"KDC" (space) message & send to 7575

قومی احتساب بیورو کو کمزور نہ کیا جائے!

وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور داخلہ و خارجہ محاذوں پر حکومت اور اداروں کی سوچ یکساں ہے۔ سابقہ ادوار حکومت میں ایسا نہ تھا۔ اگرچہ اس مفاہمت کی وجہ سے حکومت اور قومی اداروں کے درمیان کبھی تناؤ پیدا نہیں ہوا‘ تاہم اپوزیشن اس پر بہت زیادہ تنقید کرتی ہے۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی کی وجہ سے حکومت مخالف تحریک کامیاب نہ ہو سکے گی اور پائیدار ترقی کے لئے حکومت اور ادارے مل کر چلتے رہیں گے۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کو اپنے بعض وزرا اور بعض مشیروں کی وجہ سے مستقبل میں چیلنجز درپیش ہو سکتے ہیں۔ ارد گرد کی انہی بعض شخصیات کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان ایک طرح سے حصار میں ہیں جبکہ ان مخصوص وزرا اور مشیروں کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان کو آئینی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی زیر قیادت قومی احتساب بیورو کی شاندار کارکردگی کا ثبوت یہ ہے کہ اس ادارے نے 22 ماہ کے دوران بالواسطہ اور بلا واسطہ مجموعی طور پر تقریباً 71 ارب روپے بد عنوان عناصر سے برآمد کر کے قومی خزانہ میں جمع کرا دیے ہیں‘ یعنی ماہانہ اوسطاً 3.2 ارب روپے‘ تاہم قومی احتساب بیورو کے قوانین میں ترامیم سے سینکڑوں کیسز کی انکوائریز قومی احتساب بیورو سے واپس لے لی جائیں گی‘ جبکہ ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو انکوائریاں بھجوانے سے متعدد ملزموں کو فوائد پہنچیں گے۔ حکومت کی بنائی ہوئی کمیٹی بھی پلی بارگین کیسز پر اثر انداز ہو سکے گی‘ اس طرح قومی احتساب بیورو پر حکومتی اثر و رسوخ بڑھ جائے گا‘ جبکہ نیب تفتیشی آفیسر ملزموں کے 90 روز کے ریمانڈ کے بجائے صرف 45 روز کا ریمانڈ لے سکیں گے۔ اتنے کم دنوں میں وائٹ کالر کرائم کے ملزموں کے خفیہ اثاثوں کا پتہ لگانا مشکل ہو جائے گا‘ لہٰذا عام تاثر یہی ہے کہ قوانین میں ترامیم سے ملزموں کو این آر او کی صورت میں فائدہ پہنچنے کا احتمال ہے۔ پانچ کروڑ روپے سے کم کے سینکڑوں کیسز کی انکوائریاں نیب کے مختلف ریجنز میں تفتیش کے مراحل میں ہیں‘ ان کو دوسرے محکموں کو دینے کے باعث متعدد ملزموں کو بچ نکلنے کا موقع مل جائے گا۔
ایف آئی اے نیب کی طرح وفاقی ادارہ ہے‘ جبکہ اینٹی کرپشن کے صوبائی ادارہ ہونے کی وجہ سے ان کا انکوائریوں کا دائرہ کار بھی چیلنج ہو جائے گا‘ دوسری جانب نیب جن ملزموں کی تفتیش تین ماہ میں مکمل نہیں کر سکے گا ان کو ضمانت کرانے کا اختیار دیا جا رہا ہے۔ اس طرح میگا کرپشن کے ملزم کو ضمانت کروا کے بیرون ملک فرار کا موقع مل جائے گا۔ نیب کی ایک بار تفتیش مکمل ہونے کے بعد دوبارہ اوپن کرنے کا اختیار بھی ختم کرنے کی ترمیم وزارتِ قانون نے تیار کر رکھی ہے۔ قومی احتساب بیورو کے پلی بارگین کے قانون میں ترمیم کر کے وزیر اعظم عمران خان کی مجوزہ کمیٹی کو ملزموں سے لوٹی گئی رقوم رضا کارانہ واپس لینے کی درخواست منظور کرنے کی تیاری کی گئی ہے۔ اس ترمیم سے نیب پر حکومتی اثر و رسوخ بڑھ جائے گا اور نیب کو پرائیویٹ افراد‘ جن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہ رہا ہو‘ کے خلاف کرپشن کے باوجود انکوائری روکنے کے اختیار سے نیب کے اختیارات پر قدغن لگے گی۔ وزیر اعظم عمران خان قومی احتساب بیورو کے موجودہ ڈھانچے میں ترامیم کر کے این آر او کا دروازہ کھول رہے ہیں۔ دوسری جانب وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن کے دو ارکان کا تقرر صدر مملکت سے کروا کے الیکشن کمیشن کو بھی دیوار سے لگانے کی کوشش کی‘ حالانکہ جن دو ارکان کا تقرر کروانے کی کوشش کی گئی وہ ٹیکنوکریٹس کے معیار پر پورے ہی نہیں اترتے۔
قومی معیشت کے حوالے سے حالات اب بھی بہتر قرار نہیں دئیے جا سکتے ہیں۔ ملک معاشی عدم استحکام سے دوچار ہے‘ پاکستان مشکل حالات کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے‘ ہر سو مسائل اور مشکلات کے لا متناہی سلسلے ہیں۔ پاکستانی روپے کی بے قدری میں اضافہ ہو رہا ہے‘ ڈالر کے نرخ بھی بہت زیادہ ہیں اور کم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ صنعتیں بھی مشکلات سے دوچار ہیں جن کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس وقت ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے‘ ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق مالیاتی خسارہ اور غیر ملکی ادائیگیاں پاکستانی معیشت کے لیے پریشان کن صورت اختیار کر چکی ہیں۔ معاشی ترقی کی شرح 4.2 فیصد رہ جانے سے تجارتی خسارہ جی ڈی پی کا 7.2 فیصد رہنے اور مہنگائی کی شرح 8 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ یہ رپورٹ حکومت سے معیشت کے استحکام کے ضمن میں درست اور بر وقت اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر اب بھی اس حوالے سے درست طور پر کام نہ کیا گیا تو اکتوبر‘ نومبر میں صورتحال مزید سنگین شکل اختیار کر سکتی ہے اور اسلام آباد کو مفلوج کرنے کی حکمت عملی کو فائدہ پہنچنے کا اندیشہ پیدا ہو سکتا ہے‘ لہٰذا وزیر اعظم عمران خان عوام کا مقدمہ لڑنے کے لیے اخلاص اور نیک نیتی پر مبنی اقدامات کے ذریعے قومی معیشت بہتر بنانے اور استحکام پیدا کرنے کے لیے اقتصادی ماہرین کو تبدیل کر کے منتخب ارکان اسمبلی کو اہم ذمہ داریاں سونپ دیں‘ کیونکہ ان کی جڑیں عوام میں ہیں اور وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ سنگین بحران کے دنوں میں دہری شہریت رکھنے والی ٹیم ملک سے فرار ہو جائے گی‘ جبکہ منتخب ارکان نے تو عوام کے ساتھ ہی جینا مرنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو احساس ہونا چاہیے کہ اگر معیشت اسی طرح چلتی رہی تو مہنگائی کا حجم دو گنا ہو جائے گا جس کے نتیجے میں لوگوں کے گھریلو بجٹ بری طرح متاثر ہوں گے۔ عمران خان صاحب حالات کا ادراک کریں کہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے ساتھ ہی ملک کی سٹاک مارکیٹ میں یک دم 500 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا‘ کیونکہ سرمایہ کاروں کو یقین ہونے لگا کہ اب آئندہ تین سال تک اکنامک پالیسیوں کو پروان چڑھنے کا موقع ملے گا‘ اس لیے کہ جنرل باجوہ دفاعی امور پر ہی نہیں اقتصادی اور خارجہ امور پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ سرمایہ کاروں کو احساس ہو گیا ہے کہ میگا کرپشن کیسز والے جیلوں میں قید ہیں اور اپوزیشن کی سیاست بے جان ہو چکی ہے۔
ایک توجہ طلب معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کی بے حسی‘ چور بازاری اور قبضہ مافیا گروپ کی کارستانیوں سے بانیانِ پاکستان کی وقف شدہ جائیدادیں بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ محکمہ اینٹی کرپشن لاہور ریجن نے گلبرگ کے علاقے میں واقع بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح‘ مادر ملت فاطمہ جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان کی وقف شدہ اربوں روپے کی جائیدادوں پر قبضے کا نوٹس لیتے ہوئے باقاعدہ تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ ہمارے معاشرتی و اخلاقی دیوالیہ پن کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ ہمارے ماضی کے اندازِ حکمرانی سے طاقتور قبضہ گروپ اس قدر مضبوط ہو گئے کہ آج بانیانِ پاکستان کی وقف شدہ جائیدادیں بھی ان کی دست برد سے محفوظ نہیں رہیں۔ یہ قبضہ گروپ کبھی وجود میں نہ آتے‘ اگر انہیں با اثر افراد اور بعض سیاسی جماعتوں کی بالواسطہ یا بلا واسطہ سرپرستی حاصل نہ ہوتی۔ سیاست دانوں اور با اثر طبقات نے نہ جانے کون کون سے گینگ اور مافیاز متعارف کرائے ہیں‘ جن کے ذریعے سرکاری زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کر کے ان کے اپنے ذاتی استعمال میں لیا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو بانیان پاکستان کی وقف شدہ جائیداد پر قبضہ کرنے کے خلاف از خود نوٹس لینا چاہیے۔ یہ معاملہ صوبائی حکومت پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھی خاموشی کی چادر تان رکھی ہے اور میڈیا نے بھی اس کو اہمیت نہیں دی‘ لہٰذا ضمیر فروشوں نے بانیانِ پاکستان کی املاک پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ وہ کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ قومی املاک واگزار کرا کر سرکاری ملکیت میں لی جائیں اور قبضہ گروپ کے سرپرستوں کو گرفتار کر کے عبرت کا نشانہ بنانے کے لیے قومی احتساب بیورو بھی آگے بڑھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں