"KDC" (space) message & send to 7575

انسانی حقوق کونسل میں ناکامی کا ذمہ دار کون؟

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں کشمیر سے متعلق قرارداد لانے میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے پر پاکستان میں مایوسی پھیل گئی ہے۔ مسئلہ کشمیر انسانی حقوق کونسل ایجنڈے پر ہونے کے باوجود پاکستان قرارداد نہ لا سکا ‘جو سفارتی ناکامی کے زمرے میں آتی ہے ۔ پاکستانی عوام اسے حکومت کی ناکامی قرار دے رہے ہیں تو وہیں مسلمان ممالک کی کشمیر کے معاملے پر خاموشی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔پاکستان کے پاس 19ستمبر تک کی مہلت تھی کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق قرارداد کا ڈرافٹ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں جمع کروا سکتا تھا۔ انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر ترجیحی بنیادوں پر بات چیت کی گئی تھی‘ مگر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی رکن ممالک کی مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل نہ کرسکے اور مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان قرارداد لانے میں ناکام رہا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کونسل اجلاس میں شرکت کے لیے جنیوا جانے سے پہلے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس فورم پر نہ صرف مسئلے کو اٹھائیں گے بلکہ مقبوضہ کشمیر پر قرارداد کو پیش کرکے منظور بھی کروائیں گے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں قرارداد جمع کرانے کے لیے کم سے کم 16 ممالک کی حمایت ضروری ہے‘ لیکن پاکستان اجلاس میں قرارداد جمع کرانے کے لیے کم سے کم ممالک کی حمایت کی شرط بھی پوری نہ کر سکا۔ وزیراعظم عمران خان کو امید تھی کہ اسلامی تعاون تنظیم میں شامل ایک درجن سے زائد ممالک جو انسانی حقوق کونسل کے رکن بھی ہیںپاکستان کی حمایت کریں گے ‘تاہم غلط حکمت عملی اور جنیو ا میں پاکستانی مندوب تہمینہ جنجوعہ‘ جو بیمار اور کینسر کے مرض میں مبتلا رہی ہیں‘ کے اپنی صلاحیتوں کو پورے طور پر بروئے کار نہ لا سکنے کی وجہ سے خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی ۔ پاکستان کشمیر کے معاملے پر انسانی حقوق کونسل کا خصوصی اجلاس بلانے کا بھی خواہش مند تھا تاہم کم سے کم 16 ممالک کے عدم اتفاق کے باعث مطلوبہ حمایت حاصل نہ کر سکنے کے بعداس میں بھی ناکام رہا۔ 
اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے نیویارک پہنچتے ہی ایک نہایت معنی خیز ملاقات کی ہے۔ فاروق کٹھواڑی معروف امریکی تاجر ہی۔ ان کا تعلق سری نگرسے ہے اور وہ کشمیر سٹڈی گروپ نامی ایک تھنک ٹینک کے سربراہ بھی ہیں۔ فاروق کٹھواڑی نے 1990ء میں تقسیمِ کشمیر کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل پیش کیا تھا۔ ان کے تھنک ٹینک کو امریکی حکومت کی فنڈنگ حاصل رہی ہے۔پاکستان اور بھارت کے سفارتی حلقوں میں یقین کیا جاتا ہے کہ کشمیر سٹڈی گروپ کا فارمولا دراصل واشنگٹن کا فارمولا ہے۔ فاروق کٹھواڑی صدر پرویز مشرف کے بھی بہت قریب رہے اور بیک ڈور ڈپلومیسی میں بھی ان کا اہم کردار رہا ۔ شنید ہے کہ ان کے صدر پرویز مشرف کے بااعتماد بیوروکریٹ طارق عزیز سے بھی گہرے تعلقات تھے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے سمیت ‘ تقسیم کشمیر کی بنیاد پر اس مسئلے کے پیش کیے گئے تمام فارمولے دراصل کشمیر سٹڈی گروپ کے بتائے گئے حل کا ہی تسلسل ہیں۔ نواز شریف کے دور حکومت میں1998 ء میں فاروق کٹھواڑی نئی دہلی اور سری نگر گئے‘ جہاں انہوں نے اپنے تھنک ٹینک کی جانب سے تجویز پیش کی تھی کہ تمام تر کشمیر کو ایک عالمی شناخت کے بغیر ایک آزاد ریاستی وحدت کی شکل دے دی جائے۔ اقوام متحدہ اس ریاست کی حفاظت اور مالیاتی وسائل کی فراہمی کی ذمہ دار ہو اور پاکستان اور بھارت سے بھی حصہ وصول کیا جائے۔ ریاست داخلی نظم و نسق‘ امن وامان اور دیگر حکومتی امور خود چلائے۔ فاروق کٹھواڑی سے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کشمیر فاروق عبداللہ نے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں فاروق عبداللہ نے کشمیر کی خود مختاری کا فارمولا پیش کیا۔ فاروق کٹھواڑی کے فارمولے کو ہی لے کر پرویز مشرف آگے بڑھ رہے تھے۔ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی اصولی طور پر اس فارمولا پر غور و فکر کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اب وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کرکے فاروق کٹھواڑی ایک بار پھر منظر عام پرآ گئے ہیں۔ ملاقات کا وقت بہت اہمیت رکھتا ہے اور اسی وقت ملاقات ہوئی جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین کے اندر ضم کر لیاہے۔ وزیراعظم عمران خان کی فاروق کٹھواڑی سے ملاقات کی وزیراعظم کے ترجمانوں کو تشریح کرنا چاہیے۔یاد رہے فاروق کٹھواڑی صدر پرویز مشرف کے دور کے اہم سفارتی اہل کار نیاز اے نائیک کے ساتھ مل کر چناب فارمولا پر بھی کام کر رہے تھے ۔
کشمیر کے بارے میں حکومتِ پاکستان مرکزی نقطہ نظر پر کھڑی ہوئی نظر نہیں آرہی۔قوم حیران ہے کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے 47 ارکان میں چین‘ سعودی عرب‘ قطر‘ بحرین ‘عراق‘ نائیجیریا‘ تیونس اور صومالیہ شامل ہیں۔ ان ممالک کے علاوہ اس کونسل میں ٹوگو‘ برکینا فاسو ‘سینیگال اور کیمرون بھی شامل ہیں۔ پاکستان ان دوست اور مسلم ممالک کی حمایت کیوں حاصل نہیں کر سکا؟ نیز کیا پاکستان نے ڈنمارک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر تجارتی پابندیاں عائد کرنے کا حامی ہے ؟ اگر 16 ممالک کی حمایت نہیں مل سکی تو یہ اس لیے ایک بڑی ناکامی ہے کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل مقبوضہ جموںو کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر چکی ہے‘ لہٰذا اس معاملے کو خصوصی اجلاس میں زیر بحث لانے کے لئے 47 میں سے صرف 16 ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں مشکل نہیں ہونی چاہیے تھی۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے ترجمان یہ نہیں بتا رہے کہ 19 ستمبر کو پاکستان نے جنیوا میں قرارداد کیوں پیش نہیں کی؟
عمران خان نے امریکی دورے میں مشہور ارب پتی George Soros سے بھی ملاقات کی ہے۔اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اس ملاقات کے بارے میں ایک ٹویٹ کے ذریعے آگاہ کیا تھا۔ جارج سوروزکو بین الاقوامی سازش کار روتھس شیلڈ (Rothschild) کا خاص کارندہ یا ایجنٹ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جنگی قیدی تھا۔ قید سے فرار ہوکر روس سے ہوتا ہواہنگری اور پھر برطانیہ منتقل ہوا اور بطور ریلوے قلی اپنے کیریئر کاآغاز کیا۔ 1952ء میں لندن سکول آف اکنامکس سے گریجوایشن کے بعد اس نے ایک انویسٹمنٹ بینک میں نوکری شروع کی۔ 1956 ء میں وہ امریکہ چلا گیا اور 1963ء میں بطور سٹاک ٹریڈر اور تجزیہ کار کے کام شروع کیا۔ جارج سوروز کے پاس امریکہ اور ہنگری کی شہریت ہے اور اس کا شمار دنیا کی 30 امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ سوروز ڈیمو کریٹک پارٹی کی جانب سے امریکہ کی صدر بننے کی خواہشمند ہیلری کلنٹن کے سرپرست بھی ہیں۔ یاد رہے کہ جارج سو روز کی فاؤنڈیشن کا خاص دائرہ کا راسرائیل کے خلاف کام کرنے والی فلسطین کے حقوق کے نام پر قائم این جی اوز ہیں۔ جارج سوروز کی یہی فائونڈیشن ''وال سٹریٹ قبضہ کرو‘‘ تحریک کی بھی مالی معاون ہے ۔ ملیحہ لودھی نے پرو فلسطین شخصیت سے عمران خان کی ملاقات کروا کے کشمیریوں کی تحریک میں اس سے معاونت حاصل کرنے کی کوشش کی‘ جو تحریک کیلئے سود مند ثابت ہو گی۔
وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیاں اپناتے ہوئے قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے نیویارک میں کہا کہ پاکستان نے جتنا کرنا تھا کرلیا‘ دنیا نے کشمیر کے معاملے پر پاکستانیوں کو مایوس کیا ‘دنیا کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے معاملے میں خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے‘ اب یہ مسئلہ کسی اور طرف جائے گا‘ اب پاکستان دنیا کی مدد کا انتظار نہیں کرے گا۔ اب دنیا دیکھے گی کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے کو کیسے حل کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا یہ نہ سمجھے کہ انڈیا سو ارب لوگوں کی مارکیٹ ہے‘ دنیا کو دیکھنا چاہئے کہ اس کا ایک ایٹمی قوت کے ساتھ تنازع چل رہا ہے اور اگر مسئلہ کشمیرحل نہ ہوا تو اس کے نتائج کیا ہوں گے اور دنیا کی بھارت میں کی گئی انویسٹمنٹ کا کیا بنے گا ؟ صدر ٹرمپ نے بھی بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور بھارت کو ایٹمی قوت کے حامل پاکستان سے کشمیر کے موضوع پر مذاکرات کرنا ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں