"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو ارکان کا تقرر کرتے ہوئے حکومت نے حزب اختلاف کی سفارشات کو نظر انداز کر کے اور اپنی مرضی کا انتخاب کر کے پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے ایک آئینی‘ قانونی بحران پیدا کر دیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار محمد رضا نے صدر مملکت کی جانب سے مقرر کیے گئے دو نئے ارکان الیکشن کمیشن سے حلف لینے سے معذرت کر کے اپنے ادارے کی غیر جانبداری کو برقرار رکھا۔ الیکشن کمشنر کا موقف ہے کہ نئے ارکان کا تقرر آئین کے خلاف ہے اور انہوں نے وزارت پارلیمانی امور کو فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔ صدر مملکت نے بلوچستان سے منیر احمد کاکڑ اور سندھ سے خالد محمود صدیقی کو الیکشن کمیشن کا ممبر مقرر کرنے کی منظوری دی تھی۔ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے ساتھ دونوں شخصیات نے سیکرٹری الیکشن کمیشن فتح بابر یعقوب سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ وہ ممبرز کی حیثیت سے چارج لینے آئے ہیں‘ ان کی جوائننگ رپورٹ تیار کی جائے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے واضح کیا کہ یہ کوئی سرکاری ملازمین نہیں‘ جس میں چارج لیا اور دیا جاتا ہے بلکہ بطور ممبر الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 214 کے تحت اس کا حلف ہوتا ہے۔ میرے خیال میں دونوں شخصیات کو عجلت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نہیں جانا چاہیے تھا۔ 22 اگست کی رات 8 بجے ان ارکان کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری ہوا اور اگلی صبح دس بجے یہ ارکان الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اپنے فرائض منصبی سنبھالنے کے لئے الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ پہنچ گئے۔ اس سے پیشتر چیف الیکشن کمشنر نے وزارت پارلیمانی امور کو ریفرنس بھجوایا تھا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری آئین کے آرٹیکل 213 اور 218 سے مطابقت نہیں رکھتی اور صدر مملکت کو آئینی طور پر ارکانِ الیکشن کمیشن کی تقرری کا اختیار نہیں ہے‘ نہ ہی صدر کے مقرر کردہ ارکان سے حلف لیا جائے گا‘ جو آئین کے آرٹیکل 214 سے مشروط ہے۔ 
حکومت نے اگر چیف الیکشن کمشنر کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی تو ممکن ہے کہ اپنے شاندار ماضی کی روایات کو برقرار رکھنے کے لئے چیف الیکشن کمشنر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں اور ان کی پیروی کرتے ہوئے سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی دسمبر سے پہلے رخصت پر چلے جائیں۔ ماضی سے کئی ایسی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ جولائی 2002 میں لوکل گورنمنٹ الیکشن میں ناظمین کے انتخابات میں حکومت نے اپنے پسندیدہ امیدواروں کو شو آف ہینڈ کے ذریعے منتخب کرانے کا راستہ نکالا تھا‘ لیکن اس سے پیشتر لوکل گورنمنٹ ایگزیکٹو آرڈر 2001 کے تحت ناظمین کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے کرانے کا طریقہ واضح تھا۔ جب حکومت نے شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کرانے کے لیے آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ کیا اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ عبدالقدیر چودھری کو یہ فیصلہ میرے ذریعے پہنچایا تو چیف الیکشن کمشنر نے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مستعفی ہونے کی دھمکی دی تھی۔ ریکارڈ پر موجود ہے‘ میں نے صدر پرویز مشرف کو بین الاقوامی تناظر میں حالات کی نزاکت سے آگاہ کیا تھا اور انہوں نے فوری طور پر حکومتی فیصلے کو واپس لیتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سے براہ راست فون پر معذرت کی تھی۔ اسی طرح 2006 میں انتخابی فہرست ایکٹ 74 کے رولز 2 اور 3 میں تبدیلی کرنے کے لیے قومی شناختی کارڈ کی لازمی شرط کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو چیف الیکشن کمشنر قاضی محمد فاروق نے مزاحمت کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس پر میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن صدر پرویز مشرف سے رابطہ کر کے اس شرط کے خاتمے کے مضمرات سے آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے فوری طور پر حکومتی فیصلہ واپس لیتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سے معذرت کی تھی۔ لہٰذا میری دانست میں ارکان الیکشن کمیشن کی تقرری سے پیشتر صدر مملکت کو چیف الیکشن کمشنر کو اعتماد میں لیتے ہوئے رائے حاصل کرنی چاہیے تھی۔
اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو ارکان کے تقرر میں صدر مملکت کے نوٹیفکیشن کو اسلام آباد ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ 2013 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے آئینی طور پر تاریخی فیصلہ دیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمیشن کے تقرر میں صدر مملکت کا کوئی کردار نہیں ہے؛ چنانچہ دو ارکان الیکشن کمیشن کے تقرر کے نوٹیفکیشن کو اعلیٰ عدالت کے روبرو پیش کیا جا سکتا ہے‘ اور اگر فیصلہ بادی النظر میں حکومت کے خلاف آیا تو صدر مملکت کی غیر جانبداری پر حرف آئے گا‘ اور اپوزیشن کو ان کے خلاف اس انداز میں مواخذہ کرنے کا ہتھیار ہاتھ میں آ جائے گا جس طرح انہوں نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر کے ملک میں عدم استحکام کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی۔ لہٰذا مناسب ہو گا کہ احکامات واپس لے کر چیف الیکشن کمشنر سے معذرت کر کے پارلیمنٹ کی بالا دستی کو برقرار رکھا جائے کیونکہ صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 50 کے تحت پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا نے صدر مملکت کے احکامات کو مسترد کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ادارے کی غیر جانبداری پر مہر ثبت کر کے بین الاقوامی سطح پر ادارے کو سر بلند کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے جن دو ممبران کا تقرر کیا گیا ہے ان کا نوٹیفکیشن آئین کی 22ویں ترمیم کے ذریعے ٹیکنوکریٹس کی حیثیت سے ہونا چاہیے اور ٹیکنوکریٹس کی تعریف سپریم کورٹ آف پاکستان نے 1985 میں وسیم سجاد بنام فیڈریشن کے حوالے سے فیصلہ دیتے ہوئے کر دی ہے۔ اب ان دو ارکان کی قابلیت کو جانچنے کے لیے ٹیکنوکریٹس کی قابلیت کے اصولوں کو مدنظر رکھا جائے گا۔ یہ بھی واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو ارکان کی تعیناتی کا بحران 5 دسمبر 2019 تک حل نہ ہوا تو الیکشن کمیشن غیر فعال ہو جائے گا۔ 5 دسمبر 2019 کو چیف الیکشن کمشنر اپنی مدت پوری کرنے کے بعد اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہو جائیں گے اور نئے چیف کی تعیناتی عمل میں نہ لائی گئی تو الیکشن کمیشن عملی طور پر غیر فعال ہو جائے گا اور ملک میں ایک نیا آئینی بحران پیدا ہو جائے گا۔
ملکی ترقی و خوشحالی کا راز مستحکم جمہوریت میں مضمر ہے‘ اور مستحکم و حقیقی جمہوریت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سیاسی پارٹیوں میں خالص جمہوری رویہ نہ ہو۔ پاکستان کی تقریباً تمام بڑی پارٹیاں چند خاندانوں کی میراث بن کر رہ گئی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ معاشرے میں شخصیت پرستی کا رجحان ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے اور اس کے ذریعے سیاستدانوں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ جمہوری رویوں کو پروان چڑھانے اور مختلف شعبوں میں اہلیت پیدا کرنے کے لیے خصوصی انتظامات کرنا ہوں گے۔ پارلیمنٹ میں کچھ ٹیکنوکریٹ ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انجینئر، ڈاکٹر، دفاعی امور کے ماہرین کے بغیر آج کی حکومت نہیں چل سکتی۔ قومی دولت کے بڑے حصے سے چند افراد کے تصرف نے طبقاتی تقسیم کی لکیر کو گہرا کر دیا اور مایوس سیاستدانوں نے علاقائیت، لسانیت اور مذہبی فرقہ پرستی کے وسیلے ایسے تعصبات کی آبیاری کی جس نے سوشل تبادلے اور انسانوں کی بنیادی آزادیوں کا دائرہ محدود کر دیا۔ مقابلے کی فضا نے بے یقینی اور عدم تحفظ کے احساس کو بڑھایا تو خوف کی فضا میں ہر فرد نے اپنی حدوں میں پناہ تلاش کرنے ہی میں عافیت جانی۔ یہی ذہنی کیفیت‘ جس کا عکس ہمیں اٹھارہویں ترمیم میں دکھائی دیتا ہے‘ صوبائی خود مختاری کی آڑ میں مختلف صوبوں میں بسنے والوں کو مرکز گریزی کی طرف مائل کرتی نظر آئی۔ اگر یہاں ایک یونیفائیڈ گورنمنٹ کے تحت بڑے صوبوں کے بجائے چھوٹے انتظامی یونٹس بنائے جاتے تو علاقائی اور لسانی عصبیتوں کو پنپنے کا موقع نہ ملتا۔ مالیاتی امور پہ ریاست کا کنٹرول ہوتا تو دولت پہ نجی تصرف طبقاتی تقسیم کا سبب بنتا نہ کالا دھن سیاسی مساوات کی راہ روک سکتا۔ جیمز سٹیفن نے سچ کہا تھا‘ جمہوریت کو ابنائے سیاست نے ناجائز اہمیت دی ہے ورنہ سیاسی طاقت شکل بدلتی ہے اپنی فطرت نہیں بدلتی۔ ہمارے پڑوسی ملک چین نے جمہوریت کو مملکت میں داخل نہیں ہونے دیا اور پارٹی ڈکٹیٹرشپ کے ذریعے استبدادی نظام حکومت کے تحت ڈیڑھ ارب کی آبادی پر مشتمل وسیع مملکت کو متحد رکھتے ہوئے مثالی ترقی کی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں