‘ سابق حکومتوں کی منی لانڈرنگ اور میگا کرپشن کا نتیجہ ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اگر عوامی احتجاج کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں تو انہیں حکومت کے سخت فیصلوں میں غریب اور درمیانے طبقے کی پریشانیوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا اور فوری طور پر 50 لاکھ افراد کیلئے روزگار فراہم کرنے کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں