"KDC" (space) message & send to 7575

دہری شہریت اور انتخابی سیاست

دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو ملک کے سیاسی نظام اور پارلیمنٹ کا حصہ بنانے کے لیے آئینی تبدیلی کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم کے امریکی دورے سے واپسی کے بعد بلائے گئے کابینہ کے پہلے اجلاس میں کیا گیا‘ تاہم دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینے کی حکومتی خواہش صرف اسی وقت پوری ہو سکتی ہے جب اسے یعنی آئینی تبدیلی کو پارلیمنٹ اور سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور کروا لیا جائے۔ دہری شہریت کے حامل افراد کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ تو آئین تبدیل کئے بغیر ممکن ہے اور نہ ہی اس کا کوئی شارٹ کٹ موجود ہے ۔ اس سلسلے میں آئین کا آرٹیکل 63 (1) سی‘ جو کہ قانون ساز ادارے کے رکن کی اہلیت سے متعلق ہے‘ مکمل طور پر پابندی لگاتا ہے اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کئی ارکانِ پارلیمنٹ کو نا اہل قرار بھی دے چکی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان مسلم لیگ ( ن) کے سینیٹر ہارون اختر اور سعدیہ عباسی جبکہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے مشیر عبدالرئوف رند کی نا اہلی کے نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جاری کیے۔ چوہدری سرور اور ‘ نزہت صادق اور شجاعت عظیم کو بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذوالفقار حسین بخاری کی دہری شہریت کے بارے میں چیف جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار نے اس بنیاد پر مشروط اجازت دی کہ ان کو ملکی اہم معاملات سے دور رکھا جائے۔ صرف وزیر اعظم عمران خان سے معاملات کی اجازت دی گئی تھی۔ جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 22 فروری 2013ء کو ڈاکٹر طاہر القادری کو ان کی دہری شہریت کی بنیاد پر ہی انتخابی عمل میں حصہ لینے سے روکا تھا اور اس فیصلے میں واضح طور پر ریمارکس دئیے تھے کہ ایک شخص جو دوسری ریاست سے وفا دار رہنے کا حلف اٹھا لیتاہے اس کی اپنے وطن کے ساتھ وفاداری پہلے جیسی نہیں رہتی۔
سمندر پار پاکستانیوں کے الیکشن میں حصہ لینے کا ذکر وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ دورۂ امریکہ میں پاکستانیوں کے اجتماعات سے خطاب کے دوران بھی کیا تھا۔ جہاں تک سمندر پار پاکستانیوں کی انتخابی سیاست میں دلچسپی کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ وہ ملکی سیاست میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں مگر جب سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے تحت بیرون ملک پاکستانیوں کو‘ جن کے ووٹ ان کے حلقے میں درج ہیں‘ الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دی گئی تو ووٹ دینے والوں کی شرح برائے نام تھی‘ جبکہ اس کارروائی پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پندرہ کروڑ روپے سے زائد کے اخراجات ہو گئے تھے۔ اس صورتحال میں آگے کیسے بڑھا جا سکتا ہے؟ اسی لیے مجھے یوں نظر آتا ہے کہ حکومت کو دہری شہریت کے حامل افراد کو پاکستان کی سیاست میں شامل کرنے کے حوالے سے آئینی ترمیم پر پسپائی اختیار کرنا پڑے گی یعنی پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ میری معلومات کے مطابق بھارت‘ بنگلہ دیش اور دیگر کئی ممالک میں بھی دہری شہریت کے حامل افراد کے پارلیمانی انتخابی سیاست میں حصہ لینے کی مما نعت ہے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان میں دہری شہریت کے حامل تحریک انصاف کے ارب پتی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے سے ملک کو سکیورٹی رسک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ حقیقت بھی ہر طرح کے شک و شبے سے بالا تر ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تشکیل اسلام کے نام پر ہوئی تھی۔ مملکت پاکستان کی نظریاتی اساس دین اسلام کی روشن ‘ ابدی‘ لا زوال اور جامع تعلیمات ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو نظریے کی بنیاد پر تشکیل پانے والی پہلی ریاست کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اسی تصورِ اسلام و انسانیت کی بنیاد پر قیام پاکستان کے بعد قانون ساز اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کے دوران تمام اقلیتوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی تھی۔ ریاستِ مدینہ کا آئین‘ جسے تاریخ میثاقِ مدینہ کے نام سے جانتی ہے‘ کے بنیادی اصولوں میں بھی اقلیتوں کے حقوق کو محفوظ رکھنے کی بات کی گئی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان بھی جہاں قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانے کے ساتھ عدل و انصاف مساوات و رواداری جیسی تعلیمات کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں وہیں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور قومی زندگی میں ان کے بھرپور کردار کو یقینی بنانے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان جیسے جمہوری اور اسلامی ملک میں اقلیتوں کی سماجی اور مذہبی آزادی اور معاشرے میں برابر کے شہری ہونے کی حیثیت سمیت ہر طرح کے حقوق کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ میثاقِ مدینہ کے 63 آرٹیکل ہیں‘ اگر ان کو پاکستان کے آئین کے دیباچہ کا حصہ بنا دیا جائے تو میرا اندازہ ہے کہ پاکستان جدید اسلامی فلاحی ریاست بننے کی صحیح سمت پر رواں دواں ہو جائے گا۔ میثاق مدینہ کا آرٹیکل 62 بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کے مطابق شہریوں کو امن و حفاظت حاصل ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ کو اس اہم نقطہ نظر پر غور و فکر کر کے حکومت پاکستان کو سفارشات بھجوانی چاہئیں کہ میثاق مدینہ کی دستاویزات کو آئین کا حصہ بنانے کیلئے اور اسلامی فلاحی ریاست کی سوچ کو اجاگر کرنے کیلئے اسے آئین کے دیباچہ میں شامل کیا جائے۔ اس طرح آئینی طور پر وزیر اعظم عمران خان کے خواب کی تعبیر عملی شکل اختیار کر لے گی۔
اسلام اور اسلامی دنیا کی سر بلندی وہ خواب ہے جو مسلم امہ ایک ہزار سال سے دیکھ رہی ہے ‘ جس کی آرزو میں کروڑوں تہہ خاک جا سوئے۔ بد قسمتی دیکھیںکہ محمد بن قاسم کے بعد آج تک کوئی عرب رہنما مسلمانوں کی آواز پر مدد کے لیے نہیں آیا لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا کی قیادت کے لیے جمہوریت کو بنیاد بنا کر سہ رکنی نیا اتحاد تشکیل دیا جا رہا ہے‘ جس میں کوئی عرب ریاست شامل نہیں ہے۔ پاکستان‘ ترکی اور ملائیشیا پر مشتمل اتحاد بن رہا ہے۔ امت امید بھری نگاہوں سے تینوں ممالک کی قیادت کو دیکھ رہی ہے۔ اس طرز کا ایک عظیم تر معاہدہ 1964ء میں صدر ایوب خان‘ شاہ ایران اور ترکی کے صدر جمال گرسل کی مشترکہ کاوشوں سے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت تینوں ممالک میں تعمیر و ترقی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس معاہدے کو آر سی ڈی کا نام دیا گیا تھا۔
اب یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنی پارٹی کے منشور سے یو ٹرن لے رہے ہیں‘ اور انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد اُنہی روایات کو برقرار رکھا‘ جو 40 سال سے عوام دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے احتساب‘ قرضے‘ بجٹ‘ خارجی اور داخلی محاذوں پر کامیابیوں اور عوام کو ریلیف دینے کے وعدوں کے ساتھ ایک سال مکمل کر لیا۔ 25 جولائی کو حکومت نے کرپٹ مافیا کے خلاف مسلسل جدوجہد پر یومِ تشکر منایا جبکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتوں نے یوم سیاہ منایا۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے میں کس حد تک کامیاب ہوئی اس کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ٹیکسوں کی شرح میں کتنا اضافہ ہو چکا ہے‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کہاں سے کہاں جا پہنچی ہیں‘ گیس کے نرخوں کی شرح میں کتنا اضافہ ہوا اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کتنی بڑھ چکی ہیں۔ خارجی اور داخلی محاذ پر کامیابیاں اپنی جگہ لیکن کسی بھی حکومت کے لیے عوامی مسائل کو نظر انداز کرنا حکومت کی تمام تر کامیابیوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے‘ کیونکہ عام آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ حکومت کن مشکلات کا شکار ہے یا صدر ٹرمپ پاکستان یا افغانستان کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔ کابینہ میں ان افراد کی تعداد زیادہ ہے جو جنرل پرویز مشرف کی کابینہ کا حصہ رہے‘ یہی لوگ ہیں جنہوں نے صدر پرویز مشرف کو بند گلی میں دھکیل دیا تھا۔ شنید ہے کہ گزشتہ کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور شیریں مزاری کے درمیان میڈیا پر سنسر شپ اور پابندیوں کی پالیسیوں کے ڈرافٹ پر شدید اختلافات بھی دیکھنے میں آئے‘ اور فواد چودھری نے شیریں مزاری کے مؤقف کی حمایت کی کہ میڈیا پر کسی قسم کی سنسر شپ عائد نہیں کی جانی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں