"KDC" (space) message & send to 7575

امریکہ‘ معاہدہ اوسلو اور کشمیر

برطانیہ کے 46 ارکانِ پارلیمنٹ نے اقوام متحدہ پر پاک بھارت کشیدگی کم کرانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملک جنگ کی طرف جا رہے ہیں‘ کشیدگی کم کرنے کے لیے اختیارات کا استعمال کیا جائے۔ خط میں ہاؤس آف کامنز کے ارکان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سکیورٹی کونسل کی توجہ عالمی امن کو لاحق خطرے کی جانب مبذول کرائیں کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی ماہ سے جاری اختلافات ایک جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے دانشور سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی سے ہونا چاہیے تاکہ جو ایشو آج پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک خندق بنا ہوا ہے‘ وہ ایک پُل بن جائے۔ کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے تو پورا جنوبی ایشیا دنیا کا انتہائی مالدار اور سب سے زیادہ خوشحال خطہ بن سکتا ہے۔ اس کے لیے کامیاب مذاکرات کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ناگزیر ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ صرف نیت اور قوت فیصلہ کا ہے۔ جب بھارت کی قیادت میں قوتِ فیصلہ آ جائے گی اور اس کی نیت کا فتور ختم ہو جائے گا تو یہ مسئلہ آن کی آن میں حل ہوجائے گا۔ موجودہ بین الاقوامی تناظر میں کشمیر کا مسئلہ انصاف کے اصولوں کے عین مطابق حل ہو جانے کے قریب ہے‘ اور جب بھی ایسا ہو گیا تو دونوں ممالک کے درمیان نفرت کا خلا ختم ہو جائے گا کیونکہ ابھی تک جو ایک بڑی رکاوٹ ہے‘ وہ کشمیر کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان اور ہندوستان کو ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتا۔ یہی مسئلہ برصغیر میں پائیدار امن کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
جموں و کشمیر اور لداخ کو بھارتی یونین میں مدغم کرنے کی مذموم کوشش کشمیر کے نوجوان کو انتہا پسندی کی جانب راغب کرنے کا موجب بن رہی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ زیادہ تر حریت لیڈروں کے خلاف فوجی کارروائی ہو رہی ہے جس کے سبب وہ بھارتی حکومت پر اعتبار نہیں کرتے۔ پاکستان میں شدت پسند ی پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت دنیا کی جانب سے مختلف نظر سے دیکھتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ایک ریٹائرڈ کرکٹر ہیں اور کھلاڑی کا نظریہ بنیادی طور پر امن پسندی کا ہوتا ہے۔ ان کے ردعمل سے یہی عیاں ہوا ہے۔ اس لیے پاکستان اور ہندوستان کی حکومتیں آج مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کی جس بہتر پوزیشن میں ہیں‘ ایسا پہلے شاید کبھی نہ تھا۔ مسئلہ کشمیر انسانیت‘ جمہوریت اور کشمیریت کے دائرے میں حل ہونا چاہیے۔ ہندوستان کے ماضی کے رہنماؤں پنڈت جواہر لعل نہرو، پی وی نرسمہا راؤ اور اٹل بہاری واجپائی کے فارمولوں کو بھی منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے‘ کیونکہ نرسمہا رائو نے یہ بھی کہا تھا کہ جہاں تک کشمیریوں کی خود مختاری کا سوال ہے تو اس کی حد آسمان تک ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ مسئلہ پاکستان ہندوستان اور کشمیری عوام کی گفت و شنید کا متقاضی ہے اور اس گفت و شنید کی حد بہت وسیع ہونی چاہیے۔
مقبوضہ کشمیر کے بارے میں بھارت کے اقدامات کے بعد پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو مکمل اتفاق رائے کے تحت حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو سنگین اقتصادی اور سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے اور کابینہ کے بعض وزرا وزیر اعظم کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں؛ چنانچہ میرے خیال میں انہیں اپنی مشاورتی ٹیم میں اہم تبدیلیاں لانا ہوںگی ‘ چاہے اس کے لئے کچھ وزرا کی ناراضگی ہی کیوں نہ مول لینا پڑے۔ 
پاکستان کو اقوام متحدہ، برطانیہ‘ چین‘ سعودی عرب‘ ترکی اور امریکہ سے سفارتی طور پر حوصلہ افزا جواب ملا ہے۔ یہ محض سفارتی آداب کا حصہ ہے۔ پاکستان ایسی ہی خوش فہمیوں میں مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ 13 دسمبر 1971 کی رات تک یہی ممالک پاکستان کی حمایت میں پیغامات بھجوا رہے تھے اور 16 دسمبر کو سقوط مشرقی پاکستان کا عظیم سانحہ پیش آ گیا۔ ان حالات میں پاکستان کی وزارت خارجہ حالات کا رخ کس طرح ہمارے حق میں کرانے کی صلاحیت رکھتی ہے یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ نریندر مودی کا اقدام وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کے چند دنوں بعد ہی سامنے آیا جب ٹرمپ نے کشمیر پر امریکی ثالثی کے لئے بھارتی وزیر اعظم مودی کی خفیہ خواہش کی طرف اشارہ کیا۔ صدر ٹرمپ کو اندازہ تھا کہ بھارت امریکی پیشکش کو تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ اس کا بھی یہی موقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر شملہ معاہدہ کے تحت مذاکرات سے حل ہو گا۔
قوم کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ثالثی کردار کی پیشکش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے انیس سو ساٹھ سے انیس سو چوہتر تک بھارت نے جمہوریہ مصر کے صدر کرنل جمال عبدالناصر اور امریکی صدر کینیڈی سمیت دیگر اہم بین الاقوامی شخصیات کی ثالثی کی پیشکش کو مسترد کیا تھا۔ پہلے پاک بھارت جنگ 1965، 1971‘ پھر کارگل کی جنگ 1999 اور اب چوتھی جنگ تیار ہے۔ مارچ 1965 میں ہندوستان کی پارلیمنٹ نے کشمیر کو بھارت کا ایک صوبہ قرار دینے کا بل منظور کیا تھا اور جموں و کشمیر میں ایک گورنر کا تقرر کرنے کا بل منظور ہوا تھا۔ بھارت کے اپنے نمائندے پی کے دھر، ایس پی اگروال اور ایس آر بخشی نے سلامتی کونسل میں تحریری طور پر بتایا کہ بھارت کسی بھی حالت میں کشمیر میں اقوام متحدہ کی تجویز کردہ رائے شماری کے انعقاد پر راضی نہیں ہو گا۔
امریکی صدر ٹرمپ اگر ثالثی کے کردار کے لیے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور خطے میں افغانستان سے برما تک امن و امان کے خواہاں ہیں تو انہیں عراق کی طرز پر بھارت کے خلاف آپریشن کرنا ہو گا کیونکہ بھارت کی جارحیت کی پالیسی کی وجہ سے محض اس خطے کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔ کیا عالمی طاقتوں کو احساس ہے کہ بھارت بین الاقوامی برادری کو دھوکا دیتا رہا ہے اور دھوکا دہی سے ہی اس نے کشمیر پر مکمل طور پر قبضہ کرکے اسے حیدر آباد اور جونا گڑھ کی طرح بھارتی یونین میں شامل کر لیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے چارٹر نے حق خود ارادیت کو بین الاقوامی قوانین کے ایجنڈے میں رکھا ہے۔ 
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے سفارتی زبان میں کشمیر کو بھارت کا ذاتی اور داخلی معاملہ قرار دے کر بین الاقوامی مذاکرات کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ روس نے بھی پاکستان اور بھارت کے کشمیر پر اختلافات کو شملہ معاہدہ اور اعلانِ لاہور کے مطابق طے کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کا اقدام بھارتی آئین کے تحت کیا گیا ہے‘ سرحدی اختلافات کا خاتمہ سیاسی اور سفارتی بنیادوں پر کریں۔
عمران خان صاحب کی مضبوط خارجہ پالیسی کی بنا پر پچاس سال بعد کشمیر کے انتہائی اہم ایشوز پر جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ہے جس میں کونسل کے رکن ممالک نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے ماہرین نے کشمیر کا مسئلہ بین الاقوامی عدالت میں پہنچانے کا مشورہ دے کر اپنی نا اہلیت کا ثبوت دیا ہے۔ 1948 میں یہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ دولت مشترکہ کا کوئی بھی رکن اپنے سیاسی معاملات کو بین الاقوامی عدالت میں لے جانے کا استحقاق نہیں رکھتا‘ اور پنڈت جواہر لعل نہرو نے مسئلہ کشمیر بار ے بین الاقوامی عدالت میں جانے کی راہ مسدود کر دی تھی۔
مجھے یہ نظر آ رہا ہے کہ امریکہ بھارت سے درپردہ سازش کرکے کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدات کی طرز پر کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرے گا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے ذریعے صدر انوار سادات صحرائے سینا کا تیس ہزار مربع میل علاقہ واپس لینے میں کامیاب ہوئے تھے اور اوسلو معاہدہ کے تحت یاسر عرفات نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کے قیام پر رضا مند ہوگئے تھے۔ بین الاقوامی تناظر میں کشمیر تین حصوں میں تقسیم نظر آتا ہے: مقبوضہ کشمیر‘ لداخ اور آزاد جموں و کشمیر‘ بلتستان گلگت۔ آئندہ کی پیشرفت یہی ہونی چاہیے کہ پاکستان بھی آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنا صوبہ قرار دے کر آئین کے آرٹیکل 257 کے مطابق کارروائی کرے کیونکہ بین الاقوامی اداروں نے کشمیر کو فلسطین بنا دیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں