"KDC" (space) message & send to 7575

اندرونی خلفشار سے قومی مفادات کو خطرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے میں کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ جہاں پاکستان کی جانب سے اس پیشکش کا خیر مقدم کیا گیا ہے وہیں بھارت نے کشمیر کے مسئلے کے حل میں کسی تیسرے فریق کو شامل کرنے کے امکانات کو مسترد کردیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا کہ نریندر مودی نے امریکی صدر کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی درخواست نہیں کی ۔ان کا کہنا تھا کہ شملہ معاہدہ اور لاہور اعلامیہ کی رو سے پاکستان اور بھارت تمام تر مسائل باہمی طور پر حل کریں گے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ انہوں نے امریکی صدر کی پریس کانفرنس سے بات چیت سنی جس میں انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت چاہیں تو وہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لیے تیار ہیں‘ تاہم ایسی کوئی درخواست بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے امریکی صدر کو نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ شملہ معاہدے کے تحت یہ تنازعہ دونوں ملکوں کا باہمی معاملہ ہے اور وہی اس کا بات چیت سے کوئی حل تلاش کریں گے ۔ شملہ معاہدہ پر دستخط کرکے اندرا گاندھی اور ذ و الفقار علی بھٹو نے تسلیم کیا کہ لائن آف سیز فائر اب لائن آف کنٹرول میں تبدیل ہو چکی ہے اور معاہدے کے تحت دونوں ممالک اپنے اختلافات کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے۔اس معاہدے کے تحت اس میں کوئی تھرڈ پارٹی شامل نہیں ۔بھارت کے سیکرٹری خارجہ پی این دہر نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جب اندرا گاندھی نے معاہدے کے تمام نکات مرحلہ وار مسٹربھٹو کے سامنے رکھے اور کہا کہ یہی وہ معاہدہ ہے جس پر ہم آگے بڑھیں گے تو صدر بھٹو نے کہا ''جی بالکل ‘آپ مجھ پر بھروسہ رکھیں ‘‘ اور اندرا گاندھی کی خوشنودی کے لئے کارگل کا اہم علاقہ جو 1971ء تک پاکستان کا حصہ رہا اور جو کشمیر کے لیے شاہ رگ تھا‘ صدر بھٹو نے اس اہم علاقے سے دستبرداری کے معاہدے پر دستخط کر دیے ۔یوں وادی لیپا کی فوجی چوکیاں پاکستان کے ہاتھ سے نکل گئیں۔
صدر بھٹو نے شملہ معاہدے کو پاکستان کی تاریخ کی اہم ترین دستاویز قرار دیتے ہوئے وزارتِ اطلاعات و نشریات کو جموںو کشمیر کے تنازعہ کے بارے میں ہر طرح کے پروگرام اور بیانات پر پابندی لگاتے ہوئے اپنے وزرا کو ہدایت کی کہ وہ سیاسی طور پر جموں و کشمیر کے تنازعہ کے بارے میں بیانات سے گریز کریں۔ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے صدر آزاد جموں کشمیر سردار عبدالقیوم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی گئی اور انتہائی کمزور شخصیت شیخ منظر مسعود کو‘ جو پاکستان مسلم لیگ کنونشن کے 1964ء سے 1970ء تک آفس سیکر ٹری رہے ‘ آزاد جموںو کشمیر کا صدر مقرر کر دیا۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن سے بھی کشمیر کے بارے پروگراموں پر پابندی عائد کردی گئی۔ شملہ معاہدے کا عکس 21 فروری 1999ء کو اعلامیہ لاہور میں دیکھنے میں آیا ۔ بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور نواز شریف کے مابین یہی معاہدہ ہوا کہ جموں و کشمیر کا تنازعہ باہمی مشاورت سے حل کیا جائے گا۔جون 2000ء میں صدر پرویز مشرف اور اٹل بہاری واجپائی کے آگرہ معاہدے کے تحت جموںو کشمیر کے بارے میں اہم پیشرفت ہوئی تھی‘تاہم صدر پرویز مشرف نے ناشتے پر بھارت کے اہم میڈیا پرسنز کو مدعو کیا اور سفارتی ناتجربہ کاری کے باعث آگرہ معاہدہ نہ کرنے کے بیانیے کا جواز پیدا کر دیا اور بھارت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے آگرہ معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے پرویز مشرف کو پاکستان کی راہ دکھا دی۔
اگر امریکی صدر جموں و کشمیر کے بارے میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو ان کی راہ میں بھارت کی انتہا پسند جماعتیں حائل ہو جائیں گی‘پاکستان کی قیادت اور سیاسی جماعتیں اس بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ عمران خان امریکہ سے کامیابی کی سند لے کر آئے ہیں اب اگر محاذآرائی جاری رہی تو امریکی صدر کو محسوس ہوگا کہ ان کی افغان پالیسی میں پاکستان کی سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے رکاوٹ ہے۔ جس طرح لیموں ہزاروں لیٹردودھ کو برباد کردیتا ہے اسی طرح اپوزیشن کے زہریلے قطروں سے عمران خان کی حکومت میں لرزش پیدا ہوجائے گی اور صدر ٹرمپ اپنے وسیع تر مفاد کے تحت پاکستان میں اپریل 1977ء طرز کی تحریک کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور کیری لوگر بل کے کروڑوں ڈالر سے فیضیاب ہونے والے صحافی عمران حکومت کو گرانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ چونکہ وزیراعظم عمران خان بین الاقوامی سطح پر اہم کردار ادا کرنے کی راہ پر نکل پڑے ہیں تو ان کو اپنی کابینہ میں ایسی شخصیات کو آگے لانا چاہیے جو اِن کے صحیح ویژن کو لے کر آگے بڑھیں ۔
وزیراعظم عمران خان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات میں پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ ہم نے کشمیر کو متنازعہ قرار دے کر اس پر بھارتی اٹوٹ انگ والے مؤقف کی نفی کرا دی ہے اور اس مسئلے کے حل کے لیے ثالثی کے کردار کی پیشکش کر کے نریندر مودی کی حکومت کو دفاعی پوزیشن پر آنے پر مجبور کردیا ہے۔ بھارت توقع ہی نہیں کر سکتا تھا کہ وزیراعظم عمران خان اپنے دورہ امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ سے کشمیر کو ایک دیرینہ حل طلب مسئلہ تسلیم کرا لیں گے ۔یہ بلاشبہ وزیراعظم عمران خان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ بے شک وزیراعظم عمران خان نے نیک نیتی کے ساتھ علاقائی اور عالمی امن کی فضا ہموار کرنے کے جذبے کے تحت یہ پیشکش کی کہ بھارت اپنے ایٹمی ہتھیار ترک کردے تو پاکستان بھی ایسا کر دے گا‘ مگر ہم اپنی سلامتی کے خلاف بھارتی جنونیت کی بنیاد پر اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی سے رجوع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمیں تو یہ ٹیکنالوجی حاصل کرنے پر خود بھارت نے مجبور کیا ہے‘ جب اس نے 1971ء میں پاکستان کو دو لخت کر دیا تھا۔وزیراعظم امریکی دورے میں ایک بااعتماد رہنما بن کر سامنے آئے ہیں اور امریکہ کو'' فرینڈز ناٹ ماسٹر‘‘ کی روایت دہراتے ہوئے صدر ایوب خان کے تاریخی جملے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے ۔ یہ ان کا ناقابل شکست اعتماد ہی تھا جس نے بھارت کو ایٹمی ہتھیار ختم کرنے کی دوطرفہ پیشکش کی ۔یہ بین الاقوامی تناظر میں مثالی پیش کش ہے۔ امریکہ کے دورے نے پاکستان کی سیاسی علاقائی اور بین الاقوامی مشکلات کم کر دی ہیں‘ صدر ٹرمپ نے پاکستان کی قیادت اور قوم کو مضبوط اور عظیم تسلیم کیا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے‘ اورایک سال کے مکمل ہونے پر متحدہ اپوزیشن احتجاج کر رہی ہے ۔ ایک سال قبل انتخابی نتائج پر جو ہنگامہ آرائی ہوئی تھی آج دیکھنے میں نظر نہیں آرہی ہے۔ اس لیے ایک سال میں حکومت کو اس لحاظ سے کامیابی ہوئی کہ اس نے ایک حکمت عملی کے تحت انتخابی نتائج پر احتجاج ختم کرادیا ہے۔ ایک سال میں متحدہ اپوزیشن اس بات میں دھاندلی کا مقدمہ ہار گئی ہے۔ اس ایک سال میں متحدہ اپوزیشن انتخابات میں دھاندلی کے مقدمے کی پیروی میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ ایک سال قبل عمران خان بھی دھاندلی کی ہنگامہ آرائی سے پریشان تھے‘ اس لیے انتخابی کمیشن بنانے کے لیے تیار تھے‘ لیکن اب یہ سب ختم ہو گیا ہے۔ معاملات خوش اسلوبی سے چل رہے ہیں ۔دھاندلی کی شکایت کسی بھی جماعت کے ایجنڈے پر نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے لیے لمحہ فکریہ ہے ‘ جہاںاپوزیشن متحد ہوتی ہے وہاں حکومتی اتحاد میں دراڑ یںنظر آتی ہے۔ بجٹ کے موقع پر اتحادیوں نے جس طرح وزیراعظم کو بلیک میل کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک سال مکمل ہونے کے بعد اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی تیار ی کرلی ہے اور ستمبر یا اکتوبر میں فائنل راؤنڈ کھیلا جانے کا امکان ہے۔ عمران خان اگر کامیاب ڈپلومیسی سے چیئرمین سینیٹ کو بچانے میں کامیاب ہوئے تو عمران خان کو مستقبل قریب میں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں