"KDC" (space) message & send to 7575

جنگی حالات درپیش ہیں!

وزیر اعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے جاری فرمان کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ خطے میں سکیورٹی کی موجودہ صورتحال کو پیشِ نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ جمہوریت پسند ہیں اور پاکستان میں جمہوری اداروں کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے بارے میں بھارت کے سینئر جرنیلوں کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ پاک بھارت جنگی دفاعی امور پر شاندار مہارت رکھتے ہیں۔ مدت ملازمت میں توسیع کے اسباب میں ان کا خطے کی اہم پالیسیوں میں عمل دخل بھی ہو سکتا ہے۔ امریکہ کی نظر میں افغانستان کا معاملہ سب سے اہم ہے۔ اس تنازعہ نے امریکہ کی بطور سپر طاقت حیثیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جنرل باجوہ کی سرکردگی میں پاکستان کی عسکری و سفارتی ٹیم نے افغانستان تنازعہ کے پرامن حل کیلئے منصوبہ بندی کا آغاز کیا۔ انہوں نے ایک طرف پاکستان کی سرحدوں کو افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں سے محفوظ بنانے کیلئے ماضی کی فوجی قیادت کے اقدامات کو جاری رکھا تو دوسری طرف خارجہ امور میں غیر فعال ہونے والی سابق حکومت کو بار بار اپنے تحفظات سے آگاہ بھی کیا۔ طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر راضی کرنا ان کا اہم کارنامہ ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کا پُرامن انخلا سارے خطے کیلئے خوشگوار تبدیلی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ جب تک یہ کام مکمل نہیں ہو جاتا جنرل باجوہ کی موجودگی ضروری سمجھی جا رہی ہے خصوصاً پاک امریکہ نئے رابطوں میں پاکستان کے سکیورٹی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے ایک اور مدت کیلئے ان کا آرمی چیف رہنا ضروری ہے۔ 
مغربی ممالک نے پہلی بار ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ہونے کے بعد طے کیا تھا کہ اب دنیا کو جنگوں سے بچانا ہے‘ اس کیلئے ضروری تھا کہ تنازعات کو بات چیت سے طے کرنیکا طریقہ اختیار کیا جائے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں افراد کی ہلاکت نے جنگی صلاحیت میں ممتاز مغربی ممالک کو مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کے حل کا راستہ دکھایا تھا۔ کچھ ممالک ابھی تک خطرناک ہتھیاروں کو طاقت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرکے اور جاپان کو شکست دے کر طاقت کا توازن اپنے ہاتھ میں کر لیا تھا‘ ویسا ہی کام وہ بھی کر سکتے ہیں۔ 
بات جب پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعات کی ہوتی ہے تو یہ مغربی ممالک کی سفارتی صلاحیتوں کو پیش نظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ امریکہ‘ روس‘ فرانس اور برطانیہ یہ امر فراموش کر دیتے ہیں کہ دونوں ملک ایسے نظریے کی بنیاد پر آزاد ہوئے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت خطے کا بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔ اسی طرح اس کا رقبہ‘ معیشت اور دفاعی صلاحیت‘ سب خطے کے سبھی ممالک سے زیادہ ہیں۔ یہ بڑی آبادی بلاشبہ عالمی برادری کے لیے ایک بڑی مارکیٹ ہے‘ جہاں کھربوں ڈالر کی مصنوعات کھپ سکتی ہیں‘ مگر خطے کے تنازعات خصوصاً پاک بھارت تنازعات کا حل ہونا اس بڑی مارکیٹ کو دنیا کے لیے فائدہ بخش ثابت نہیں ہونے دیتا۔ کشمیر کے متعلق بھارت کے عزائم اور خطے کی صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی پالیسی اور اس پالیسی کو تقویت دینے والی ٹیم کا کردار برقرار رہے۔
بھارت میں کئی بار پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا پراپیگنڈا کیا گیا۔ دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن نے یہ خدشہ غلط ثابت کردیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروٹوکول اب تک بھارت کے مقابلے میں زیادہ محفوظ رہا ہے۔ پاکستان نے انتہائی کشیدہ سرحدی صورتحال میں بھی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی بات نہیں کی؛ چنانچہ بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کے چارٹر کی موجودگی، سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عالمی برادری کی تائید اور دو طرفہ بات چیت کے معاہدوں کو مسترد کرکے اگر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی بات کی جاتی ہے تو اسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے کیونکہ بھارت کی جانب سے ایسا کوئی اقدام دنیا کو ایک بڑے المیہ سے دوچار کر سکتا ہے۔
جناب جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیاسی قیادت کو اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے بھرپور تعاون فراہم کیا ہے۔ حکومت کے لیے بلاامتیاز احتساب پہلی ترجیح ہے۔ اسی طرح معاشی بگاڑ کی وجوہات دور کرکے ملک کو قرضوں کی بجائے صنعتی اور زرعی پیداوار اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کے ذریعے خوشحالی اور خود انحصاری کی طرف بڑھانے کے لیے وزیر اعظم اور آرمی چیف کی سوچ میں مثالی ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے۔ جنرل باجوہ کی خدمات پر ایک بار پھر اعتماد کیا گیا ہے تو وزیر اعظم سے بھی توقعات بڑھ گئی ہیں کہ وہ عدلیہ، پارلیمنٹ، قوم اور خارجہ پالیسی کو مضبوط بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس امر کو بار بار قوم کے شعور کا حصہ بنانے کی سعی کی ہے کہ افراد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اداروں کے استحکام کی بات کی ہے۔ پاکستان کے مخصوص خاندانوں نے جس طرح اس ملک کو چلایا اور اداروں کو کمزور کیا‘ اس سے خود آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی متاثر ہوئی۔ جنرل باجوہ صاحب جمہوری استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ لیکن ایسی کامیابی اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب وزیراعظم عمران خان اپنے اردگرد موجود غیر ملکی شہریت رکھنے والے اور مختلف سیاسی جماعتوں سے منحرف ہونیوالے مشیران کو خود سے دور کریں گے۔ 
وزیر اعظم عمران خان نے مسائل میں گھرے پاکستان کی سلامتی و استحکام کے پیش نظر جنرل قمر جاوید باجوہ کے لیے تین سال مزید توسیع کر کے بین الاقوامی حالات کے تناظر میں ایک صائب اور درست فیصلہ کیا ہے کیونکہ پاکستان 8 ستمبر 1965 کو ایسے ہی تلخ تجربات سے گزر چکا ہے‘ جب میجر جنرل اختر ملک اور عبدالحی ملک نے انتہائی دلیری اور جرأت سے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی شہ رگ اکھنور پر قبضہ کر کے بھارت کے ایک لاکھ فوجیوں کو حصار میں لے لیا تھا تو جنرل ایوب خان کے حاسد اور سازشی ساتھیوں نے حالتِ جنگ میں چھمب جوڑیاں سیکٹر کی کمان تبدیل کر کے میجر جنرل یحییٰ خان کو کمان سونپ دی تھی۔ انہیں کمان بدلنے میں چند روز کی تاخیر ہو گئی اور بھارت نے حملہ کرکے اکھنور کی چوکی واپس لے لی اور اس طرح جنرل یحییٰ کی نااہلی کے باعث پاکستان کو ناقابل تلافی فوجی نقصان پہنچا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایسے خطرات کا ادراک رکھتے ہیں اور انہیں دہشت گردی کے خدشات کا بھی اندازہ ہے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے ملک کو معاشی استحکام گا اور خارجہ امور میں مزید بہتری آئے گی۔ حکومت کو احساس ہے کہ اقوام متحدہ کی مشاورتی میٹنگ میں بہت سے ممالک پاکستان کے ساتھ نہیں کھڑے تھے لہٰذا ہمیں خارجہ امور میں جارحانہ رویے کو ابھارنا ہوگا جیسا کہ سابق صدر ایوب خان کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے جولائی انیس سو پینسٹھ سے ہی خارجہ امور میں جارحانہ رویہ اختیار کرکے بھارتی وزارت خارجہ کو بین الاقوامی طور پر دیوار سے لگا دیا تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ چونکہ حکومت کی معاشی ٹیم کے اہم رکن بھی ہیں‘ لہٰذا ان کے سامنے حکومت کی ایک سال کی معاشی کارکردگی کا گیلپ نقشہ موجود ہے۔ حکومت کے بعض معاشی اقدامات کے فوری نتائج عوام کی توقعات کے مطابق نہیں نکلے جس سے ان میں مایوسی پیدا ہوئی اور اپوزیشن کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ حکومت اپنے قومی ایجنڈے پر عمل درآمد نہیں کر سکی۔ ملک مہنگائی کی لپیٹ میں آچکا ہے اور حالات و واقعات پر گہری دھند چھا گئی ہے۔ بے روزگاری کے مسائل‘ مہنگائی اور اشیا کے نرخ غریب آدمی کی رسائی سے باہر ہوگئے ہیں۔ اپوزیشن سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ وہ بھینسوں کا باڑا ہے اور اپنے اپنے مفادات میں چارا حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ ان حالات میں عمران خان کو اپنی کابینہ کے بعض نااہل وزرا کو وزارت سے فارغ کرنا ہو گا کیونکہ رولز آف بزنس کی پالیسی کے تحت جنرل باجوہ پاکستان کے اہم پالیسی ساز اداروں کے رکن ہیں‘ اگر معاشی بحران، سیاسی خلفشار، پارلیمانی روایات کے بر عکس کوئی لہر اٹھے گی تو قوم جنرل باجوہ صاحب کی طرف دیکھے گی۔ اب اگر اپوزیشن نے حکومت کے خلاف اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کی کوشش کی تو عمران خان کو اس کے ازالہ کے لیے عوام کو ریلیف دینا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں