"KDC" (space) message & send to 7575

اگر الیکشن کمیشن کے اراکین نااہل ہوئے تو…

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو ارکان جسٹس ریٹائرڈ الطاف ابراہیم اور جسٹس ریٹائرڈ مسز ارشاد کے تقرر کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریٹائرڈ جج جسٹس وجیہہ الدین نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کا موقف ہے کہ ان فاضل ارکانِ الیکشن کمیشن کا قواعد و ضوابط اور آئین سے انحراف کرتے ہوئے تقرر کیا گیا تھا اور آئین کے متعلقہ آرٹیکل کے مطابق ان دونوں ارکانِ الیکشن کمیشن کا دو سال تک انتظار کیے بغیر تقرر آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اس مقدمے کا فیصلہ کرنا سپریم کورٹ کی صوابدید ہے‘ اس لیے اس بارے میں کوئی رائے نہیں دی جا سکتی؛ البتہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا حصہ رہنے کی بنا پر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے حوالے سے حاصل معلومات کی بنیاد پر میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کا موقف درست ہے، الیکشن کمیشن کے مذکورہ ارکان کے ساتھ ساتھ سابق رکن الیکشن کمیشن جسٹس ریٹائرڈ شکیل بلوچ بھی اس معیار پر پورا نہیں اترتے تھے۔ اب اگر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ان ارکان کی تقرری کو غیر آئینی قرار دے دیا تو 25 جولائی 2018 کے انتخابات کو غیر قانونی قرار دینے کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک اہم ریفرنس داخل کرا دیے جانے کے اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والا بینچ دو ججوں کی جانب سے سماعت سے معذرت کے بعد تحلیل ہو گیا‘ جس پر نئے بینچ کی تشکیل کے لئے معاملہ چیف جسٹس صاحب کو بھجوا دیا گیا۔ یاد رہے کہ دوران سماعت جسٹس منظور ملک اور جسٹس سردار طارق مسعود نے کیس سننے سے معذرت کر لی تھی‘ جس کے بعد جسٹس مقبول باقر نے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔ الیکشن کمیشن کے مذکورہ ارکان کی تقرری عام لوگ اتحاد جماعت کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کی تھی جبکہ یہ مقدمہ عدالت میں زیر التوا تھا۔ الیکشن کمیشن کے ارکان نے مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ اس سارے معاملے کا پس منظر یوں ہیں کہ الیکشن کمیشن کے چار میں سے دو ارکانِ 26 جنوری 2019 کو اپنی ڈھائی سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ شکیل بلوچ اور بیوروکریٹ عبدالغفار سومرو بھی آئین کے آرٹیکل 207 کی شرائط پر پورا نہیں اترتے تھے۔ ان کی تقرری کے خلاف بھی کیس زیرِ سماعت ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موجودہ معزز ارکان جسٹس ریٹائرڈ ابراہیم الطاف قریشی اور جسٹس ریٹائرڈ ارشاد قیصر کا بھی آئین کے آرٹیکل 207 سے انحراف کرتے ہوئے ارکان الیکشن کمیشن کے طور پر تقرر کیا گیا تھا۔ اب ان حالات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس وقت کی پارلیمانی کمیٹی نے ان ارکان کے تقرر کے وقت آئین کے آرٹیکل 207 کو مد نظر نہیں رکھا تھا۔ میری نظر میں آئین سے روگردانی کرنے کی مجرم اس وقت کی پارلیمانی وزارت کو ٹھہرایا جانا چاہیے‘ جس نے ارکان کا تقرر کرتے ہوئے سیاسی نقطہ نظر سے فیصلہ کیا۔ اب اگر ان ارکان کی تقرری غیر آئینی قرار دے دی جاتی ہے تو 25 جولائی 2018 کے انتخابات‘ سینیٹ الیکشن 2018، ضمنی انتخابات، سابق فاٹا کے اضلاع کے الیکشن متنازعہ تصور کیے جائیں گے۔ انتخابات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے دروازے کھل جائیں۔
دوسری جانب وفاقی کابینہ نے خصوصی میڈیا ٹربیونلز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو شکایات کا 90 روز کے اندر فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ وفاقی کابینہ کے گزشتہ دنوں ہونے والے اجلاس میں بتایا گیا کہ بعض عناصر کی جانب سے آزادیٔ اظہارِ رائے کی آڑ میں اعلیٰ حکومتی شخصیات پر بغیر کسی ثبوت کے الزامات لگانے اور وزیر اعظم سمیت وزرا کی زندگی کو پروپیگنڈا کا نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ حکومتی موقف سے میڈیا اور حکومتی حلقوں میں خلیج پیدا ہونے کے اندیشے پیدا ہوں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صحت مند معاشرے کی تشکیل میں میڈیا کا بنیادی کردار ہے۔ یہ کردار ادارہ جاتی خامیوں‘ کمزوریوں اور سماجی برائیوں کی نشاندہی اور انہیں اجاگر کر کے معاشرے میں لا قانونیت، من مانیوں‘ اختیارات کے نا جائز استعمال اور دوسری سماجی برائیوں کے تدارک میں معاون بننے کا ہے۔ اس حوالے سے ہی میڈیا کا کردار ایک آئینے سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ جس میں سب کو اپنا اصل چہرہ نظر آتا ہے۔ اسی تناظر میں میڈیا کو ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ دیا گیا ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 19 میں آزادیٔ اظہار کے ساتھ ساتھ پریس کی آزادی کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے‘ جس کے تحت میڈیا اور پریس کو مکمل آزادی حاصل ہے‘ ماسوائے اس کے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ، پاکستان کے وقار، سلامتی‘ دفاع‘ دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات کے اس کے معاملات اور اسی طرح شائستگی، اخلاقیات اور توہین عدالت سے متعلق معاملات پر کوئی زد پڑتی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت ملک بھر کے شہریوں کو مفاد عامہ سے متعلق ادارہ جاتی معاملات تک رسائی کا حق دیا گیا ہے‘ جس کے لئے میڈیا ہی معاون بنتا ہے۔
میڈیا کو بلا شبہ اپنی حدود، ذمہ داریوں اور اپنی آزادی کے تقاضوں کا احساس و ادراک ہی نہیں اس کی مکمل پاسداری بھی ہے۔ میڈیا واچ ڈاگ کا کردار ادا کرتا ہے۔ حکومتی کمزوریوں، کرپشن، بے قاعدگیوں‘ وزرا کے من پسند فیصلوں کی نشاندہی کے حوالے سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں اگر کسی کو اپنا چہرہ اچھا نہیں نظر آتا تو اس میں میڈیا کا کوئی قصور نہیں۔ میڈیا ایک ذمہ دار قومی ادارے کے طور پر اپنے فرائض آئین کے آرٹیکل 19 کے تقاضوں کے مطابق سرانجام دیتا ہے۔ میڈیا کے اس کردار کی ادائیگی کے حوالے سے اگر کوئی شخص یا ادارہ جاتی شکایت پیدا ہوتی ہے‘ تو اس کے ازالے کیلئے پریس کونسل اور تعزیرات اور ضابطہ فوجداری کے قوانین موجود ہیں جبکہ پیمرا کے ضوابط میں بھی میڈیا کے خلاف شکایات کے ازالے کی شقیں موجود ہیں۔ وفاقی کابینہ کے فیصلہ کے تحت میڈیا ٹربیونلز کی تشکیل کا عندیہ دیا گیا ہے تو ایسا اقدام سراسر میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے زمرے میں آئے گا‘ جس کی کسی جمہوری معاشرے میں ہرگز گنجائش نہیں۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ تحریک انصاف کی بعض اقتصادی اور مالی پالیسیوں کے نتیجے میں قومی میڈیا پہلے ہی سنگین ترین اقتصادی بحران کی زد میں ہے، اور اس کیلئے اپنے وجود کو قائم رکھنا اور اپنی سرگرمیوں کو بحال رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔ حکومتی میڈیا پالیسی کی وجہ سے پرنٹ میڈیا کے دفاتر بند ہوتے جا رہے ہیں اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں پر بھی گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ اب ان ٹربیونلز کے قیام کے بعد اخبارات فلموں کی کہانیاں اور اشتہارات اور افسانے شائع کرنے تک محدود ہو جائیں گے‘ جس کے نتیجے میں پرنٹ میڈیا زوال پذیر ہوتا جائے گا اور میڈیا ہائوس کی صنعت ختم ہوتی جائے گی کیونکہ اب حکومت کی جانب سے میڈیا پر سنسرشپ جیسی آمرانہ قدغنیں لگانے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے جو فی الواقع میڈیا کی آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت کا ایسا کوئی اقدام میڈیا کو ہرگز قبول نہیں ہو سکتا‘ جس کے ذریعے اس کی آئین کے تحت حاصل آزادی سلب ہوتی ہو اور اس کے لئے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں مشکلات درپیش آتی ہوں۔ میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے سے ملک میں میڈیا کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا‘ اور حکومت کو اپنی پالیسیوں کے تحت یو ٹرن لیتے ہوئے اس طرح کی قانون سازی کا بل واپس لینا پڑے گا۔
خورشید شاہ کی گرفتاری سے پیپلزپارٹی کے ورکروں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ خورشید شاہ نے مبینہ طور پر نواز حکومت میں اپوزیشن لیڈر کے بجائے پلس وزیر اعظم کا کردار ادا کرتے ہوئے پنجاب سے پیپلز پارٹی کا تقریباً صفایا کروا دیا تھا۔ نیب کی دستاویزات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بقیہ عمر سکھر جیل میں ہی گزاریں گے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ خورشید شاہ کی گرفتاری کے بعد اب مراد علی شاہ بھی قومی احتساب بیورو کی گرفت میں آ سکتے ہیں اور پاکستان کی احتسابی تاریخ میں سب سے بڑے وعدہ معاف گواہ بن کر پیپلز پارٹی کی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک سکتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں