"KDC" (space) message & send to 7575

سوالیہ نشان

ملک میں سیاسی حوالے سے حالات جیسے چل رہے ہیں‘ سب کے علم میں ہے؛ چنانچہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ممکنہ گرفتاری کی صورت میں جناب آصف علی زرداری نے سیاسی حکمت عملی کے طور پر آصفہ بھٹو زرداری کو آگے لانے کا فیصلہ کیا ہے‘ کیونکہ مراد علی شاہ کی گرفتاری کے بعد سندھ کابینہ خود بخود تحلیل ہو جائے گی اور آئین کی رو سے کسی بھی غیر منتخب رکن اسمبلی کو چھ ماہ کے لیے وزیر اعلیٰ مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اس دوران اس رکن کا صوبائی اسمبلی سے منتخب ہونا لازمی ہے؛ چنانچہ لاڑکانہ کی صوبائی اسمبلی کی نشست خالی کروا کے آصفہ کو با آسانی رکن صوبائی اسمبلی منتخب کروایا جا سکتا ہے۔ 27 ارکان پر مشتمل فارورڈ بلاک بنانے کی مہم زور پکڑ رہی ہے اور صوبائی کابینہ کے سب سے زیادہ متحرک رکن وزیر بلدیات سید ناصر شاہ بھی متوقع وزیر اعلیٰ کے طور پر آگے بڑھ رہے ہیں‘ لیکن آصف علی زرداری اور بلاول سید ناصر شاہ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی جماعت کے سینئر رہنماؤں سے ملاقات کے بعد سندھ اسمبلی کے اہم ارکان سے بھی ملاقات کی‘ کیونکہ صوبائی اسمبلی کے سپیکر آغا سراج درانی کے اپنے رہنماؤں کے بارے میں شدید تحفظات ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کے ریلیف اور رہائی کے لیے پارٹی قیادت نے ان کی توقع کے برعکس مصلحت آمیز پالیسی اختیار کر رکھی ہے؛ چنانچہ حالات اب فارورڈ بلاک کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ جو مبینہ طور پر سندھ کی موجودہ حکومت کو تحلیل کر کے نئی صوبائی حکومت بنانے جا رہا ہے۔ سندھ اسمبلی کے سپیکر‘ جو خود احتساب بیورو کے تحت زیر تفتیش ہیں‘ نے ارکانِ اسمبلی کو عندیہ دیا ہے کہ ان کی مدد کریں تاکہ مراد علی شاہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کر کے انہیں وزیر اعلیٰ منتخب کروایا جا سکے۔ ارکان سندھ اسمبلی کو انہوں نے یہ کہا کہ ان کو ارکان اسمبلی کی ضرورت ہے‘ کیونکہ حکومت تبدیل ہونے جا رہی ہے؛ تاہم بلاول بھٹو زرداری نے ممکنہ بغاوت روکنے کے لیے سید مراد علی شاہ سے طویل ملاقات کی ہے۔ بظاہر آغا سراج درانی کے وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات معدوم ہیں‘ کیونکہ ان کے خلاف کرپشن کے مضبوط کیس بنائے گئے ہیں۔ اگر سید مراد علی شاہ گرفتار ہو جاتے ہیں تو آصفہ بھٹو زرداری کو فوری طور پر وزیر اعلیٰ نامزد کرنے میں آئینی طور پر کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ سندھ اسمبلی میں ارکان کی مجموعی تعداد 168 ہے‘ ان میں پیپلز پارٹی کے 99‘ تحریک انصاف کے 30‘ متحدہ قومی موومنٹ کے 20‘ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے 14‘ تحریک لبیک کے 3 اور متحدہ مجلس عمل کا 1 رکن شامل ہے۔ تحریک انصاف‘ متحدہ قومی موومنٹ‘ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور تحریک لبیک پارٹی کو اس وقت فارورڈ بلاک بنا کر سید مراد علی شاہ کی حکومت ختم کرنے کے حوالے سے 17 ارکانِ اسمبلی کی کمی کا سامنا ہے۔
اس وقت پیپلز پارٹی کے چالیس فیصد ارکانِ اسمبلی کے خلاف قومی احتساب بیورو اور ایف آئی اے‘ دونوں تفتیش کر رہی ہیں‘ تحریکِ انصاف گورنر سندھ عمران اسماعیل کو متحرک کر کے اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کر سکتی ہے‘ لیکن اگر آئین کے آرٹیکل 63 (1) کو مدِ نظر رکھا جائے تو فارورڈ بلاک بنانے کے تمام راستے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے مسدود ہو چکے ہیں۔ اب اگر پارٹی کے ارکان اپنی پارٹی کے سربراہ کی منشا کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد میں کسی کو اپنا ووٹ دیتے ہیں تو ان کی ممبرشپ ختم ہو جائے گی‘ کیونکہ پارٹی لیڈر کے ریفرنس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان ان کی رکنیت کو تحلیل کرنے کی آئینی طور پر پوزیشن میں ہے۔ ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ اگر سید مراد علی شاہ قومی احتساب بیورو کی زد میں آ کر وزارت اعلیٰ سے محروم ہوتے ہیں‘ تو پھر آصفہ بھٹو زرداری کو اس طرح آگے لایا جا سکتا ہے‘ جس طرح صوبہ بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرشاد نے اپنی نا اہلیت کے فوراً بعد اپنی اہلیہ رابڑی دیوی کو وزیر اعلیٰ مقرر کروا دیا تھا۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلی سندھ‘ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کی نمائندگی ہے‘ جس کے قانونی طور پر آصف علی زرداری سربراہ ہیں اور بلاول بھٹو زرداری بھی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کا حصہ ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا پارلیمنٹ میں کوئی کردار نہیں ہے‘ نہ ہی پارلیمنٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کوئی نمائندگی ہے‘ لہٰذا تمام اہم اور پارٹی امور کے کلیدی فیصلے آصف علی زرداری صاحب نے ہی کرنے ہیں۔ جس طرح انہوں نے قومی احتساب بیورو کی حراست کے دوران میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنا کر اپنے لیے ریلیف حاصل کر لیا تھا؛ تاہم جب بھی کوئی دشواری سامنے آئی تو آصف علی زرداری ہی اپنی کمان سے تیر اندازی کریں گے۔
ایسی خبریں اب واضح طور پر سننے میں آ رہی ہیں کہ سندھ حکومت کو گرانے کے لیے سرگرمیاں جاری ہیں۔ سندھ اسمبلی میں اگر پارٹی قیادت کا بحران پیدا ہوتا ہے اور پارٹی کی حکومت تبدیل ہوتی ہے تو اس کے اثرات وفاقی سطح تک بھی مرتب ہوں گے‘ کیونکہ حکومت معاشی طور پر گرداب میں پھنسی ہوئی ہے اور ڈاکٹر حفیظ شیخ نے بھی فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی رپورٹ پر عدم اعتماد کر دیا ہے۔ ان حالات میں معاشی طور پر پاکستان پستی کی طرف جا رہا ہے۔ اگر معاشی طور پر ہدف پورا نہ ہوا تو پھر آنے والے مہینوں میں مزید مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس حوالے سے دسمبر اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ چونکہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اکنامک ڈویلپمنٹ کونسل کے ممبر بھی ہیں؛ چنانچہ ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کی ذمہ داری اب اس کونسل کے رولز آف بزنس کے تحت ان پر بھی عائد ہو چکی ہے اور آئین کے آرٹیکل پانچ کی پاسداری کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے؛ تاہم ملک کے معاشی حالات بہتر بنانے کیلئے وزیراعظم کو نااہل وزرا اور مشیران سے نجات حاصل کرنا ہو گی‘ اور منتخب ارکان کو اہم ذمہ داریاں تفویض کرنا ہوں گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کو الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت باقاعدہ طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے رجسٹرڈ کر رکھا ہے۔ الیکشن 2018ء میں ان دونوں جماعتوں نے مشترکہ طور پر انتخابی نشان تیر حاصل کیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان نے تیر کے انتخابی نشان پر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے پلیٹ فارم پر انتخاب میں حصہ لیا اور الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق پارلیمنٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اب لمحۂ فکریہ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق ایک ہی پارٹی کا ممبر بنا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی کے رجسٹرڈ ارکان کا تجزیہ کیا جائے تو ان کے بیشتر ارکان پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے ہی رکن ہیں۔ اب اگر وزارتِ قانون و انصاف اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ریفرنس دائر ہو جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے متعدد ارکان اس بنا پر نا اہل ہو سکتے ہیں کہ وہ ریکارڈ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر ہیں۔ وزیر قانون و انصاف پاکستان کے صفِ اول کے قانون دان ہیں‘ ان کو چاہیے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کی رجسٹریشن کے خلاف تمام دستاویزات حاصل کر کے الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق جانچ پڑتال کریں۔ الیکشن 2018ء کے وقت ان دونوں پارٹیوں نے جو مشترکہ طور پر انتخابی نشان حاصل کیا تھا‘ اس کی بھی قانونی حیثیت کا جائزہ لیا جائے تو پارلیمنٹ میں آدھی سے زیادہ نشستوں سے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین محروم ہو جائے گی۔ آصف علی زرداری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین ہیں اور اور بیک وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے بھی شریک چیئرمین ہیں‘ جو کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے بھی شریک چیئرمین ہیں‘ یوں وہ نا اہلی کی زد میں آ سکتے ہیں۔ توجہ طلب مسئلہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری پارٹی ذرائع کے مطابق شدید علیل ہیں۔ اگر ان کی صحت خدانخواستہ مزید خراب ہوتی ہے تو ان کے جانشین کا مسئلہ قانونی حیثیت اختیار کر جائے گا‘ کیونکہ بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں‘ ان کو آصف علی زرداری کا جانشین بننے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرمین شپ سے سبکدوش ہونا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں