"KDC" (space) message & send to 7575

کشمیر آتش فشاں کے دہانے پر

خود مختار کشمیر کی مہم چلانا خود اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی نفی ہے‘ کیونکہ ان قراردادوں میں دو راستوں میں سے ایک راستہ منتخب کرنے کے لیے رائے شماری کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ کشمیری پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی تیسرا آپشن نہیں تھا‘ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں اس امر کی ضمانت دی تھی لیکن کچھ حلقے دانستہ یا نا دانستہ طور پر خود مختار کشمیر کے معاملے کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اس مقصد کے لیے کچھ لوگوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے نعرے کو ہی سرکاری طور اجاگر کیا اور عوام میں روشناس کرایا جائے کیونکہ یہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روح ہے۔ خود مختار کشمیر کا نعرہ بھارت کی سیکنڈ دفاعی لائن ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کشمیر بنگلہ دیش کی طرح بھارت کے کنٹرول میں چلا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو خود مختار کشمیر کی معاشی حالت بہتر بنانے اور وہاں صحت کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے امریکہ‘ یورپ اور اسرائیل بھارت میں بڑی بڑی معاشی پیشکشیں لے کر آئیں گے اور اس خطے کو بیروت کی صورت میں مغربی اور مشرق وسطیٰ کے امرا کیلئے عیش و عشرت کا مرکز بنا دیا جائے گا۔ بد قسمتی سے خود مختار کشمیر کی تحریک کے پس پردہ فیض احمد فیض صاحب اور ان کا ترقی پسند گروپ بھی پیش پیش رہا اور کچھ حلقوں کا گمان یہ ہے کہ معاہدہ تاشقند‘ شملہ معاہدہ‘ اعلان لاہور اور بعد ازاں جنرل پرویز مشرف کا فارمولا پاکستان کے اصولی موقف کو بے وقعت کرنے کی سازشیں تھیں‘ اور اب بھی کچھ لوگ خود مختار کشمیر کی تحریک کو ہوا دیتے ہوئے رائے شماری کے مطالبے سے ہٹ کر کشمیر کو آزاد حیثیت دینے کیلئے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔
وفاقی کابینہ میں زیر غور آنے والی بھارت کے لیے فضائی حدود اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بند کرنے کی تجویز درحقیقت اس صورتحال کا فطری رد عمل ہے جو دہلی کی نریندر مودی حکومت کے پانچ اگست کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے غیر قانونی اور غیر آئینی جارحانہ اقدام کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ اس وقت مودی حکومت ایک جانب کشمیری عوام پر ظلم و ستم کے نت نئے حربے آزما رہی ہے تاکہ انہیں دبا کر رکھ سکے تو دوسری جانب کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیزی کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ اس طرح بھارتی حکومت جنگ پر تلی نظر آتی ہے اور جنوبی ایشیا ایک طرح سے آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا فیصلہ ہونے کے قریب ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان اپنی سفارت‘ سیاست‘ پارلیمان اور میڈیا کے ذریعے 'حق خود ارادیت کشمیریوں کا حق ہے‘ کے فلسفے پر گامزن رہے اور پاکستان میں کشمیری قیادت کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرے‘ جو جموں و کشمیر کے حریت پسند رہنما سید علی گیلانی کے نظریے کے قریب تر ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں کشمیر پر اپنے سخت مؤقف کے ذریعے اور نریندر مودی کو ہٹلر ثانی قرار دے کر بین الاقوامی رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ حکومت کو جارحانہ سفارت کاری کے ساتھ ساتھ دفاعی تیاریوں کے سلسلے میں اپنے تمام آپشن بھی کھلے رکھنے چاہئیں تاکہ بھارت کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو اور طاقت کا توازن خطے کے تقاضوں کے عین مطابق رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی ضمیر کو بھی آواز دینا ہو گی۔ کشمیریوں پر ظلم کی اب حد ہو چکی ہے اور لگتا ہے کہ نریندر مودی کا حساب بھی قریب آ پہنچا ہے۔ تھوڑی توجہ داخلی معاملات پر بھی دینا ہو گی کیونکہ کچھ لوگ ایسے بیانات دے رہے ہیں جو قومی موقف کے مطابق نہیں اور جن سے ملک میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری معطل ہوتی جا رہی ہے۔
عرب ممالک کے لیے بھارت سے اپنے معاشی مفادات انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے ایک طرف متحدہ عرب امارات نے نریندر مودی کو امارات کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا ہے تو دوسری طرف سعودی آرامکو نے بھارتی کمپنی ریلائنس میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اس سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ مسلم ممالک آپس میں متحد نہیں ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پانچ اگست کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تو پاکستان نے اس پر بھرپور رد عمل دیا اور توقع ظاہر کی کہ مسلم ممالک اس کا ساتھ دیں گے‘ لیکن صرف چین اور ترکی نے پاکستان کے موقف کی تائید کی جبکہ کوئی ملک پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے کوشاں ہے تو وہ امریکہ ہے۔ باقی کسی ملک نے کچھ نہیں کیا۔ کسی نے بھارت کی مذمت تک نہیں کی۔ کسی نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا ذکر نہیں کیا۔ مسلم ممالک میں سے کوئی آواز آئی تو صرف ترکی کی اور ایران کی۔ ایسا غالباً اس لئے ہوا کہ ان ممالک کے بھارت کے ساتھ اپنے کاروباری مفادات ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان ساری دنیا میں کشمیر کا مقدمہ لڑ رہا ہے تو متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھارتی وزیر اعظم کو اپنے سب سے بڑے سویلین اعزازات سے نوازا۔ واضح رہے کہ بھارت متحدہ عرب امارات کا امریکہ اور چین کے بعد تیسرا بڑا کاروباری شراکت دار ہے۔ بھارت اور متحدہ عرب امارات میں تجارت بڑھ کر 60 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں بھارتیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہر تین اماراتی میں سے ایک شخص بھارتی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں بھارتی سرمایہ کاری 55 ارب ڈالر ہے۔ دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں بھارتی شہری سب سے بڑے غیر ملکی سرمایہ کار ہیں۔ دبئی کی گلوبل پورٹ ڈی پی ورلڈ مقبوضہ کشمیر میں لاجسٹک حب قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کشمیر کا معاملہ سامنے آیا تو متحدہ عرب امارات میں بھارت کے سفیر نے اس کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دیا۔ ہر ملک اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے آزاد ہے۔ مذہب کے بجائے تجارت اور کاروبار کو اب اولیت حاصل ہو گئی ہے۔ امارات میں پاکستان کے چھ لاکھ کے مقابلے میں بھارت کے 28 لاکھ افراد بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔ بھارت نے سرمایہ کاری کیلئے اماراتی لوگوں کو وسیع اور محفوظ ترین مارکیٹ فراہم کر رکھی ہے۔
ایک جانب یہ معاملات چل رہے ہیں تو دوسری جانب مسلم ممالک کو تقسیم کرنے کے لئے بڑی طاقتیں سرگرمی سے اپنے ایجنڈے کو آگئے بڑھا رہی ہیں۔ افغانستان‘ عراق‘ شام‘ لبنان‘ تیونس اور لیبیا کی تقسیم کے بعد اب انڈونیشیا میں ایک اور ملک بنائے جانے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ انڈونیشیا میں ایک اور مشرقی تیمور بنائے جانے کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ مشرقی تیمور چار پانچ ہزار مربع میل رقبے اور آٹھ دس لاکھ آبادی والا ایک چھوٹا سا علاقہ تھا۔ اس کے بعد بھی انڈونیشیا کی جغرافیائی یونٹ پر کوئی گہرا اثر نہیں پڑا تھا‘ لیکن اس بار جس علاقے سے انڈونیشیا کو محروم کرنے کی عالمی سازش ہو رہی ہے‘ وہ پونے پانچ لاکھ مربع کلومیٹر وسیع ہے اور بے پناہ قدرتی وسائل‘ معدنیات اور جنگلی حیات سے مالامال ہے۔ انڈونیشیا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلمان ملک ہے۔ 19 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے اور پچیس کروڑ آبادی والا ملک۔ اس ملک کی وجہ سے ہی جنوب مشرقی ایشیا پر اسلام کا رنگ غالب ہے۔ لیکن اب پیپوا علاقے سے محرومی کے نتیجے میں انڈونیشیا کی سٹریٹیجک گہرائی بری طرح کم ہو جائے گی اور اس کی حیثیت بھی متاثر ہو گی۔ پیپوا کی عوام مشرقی تیمور کی طرز پر آزادی کے لیے ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو۔ پیپوا نسلی طور پر انڈونیشیا کی عوام سے الگ علاقہ ہے۔ یہاں مختلف نسل اور اقوام کے لوگ ہیں جن کو مجموعی طور پر پیپوی نسل کا نام دیا جاتا ہے۔ جب علیحدگی کی تحریک نے رنگ دکھایا اور انڈونیشیا کی وحدت کا شیرازہ بکھرنے لگا تو موجودہ حکومت نے انتہائی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انڈونیشیا کا دارالحکومت مغربی نیوگنی میں منتقل کرکے سرکاری اعلامیہ جاری کر دیا۔ جکارتہ کے بجائے اب مغربی نیوگی کو دارالحکومت قرار دیا جا رہا ہے تاکہ مغربی نیو گنی کے عوام کو ترقیاتی منصوبوں میں شامل کر لیا جائے۔ انڈونیشیا کی جمہوری حکومت نے مسئلے کا فوجی حل نکالنے کے بجائے ملک کے قدیم ترین دارالحکومت کو ہی مغربی نیوگنی منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ بہرحال دیکھیں کہ آئندہ انڈونیشیا میں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں