"KDC" (space) message & send to 7575

قائدِ اعظم‘ گاندھی‘ وزرا اور کشمیر

تحریک انصاف کی انتخابی مہم اور سیاسی فکر کا بنیادی نکتہ ہی شفاف احتساب تھا۔ عام آدمی نے ملک کی سیاسی تاریخ میں شاید پہلی بار‘ عمران خان صاحب کے اس نعرے پر مکمل اعتماد کا اظہار بھی کیا اور اسی اعتماد کی عملی شکل تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی کی صورت برآمد ہوئی‘ تاہم ابھی تک سوائے ٹیلی ویژن ٹاک شوز میں بیان بازی کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔یہ ضرور ہے کہ حکومت این آر او‘ مفاہمت ‘سمجھوتہ اور اس جیسے بندوبست سے انکار کا مسلسل اظہار کر رہی ہے ‘ جہاں تک عملی اقدامات کا معاملہ ہے تو گزشتہ ایک سال کے دوران نوازشریف‘ شاہدخاقان عباسی‘ آصف علی زرداری‘ شہباز شریف‘ حمزہ شہباز‘ خواجہ سعد رفیق‘ سلمان رفیق اورمریم نواز سمیت اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے متعدد نمایاں چہرے بد عنوانی کے الزامات میں گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے بعض سزا بھی بھگت رہے ہیں‘ جبکہ قومی احتساب بیورو کی عدالتوں میں مقدمات کی تفتیش بھی جاری ہے۔ اس صورتحال میں بعض حلقوں کی طرف سے مفاہمت‘ سمجھوتے اور این آر او کی افواہیں سامنے آتی رہتی ہیں‘ جن کی حکومت‘ خاص طور پر وزیراعظم کی طرف سے سخت انداز میں تردید کی جاتی ہے۔مگر وزیراعظم عمران خان مسلسل ایک سال سے تردید میں بیانات تک ہی کیوں محدود ہیں‘ جبکہ قومی احتساب بیورو نے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے سیاسی دنیا کے عظیم تر مافیا کے بڑے ناموں کو بدعنوانی کی تحقیقات کے لیے گھیرے میں لے لیا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ حکومت نے ایک سال کے دوران احتسابی عمل میں سیاسی مداخلت یا دباؤ کو قبول نہیں کیا ‘اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ گرفتاریاں ہونے اور احتساب کے عمل کے باوجود آج تک ان بدعنوان سیاستدانوں سے مال کی بازیابی نہیں ہوسکی‘ جبکہ عمران خان صاحب بار بار للکار رہے ہیں کہ گرفتار سیاستدانوں سے اربوں ڈالر کی ریکوری کی جائے گی اور بدعنوانی میں ملوث عناصر سے کسی تفریق وتقسیم کے بغیر ملکی اثاثوں کے کھربوں روپے قومی خزانے میں لائے جائیں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ منی لانڈرنگ کی دولت بازیاب کراکے معیشت کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ احتساب کو ثمر آور بنا کر عام آدمی کو درپیش بنیادی مسائل کا حل بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کو اس ضمن میں محض گفتگو‘ نعرے بازی اور جوش وخروش سے آگے نکل کر نتیجہ خیز اقدامات کی جانب پیش رفت کر نا ہوگی اور وزیراعظم کو یہ حقیقت سمجھ لینا ہوگی کہ اب باتوں کا وقت گزر چکا ہے۔
پاکستانی عوام نے بہت بلند توقعات کے ساتھ عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھایا ہے۔ ان توقعات میں بلند ترین لوٹ مار کے نظام کا جڑ سے خاتمہ اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو قومی خزانے میں واپس لانا بھی شامل ہے۔ وزیراعظم عمران خان اعلانیہ کہتے ہیں کہ وہ 2008ء سے 2018ء کے درمیان لیے گئے 24 ہزار ارب روپے کے قرضے کا حساب لیں گے۔ اس مقصد کے لیے وہ تحقیقات کا اعلان کرچکے ہیں ۔پوری قوم وزیراعظم کی جذباتی تقاریر سے ملکی معیشت پر ڈھائے گئے مظالم کے ذمہ داران کا ایک طرح سے تعین بھی کر چکی ہے‘ اب عوام حکومت سے معاشی بحالی و استحکام کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ بد عنوان عناصر کے قبضے سے لوٹی ہوئی دولت کی عملی واپسی کے لیے بے چین ہیں۔ اگر لوٹی ہوئی دولت واپس نہ آئی تو یہی اعلان ناقابل معافی جرم میں تبدیل ہو جائے گا اور تحریک انصاف کا انتخابی حشر پھر لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں دیکھنے والا ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان نے یوٹرن کی جو اختراع وضع کی ہے اس سے قوم مایوس ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے کہ ا چانک یو ٹرن لیتے ہوئے این آر او کا اعلامیہ ہی جاری نہ کر دیں۔
مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے صدر ڈاکٹر رضا باقر کے دعوؤں کا زمینی حقائق سے بہت زیادہ تعلق نہیں کیونکہ اس حقیقت سے سب آشنا ہیں کہ ملک میں اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری میں بالکل اضافہ دیکھنے میں نہیں آ رہا اور معیشت کے اصولوں کے مطابق ان دونوں عوامل (اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری)سے جی ڈی پی ریٹ میں کمی کے باعث معیشت کا عمل رک جاتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ مشیر خزانہ کے دعوے مستقبل میں سچ ثابت ہوجائیں ‘لیکن زمینی حقائق ان دعوؤں کی نفی کرنے کے لیے کافی ہیں اور قوم خوف میں مبتلا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے مظفرآباد کے جلسے میں فنکاروں اور پاپ سنگرز کو بلا کر کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکا گیا۔ یہ سب ہمدردی اوریک جہتی‘ جذبات سے عاری تھی۔سامعین کے چہروں پر غم دکھائی نہیں دیا‘سب کے چہرے شادمانی اور میک اپ سے بھرپور نظر آرہے تھے۔ ایسے موقع پر خواتین کو قیمتی ملبوسات میں آنے کی کیا ضرورت تھی؟ کشمیر کے جلسے میں مزاحمت‘ مذمت اور یکجہتی کا فقدان دیکھنے میں آ رہا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ پچاس سال بعد ان کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ ا جاگر ہوا ہے درست نہیں ہے ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہرسال کشمیر کے بارے میں ہمارے حکمران قوم کو تسلیاں دیتے رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اگر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سنجیدہ ہیں تو انہیں سابق وزیر اعظم ذوالفقار کار علی بھٹو کے نیویارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو کو مدنظر رکھنا ہوگا جس میں انہوں نے بھارتی چہرے کو بے نقاب کر دیا تھا۔
مریم نواز کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بیل آؤٹ کرکے ان کی سیاسی پوزیشن کو بحال کردیا ہے ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے مختصر فیصلے میں واضح کر دیا ہے کہ مریم نواز آئین کے آرٹیکل 63 ون کی زد میں نہیں آتیں۔ اس فیصلے سے بعض نااہل رہنماؤں کے لیے سیاست میں وارد ہونے کے لیے دروازے کھل جائیں گے۔ پاکستان میں سیاسی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ‘وزیراعظم عمران خان کی حکومت گورننس میں مثالی کردار ادا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے‘ ملک کے اہم ادارے بھی پاکستان کو معاشی گرداب سے نکالنے میں ناکام نظر آتے ہیں اور لگتا ہے کہ کشمیر کی صورتحال سے وزیراعظم عمران خان کو صحیح حقائق کا ادراک ہی نہیں ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم نے بھی بین السطور حکومت پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ دوسری جانب حکومتی وزراگاندھی کو قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے مدمقابل لا تے نظر آتے ہیں‘ جس (گاندھی)کی منافقانہ پالیسی کے خلاف قائد اعظم محمد علی جناحؒ 45 سال جنگ لڑتے رہے اور آج بعض وزرا ان کو بین الاقوامی طور پر عظیم رہنما کے طور پر پیش کررہے ہیں اور بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد جموں وکشمیر کے عوام حکومت پاکستان کی اس پالیسی سے مطمئن نظر نہیں آرہے ‘ اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے‘ آتشِ چنار ٹھنڈی پڑ گئی تو دونوں خطوں کے عوام یکجا ہوکر بھارت کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیں گے اور آزاد جموں وکشمیر کے عوام نے خطِ متارکۂ جنگ عبور کرنے کا فیصلہ کرلیا تو حکومت کے لیے ان کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان کو وفاقی وزرا کی زبان و بیان پر گہری توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ کیونکہ وہ ان کو آتش فشاں کے دہانے پر لے جا رہے ہیں ۔وزیر خارجہ کو احساس ہی نہیں ہو رہا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے بھارتی پارلیمنٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دیا ‘ پاکستان کی حکومت کو ادراک نہیں ہو رہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی سے بین السطور میں پاکستان کو فائدہ پہنچ رہا ہے‘ اس سے لائن آف کنٹرول ختم ہوگئی ہے ‘جموں وکشمیر کے عوام اس لائن کو عبور کرتی ہے تو بین الاقوامی طور پر ان کا فیصلہ درست ہوگا۔
جج ویڈیو سکینڈل میں دو برطانوی فرانزک فرمز نے مبینہ طور پر سات ریکارڈنگز کی اصلیت کی تصدیق کردی ہے ۔ ناصر بٹ کی سات ویڈیوز کی توثیق ہوئی ہے‘ عدالت میں صرف ایک پیش کی باقی ویڈیوز کو لندن میں لا کر میں محفوظ کرلیا گیا ہے۔ اب اگر عدالت میں تصدیق شدہ ویڈیو پیش کی جاتی ہے تو نواز شریف کے لیے اپنے خلاف مقدمے میں پیش رفت حاصل ہونے کے امکانات موجود ہیں کیونکہ فرانزک رپورٹس 35 سے 40 صفحات پر مشتمل ہے۔ لندن سے اہم شخصیت‘ جو اِن ویڈیوز کے بارے میں گہرا ادراک رکھتی ہے‘ نے بتایا ہے کہ جس ویڈیو کا کچھ حصہ دکھایا گیا تھا اس کی رپورٹ خواجہ حارث کی لیگل ٹیم کو بھیجی جائے گی۔ فرانزک تجزیہ کرنے والی دونوں فرمز اچھی شہرت کی حامل ہیں‘ جو برطانیہ میں ڈیفنس اور کریمنل پراسیکیوشن کے لیے کام کرتی رہتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں