"KDC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کا شاندار خطاب ‘مگر چیلنجز باقی ہیں

دنیا کے سب سے بڑے فورم پر کشمیر کا مقدمہ جس طرح مدلل اور متاثر کن طور پر پیش کیا گیا اور خود جنرل اسمبلی میں وزیراعظم کے خطاب کی جو پرُجوش پذیرائی ہوئی ‘اس کے بعد اب عالمی ضمیر اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت تمام بڑی طاقتوں کا امتحان ہے کہ وہ کشمیریوں سے کیے گئے وعدے پورے کر کے اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں یا بھارت کے سراسر ناجائز موقف کے لیے دنیا کے امن کے لیے خطرہ مول لیتے ہیں۔ جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم کی تقریر سننے کے لیے دنیا بے تاب رہی‘ ان کے ٹیلی ویژن انٹرویوز کو بھی سب سے زیادہ دیکھا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس دورے کے دوران ان تھک لیڈر کی طرح کام کیا‘ انہوں نے 70 سے زائد عالمی رہنماؤں ‘ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے وفود اور دیگر شعبوں کی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھرپور انداز میں مظلوم کشمیریوں کی وکالت کی اور ان کے لیے عالمی حمایت حاصل کی۔ امریکہ اور بھارت جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ چین کے خلاف مضبوط اتحادی ہیں‘ لیکن وزیراعظم عمران خان کی شخصیت اور عالمی مقبولیت نے دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کی طرف موڑ دی‘ یہاں تک کہ صدر ٹرمپ کویہ بیان جاری کرنا پڑا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم کرے۔ امریکی صدر مسئلہ کشمیر پر اپنی ثالثی کے لیے بھارت کو راضی نہ کر سکے؛ البتہ عمران خان نے امریکہ اور ایران کے مابین ثالثی کرانے کی ٹھوس پیشکش کردی ۔ عمران خان‘ ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی کم کرانے کے لیے بھی کردار ادا کرنے کا عندیہ دے چکے ‘ اس طرح انہوں نے ایک عالمی لیڈر کے طور پر خود کو منوا لیا ہے۔ ان کی گفتگو ایک عالمی لیڈر کے پائے کی گفتگو تھی‘ اس تناظر میں دیکھا جائے تو '' مشن کشمیر‘‘ کامیاب رہا۔ امریکہ اور بھارت کی منافقانہ پا لیسی کے باوجود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی دنیا کو اپنے قد سے چھوٹے نظر آئے۔ وزیراعظم عمران خان نے اعلانیہ اپنا موقف پیش کیا کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان روایتی جنگ شروع ہوئی تو سوچئے کہ ایک ملک جو بھارت سے سات گنا چھوٹا ہے‘ اس کے پاس کیا موقع ہے؟ یا تو آپ ہتھیار ڈال دیں یا آخری سانس تک اپنی آزادی کے لیے لڑتے رہیں‘ اور جب جوہری ہتھیاروں کا حامل ملک آخر تک لڑتا ہے تو اس کے تباہ کن نتائج پوری دنیا تک پھیل سکتے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ دھمکی نہیں‘ یہ خوف اور پریشانی ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ یہی بتانے میں یہاں آیا ہوں کہ صرف اقوام متحدہ ہی ہے‘ جو کشمیر کے عوام کو ان کا حق دلاسکتی ہے۔
تاہم وزیراعظم کے طیارے میں اچانک فنی خرابی پر وزیراعظم کی نیویارک واپسی پریشان کن معما ہے۔ وزیراعظم اپنے وفد کے 13 ارکان کے ساتھ اتوار کو سعودی ائیر لائن کی کمرشل پرواز سے براستہ جدہ وطن واپس پہنچے‘ تاہم پاکستان کے حلقوں میں سعودی حکومت کے دیئے گئے خصوصی طیارے میں پانچ گھنٹے کی پرواز کے بعد اچانک فنی خرابی اور طیارے کی نیویارک واپسی ایک پریشان کن معما بن گئی ۔ اس بارے فضائی‘ جغرافیائی اور سیاسی تناظر میں مختلف سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی نیویارک آمد کے بعد سات روز تک سعودی حکومت کا یہ طیارہ نیویارک ائیر پورٹ پر موجود رہا‘ اس دوران اس کی سکیورٹی اور جانچ پڑتال ہونی چاہیے تھی۔ یہ سوال بھی موجودہے کہ اس وی آئی پی پرواز سے قبل طیارے کی پرواز کے قابل ہونے کی تصدیق کس نے کی اور کب کی؟ پاکستان کے سفارتخانے کی سکیورٹی کی بھی یہ ذمہ داری تھی کہ وزیراعظم کے خصوصی طیارے کی نگرانی کی جاتی اور حساس ادارے کی نگاہ بھی اس پر ہونی چاہیے تھی ۔پاکستان کے حساس ادارے یقینا اپنے طور پر انکوائری کر رہے ہوں گے کہ فنی وجوہات کیا تھیں‘ جس کی بنیاد پر سفر آگے جاری رکھنے کی بجائے نیویارک واپسی کا سفر اختیار کیا گیا‘ اگر کوئی فنی خرابی تھی تو کینیڈا میں کسی قریبی ائیرپورٹ پر لینڈنگ کیوں نہیں کی گئی ؟ بہرکیف نیویارک واپس جانے کے باوجودسعودی عرب کے شاہی طیارے کی فنی خرابی کا ازالہ نہ ہوسکا اور وزیراعظم کو سعودی عرب کی کمرشل پرواز سے واپسی آنا پڑا۔وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ‘ایشیا سوسائٹی اور دیگر عالمی فورم پر ایران امریکہ مصالحت ‘افغان الیکشن‘ طالبان امریکہ مفاہمت اورایران وسعودی عرب کے مابین مفاہمت نیز تنازعہ کشمیر پر مثالی اورجراتمندانہ موقف مدلل اور مستند انداز میں پیش کیا۔بعض ممالک وزیر اعظم کے تاریخی خطاب پر ناراض ہیں اور یاد رہے کہ اسی طرح کا فنی مسئلہ جنرل پرویز مشرف کے طیارے کو 2006 میں اقوام متحدہ کے خطاب سے واپسی پر پیش آیا تھا ‘جب ان کے طیارے میں اچانک آگ لگ گئی تھی اور ہنگامی بنیادوں پر واپس نیویارک ائیر پورٹ پر لینڈنگ کرنا پڑی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے قیام کے دوران امریکہ کے بعض ناراض ممالک کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی۔
وطن پہنچنے کے فوراً بعد وزیراعظم عمران خان کو چند بڑے اور اہم چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیراعظم کے دستِ راست اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رکنیت کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کے حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکا ہے۔ بلوچستان الیکشن ٹربیونل نے حلقہ این اے 265 کی انتخابی عذرداری پر فیصلہ سناتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی کامیابی کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما لشکری رئیسانی نے قاسم سوری کی بطور ممبر قومی اسمبلی کامیابی کو چیلنج کیا تھا۔لشکری ریئسانی نے موقف اختیار کیا کہ ایک لاکھ 14 ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے جن میں سے صرف 50 ہزار ووٹ درست قرار دیے گئے جبکہ64 ہزار جعلی ووٹ ڈالے گئے ۔ نادرا کی بائیومیٹر ک رپورٹ کی روشنی میں الیکشن ٹربیونل نے الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا۔قاسم سوری ڈپٹی سپیکر شپ سے محروم ہو گئے ہیں اور اب ان کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے حکم امتناعی مل بھی جاتا ہے تو بطور ڈپٹی سپیکر اپنے عہدے پر رہنا ان کے لئے مشکل ترین ہوگا اور وزیراعظم عمران خان چونکہ سرداراخترمینگل کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور سردار لشکری رئیسانی کا تعلق ان کی ہی جماعت سے ہے۔ اب اگر سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو سرداراخترمینگل اور تحریک انصاف کے مابین اتحادی معاہدہ خطرے میں پڑ جائے گا اور ڈپٹی سپیکر شپ کے لیے دوبارہ انتخابات میں تحریک انصاف کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وزیراعظم عمران خان کو ان وزرانے بھی یر غمال بنایا ہوا ہے جو اپنے دائرہ کار سے باہر نوبال کرا رہے ہیں ۔ حکومت کے بعض اندرونی حلقے کسی اور سیاسی جماعت کے سربراہ سے رابطے میں ہیں اور راز داری کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر حکومتی حلقوں کی حکمت عملی کو ناکام بنانے پر لگے ہوئے ہیں‘ اور جن سے مذاکرات کا سلسلہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت چل رہا ہے وہ بھی وزراکی تضحیک آمیز گفتگو سننے کے بعد حکومت سے مذاکرات کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو ادراک ہونا چاہئے کہ سیاسی جماعتوں سے مصالحت کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے بعض وزراہی ہیں۔
ایک اور قابل ذکر معاملہ یہ کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان تحریک انصاف کا پارٹی فنڈنگ کیس کی سماعت یکم اکتوبر سے کر رہا ہے۔ یہ کیس اکبر ایس بابر نے نومبر 2014ء میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے روبرو فائل کیا تھا اور تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا ہوا تھا‘ جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے مسترد کرتے ہوئے فارن فنڈنگ کیس کے بارے میں اختیارات تفویض کر دیے تھے۔اب اگر اس کیس کو الیکشن ایکٹ 2017ء اور آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت میرٹ پر فیصلہ کیا گیا تو تحریک انصاف کو ناقابل ِتلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے مشیر اِن کو اس اہم معاملے پر اندھیرے میں رکھتے ہوئے ہیں غلط سمت کی طرف پہنچا رہے ہیں اور چیف الیکشن کمشنر کو اس طویل ترین مقدمے کا فیصلہ چند ہفتوں میں کرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں