"KDC" (space) message & send to 7575

تبدیلی کے آثار

امریکی صدر ٹرمپ نے کابل حملے کو جواز بنا کر طالبان کے ساتھ جاری امن مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے طالبان رہنماؤں سے ہونے والی خفیہ ملاقات بھی منسوخ کر دی ہے۔ امریکی صدر نے اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے لوگ ہیں‘ جو سودے بازی میں مستحکم پوزیشن کے لیے لوگوں کو قتل کرتے ہیں‘ شاید طالبان میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ وہ با مقصد معاہدے کے لئے کوئی مذاکرات کر سکیں۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات کی ناکامی کا پاکستان کی سیاست پر گہرا اثر پڑے گا‘ کیونکہ 22 جولائی کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین ملاقات اور بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کے دوران افغانستان میں امن کے قیام کے سلسلے میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان کے تعاون کی تعریف کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاکستان کا رول اس حوالے سے بڑا اہم ہے۔ لیکن طالبان کو خفیہ ملاقات کے لئے امریکہ بلانے‘ صدر ٹرمپ سے ان کی ملاقات اور ان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کے منصوبے کے بارے میں امریکی انتظامیہ نے ایک بار پھر پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت کے لیے بھی یہ سوچ اور فکر کی دعوت اور لمحہ فکریہ ہے کہ افغانستان میں امن کی تلاش کی امریکی حکمت عملی میں پاکستان کے مفادات اور اعتماد کی پوزیشن کو ممکنہ طور پر کچھ خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب کشمیر میں بھارتی اقدامات پاک بھارت کشیدگی کی موجودہ صورتحال میں اضافہ کر رہے ہیں اور تنائو کو بڑھا رہے ہیں۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ صدر ٹرمپ اور طالبان کی خفیہ ملاقات کی منسوخی پر بھارت اپنے لئے فوائد کے دروازے کھولنے کی کوشش کرے گا‘ کیونکہ طالبان امریکہ مذاکرات آگے بڑھانے میں پاکستان کے رول کے باعث پاک امریکہ تعلقات میں مثبت تبدیلی آئی تھی اور امریکی انتظامیہ کی نگاہیں وزیر اعظم عمران خان پر لگی ہوئی تھیں‘ لیکن اب امریکہ پاکستان میں اپنی ہم خیال سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ذریعے سیاسی انارکی پیدا کرنے کے لیے وہی ماحول پیدا کر سکتا ہے جس طرح کا ماحول مارچ 1977ء میں بھٹو حکومت کے خاتمے کے لئے پیدا کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ امریکہ کی حکمت عملی تھی۔ اس لئے عمران خان کی کابینہ کے ارکان کو محض میڈیا پر بیانات کی خوش الحانی کے بجائے عملی طور پر پاکستان کی مضبوط حکمت عملی کے لئے کوشش کرنا چاہئے‘ کیونکہ صدر ٹرمپ کو اب غالباً پاکستان کی قیادت میں وہ کشش نظر نہیں آ رہی جو کچھ عرصہ پہلے تک بڑی واضح طور پر نظر آ رہی تھی۔ اور پاکستان کی قیادت نے اپنے سیاسی استحکام کے لیے امریکہ کی آشیرباد حاصل ہونے کے جو خواب دیکھے تھے‘ وہ بھی غالباً چکنا چور ہوتے جا رہے ہیں۔ اندیشہ یہ ہے کہ امریکہ اب ہمارے ملک میں ایسی قیادت کا متلاشی ہو گا‘ جو امریکہ‘ بھارت اور افغانستان و پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں مفاہمت کے لئے سب کو قابل قبول ہو۔ پاکستان کے وزیر اعظم اس وقت ایک مشکل راہ پر کھڑے ہیں‘ کیونکہ امریکہ نے طالبان سے یک طرفہ مذاکرات کو منسوخ کر کے پاکستان کو اعتماد میں لینے سے گریز کیا ہے‘ حالانکہ پاکستان کی قیادت خطے میں امن و استحکام کے امکانات کے حوالے سے پھیلتی ہوئی تاریکی کے باوجود اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور اس خطے کو ہلاکت و تباہی سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے سلسلے میں بھی اس کا کردار کلیدی ہو سکتا ہے۔ اس لئے امریکہ کو جلد بازی میں کوئی فیصلہ یا اقدام نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان کے سیاسی‘ معاشی اور داخلی معاملات اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ افغانستان اور کشمیر میں دیرپا امن کی بحالی اور اس خطے میں سازشی گیم کے خاتمے میں مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ امریکی گیم کے سدِ باب کے لیے پاکستان کی سیاسی قیادت کو از سر نو سیاسی صف بندی کرنا ہو گی۔ مجھے اب قومی حکومت کا قیام ناگزیر ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ لیکن اس قومی حکومت سے پہلے کرپٹ سیاستدانوں کو کنارے پر لگانا ہو گا۔
اکتوبر میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اسلام آباد لانگ مارچ کی جو کال دی گئی ہے‘ اس پر حکومت ان حالات میں ٹھوس اور با مقصد موقف اختیار کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔ احتجاج کرنے والوں کے علاوہ ایسی تنظیموں کے نظریاتی اور سیاسی ورکرز کی بھاری تعداد کے بھی کیموفلاج کی آڑ میں اسلام آباد میں داخل ہونے کا اندیشہ موجود ہے‘ جنہوں نے واپسی کا ٹکٹ نہیں لیا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو عوام کی نظروں میں گرانے میں پنجاب پولیس نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے‘ اور پولیس اصلاحات کے حوالے سے حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ پولیس ملازمین کی بے رحمانہ اور ظالمانہ زیادتیوں سے پنجاب کے عوام مایوس اور ان کے ترجمانوں سے نالاں ہو چکے ہیں‘ جبکہ نئی صف بندی کا مقابلہ کرنے کے لیے ممکن ہے موجودہ سیٹ اپ میں سکت نہ ہو‘ کیونکہ حکمران جماعت کی سیاست کمزور ہو چکی ہے اور سیاستدانوں کی داخلی اور خارجی معاملات میں مداخلت ختم ہو چکی ہے۔
جس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں‘ ان سے لگتا ہے کہ پولیس نے پنجاب کے عوام کو ایک طرح سے وزیر اعظم سے لاتعلق کر دیا ہے۔ اور شاید وزیر اعظم صاحب کو ادراک ہی نہیں کہ کس ہوشیاری سے پولیس کے ذریعے عوام کو ان سے بیزار کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ‘ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے سہارے پر کیسے پنجاب کو تا دیر کنٹرول کر سکیں گے؟ عثمان بزدار صاحب ایک سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی تشبیہ لگتے ہیں‘ جن کی کمزوریوں‘ اقربا نوازی اور نا اہلی نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے لئے مسائل بڑھا دئیے تھے اور جنرل ضیا الحق کے اقتدار میں آتے ہی‘ وہ ان کے گروپ میں چلے گئے۔ اس طرح جب ذوالفقار علی بھٹو نے ملک معراج خالد کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا تو وہ بھی عثمان بزدار کی طرح شرافت کا استعارہ بنے رہے اور پنجاب حکومت کو اپوزیشن نے اپنے حصار میں لینے کی کوشش کی تو فوری طور پر ملک غلام مصطفی کھر کو وزیر اعلیٰ مقرر کر کے اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکال دی گئی۔ وزیر اعظم صاحب احساس ہونا چاہیے کہ مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کے اقدام میں ان کے بعض کمزور ساتھیوں کا بڑا عمل دخل ہو گا۔
مولانا فضل الرحمن کے اعلان کردہ آزادی مارچ سے عوام کو کوئی دلچسپی نہیں‘ لیکن ان کے دھرنے کے نتیجے میں جنرل وحید کاکڑ کا فارمولا زیر بحث لایا جا سکے گا‘ جس کے تحت قومی مفاد میں پارلیمان کے اندر تبدیلی کے امکانات پر غور کیا جائے گا اور باہمی اتفاقِ رائے سے پارلیمنٹ کے اندر سے ہی ایک ایسی شخصیت کو آگے لایا جائے گا اور اپوزیشن کے دباؤ کے تحت پنجاب کی حکومت تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ میرا خیال یہ ہے کہ چودھری نثار علی خان کو آگے لایا جائے گا۔ شریف برادران اور زرداری خاندان کو گیم سے ہمیشہ کے لئے خارج کر دیا جائے گا‘ اور جن کے خلاف عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں ان مقدمات کو بھی منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ وفاقی سطح پر دُہری شہریت رکھنے والے ٹیکنوکریٹس اور غیر حلف یافتہ مشیران اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے اور پارلیمنٹ سے ایسی شخصیات سامنے آئیں گے جو بین الاقوامی سطح پر قابل قبول ہوں۔ امریکہ کو اب موجودہ سیٹ اپ میں کشش نظر نہیں آ رہی ہے۔ چوہدری نثار علی خان کی پشت پر شہباز شریف اور ان کی جماعت کے متحرک ارکان اور صوبائی اسمبلی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ارکان بھی کھڑے ہوئے نظر آ رہے ہیں جبکہ آزاد ارکان‘ جو کامیاب تو غیر جانبداری کی وجہ سے ہوئے لیکن منافقانہ کردار ادا کرتے ہوئے اور عوام کی خواہشوں کا خون کرتے ہوئے حکمران جماعت سے وابستہ ہو گئے ہیں‘ بھی کچھ کردار ادا کر سکیں گے‘ جس طرح ملک معراج خالد نے 1968ء میں صدر ایوب خان کی پارٹی مسلم لیگ کنونشن سے ضمیر کے بحران کے نام پر پمفلٹ شائع کئے‘ پھر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور پھر اسی ضمیر کے بحران کی آڑ میں 6 نومبر 1996ء کو صدر لغاری کے کیمپ میں چلے گئے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں