"KDC" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف اور فارن فنڈنگ کیس

کشمیر کے مقدمے کو عالمی برادری کے سامنے شاندار انداز میں پیش کرنا پاکستان کے عوام کے لیے باعثِ طمانیت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی اس کارکردگی کی بنیاد پر کشمیری عوام کے جذبے بھی جوان ہو گئے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر یقینا بھارت کے لیے ویتنام بنے گا اور بھارتی سرمایہ کاروں کو نریندرمودی کو مجبور کرنا پڑے گا کہ مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی خواہش کے مطابق ہی حل کر دیا جائے ‘ کیونکہ بھارت ویتنام جیسی گوریلاجنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔کشمیر کے تناظر میں عوام کے حوصلے مضبوط ہیں۔ اب وزیراعظم عمران خان کا فرض ہے کہ وہ پاکستان کو درپیش دیگر داخلی ‘ علا قائی اور عالمی امور پر توجہ مرکوز کریں۔ ملک کے داخلی حالات ہی کو دیکھا جائے تو سیاسی‘ معاشی اور عوامی حوالے سے مسائل نے پریشان کن صورتحال پیدا کر رکھی ہے ۔ معاشی استحکام کے لیے جاری کوششیں اپنی جگہ درست ہوسکتی ہیں‘ تاہم ان کے مجموعی نتائج کو کسی صورت تسلی بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ زرمبادلہ کے ذخائر‘ ڈالر کی شرح‘ سٹاک ایکسچینج‘تجارتی خسارہ‘ شرح سود‘ ملکی پیداوار‘ زراعت‘تجارت اورکاروبار کے حالات کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔لامحالہ یہ صورتحال قومی معیشت کے ساتھ عوامی مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔عام آدمی غربت‘ بیروزگاری مہنگائی‘ پسماندگی‘ علاج معالجے کی محرومی‘ نا انصافی اور لاقانونیت کے مسائل میں گھرا ہوا ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ معاشی اور سماجی مسائل کے باعث پاکستانیوں کی بڑی تعداد مایوسی کا شکار ہے ۔ تحریک انصاف کے ارکانِ قومی اسمبلی بھی سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔ تحریک انصاف کے لیے سیاسی جدوجہد کرنے والے کارکن اور دانشور وزیراعظم کے مشیروں ‘ وزرا اور غیر حلف یافتہ ترجمانوں سے نالاں ہیں۔ گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے پارلیمانی اجلاس میں ارکان پارلیمان نے سماجی سطح پر پائے جانے والے مسائل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ۔ صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے نورعالم خان نے جن جن خطرات کی نشاندہی کی اور حکومتی پارٹی کے ایک اور رکن نے وزرا کے بارے میں جن تحفظات کا اظہار کیا وہ اپنی جگہ درست ہے۔ نچلی سطح پر جو کرپشن کا بازار گرم ہے‘ اس کی مثال گزشتہ دس برسوں میں دیکھنے میں نہیں آئی۔حکومت کے پسندیدہ صحافیوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور وزیراعظم عمران خان کے مشیروں کے بارے میں درست نشاندہی کی ہے کہ غیر حلف یافتہ مشیرکابینہ اور پارلیمنٹ کے اجلاس میں بیٹھنے کے آئینی طور پر روادار نہیں ہیں ۔ وزیراعظم کا نقطہ نظر اپنی جگہ درست ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی اخلاقی ساکھ اس قابل نہیں کہ عوام ان کے احتجاجی جلسوں میں سڑکوں پر آئیں‘ لیکن یہ عمل بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ آہستہ آہستہ عوامی حلقوں نے اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج پر غور شروع کردیا ہے ‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ۔ وزیراعظم عمران خان کی توجہ کے لئے ضروری ہے کہ داخلی مسائل کے بہتر حل تک پاکستان کی علاقائی اور عالمی ترجیحات پر عمل درآمد بھی نامکمل رہے گا۔عام آدمی معاشی پریشانیوں سے نکل کر خوشحالی کے دائرے میں داخل ہوگا تو اس کی بھرپور حمایت سے سیاسی حکومت اپنے ایجنڈے کی کامیابی سے آگے بڑھ پائے گی۔اسی طرح امن و امان کی صورتحال میں بہتری سے سرمایہ کاری‘ تجارت‘کاروبار‘ صحت‘ کھیل وغیرہ میں ترقی کے امکانات کو عملی شکل دی جاسکتی ہے ۔ بدعنوانی‘ نااہلی‘ چور بازاری کے خاتمے سے قومی معیشت بلکہ قوم کے حالات سدھارنے میں بھی مدد ملے گی۔حکومت کو مملکت پاکستان کو صحیح معنوں میں فلاحی ریاست بنانا ہو گا۔
وزیراعظم عمران خان نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ناقص کارکردگی پر وفاقی وزرا اور بعض مشیروںکو فارغ کرنے کا اشارہ دیا ہے ‘ جبکہ حکومت نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو ان کے منصب سے سبکدوش کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا ہے نیز اس منصب کے لیے پاکستان کے سابق سفیر منیر اکرم کو منتخب کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کو مدنظر نہیں رکھا گیا‘ جس کے تحت عمر کی حد متعین ہوتی ہے ۔74برس کے شخص کو اقوام متحدہ میں اہم منصب پر فائز کرنے میں دانش کا فقدان ہی نظر آرہا ہے ۔ان کی تقرری کے سپریم کورٹ میں چیلنج ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ منیر اکرم کو اقوام متحدہ میں پاکستان کی ترجمانی کرنے میں اس لئے بھی پریشانی لاحق ہوگی کہ امریکی میڈیا ان کی تضحیک کرتا رہا ہے اور اب ان کی کردار کشی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ پیرانہ سالی کے باوجود انہیں پاکستان کا مستقل مندوب بنانا حکومتی ترجیحات پر کئی سوالات کو جنم دے سکتا ہے ۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو فارغ کرنے میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے اجلاس میں کشمیر تنازعہ پر قرارداد لانے کے لیے کونسل کے 16ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے ۔البتہ ملیحہ لودھی کا ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں گہرا اثر پایا جاتا ہے ؛چنانچہ میڈیا ان کے لئے لابنگ کرتا رہے گا۔ ان کو منصب سے فارغ کرنے کے پس منظر سے قوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے ۔
اس وقت ملکی معیشت خطرناک حد تک بے یقینی کا شکار ہے۔ وزیر اعظم کے اردگرد موجود معاونین ان کو بند گلی میں کھڑا کر چکے ہیں۔ ان کو ادراک ہونا چاہئے کہ پاکستان کے چیدہ چیدہ بزنس ٹائیکونز میں بہت پریشانی ہے۔ بے یقینی اور بے اطمینانی کی فضا ہے اور ان حالات میں پاکستان کے ممتاز بزنس مینوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ہے اوران کا کہنا ہے کہ حکومتی مشیر وںمیں اہلیت نظر نہیں آتی‘ وزیراعظم کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا‘کاروباری مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ طویل اجلاس کا نتیجہ سامنے نہیں آرہااور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سے بھی بزنس کمیونٹی کو شکایات ہیں۔پاکستان کی انتظامی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وزیراعظم کے سیکرٹری محمد اعظم خان کی شکایات آرمی چیف کو کی جا رہی ہیں۔ اس سے پیشتر گزشتہ برس جب حکومت کے سو دن پورے ہورہے تھے تو وزیراعظم نے اپنی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے صحافیوں کو مدعو کیا تھا جبکہ مجھے سابق بیوروکریٹ اور لوکل گورنمنٹ سسٹم کے حوالے سے مدعو کیا گیا تھا۔ میری موجودگی میں چند صحافیوں نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے خلاف یہی رائے دی تھی کہ موصوف برہمن بنے ہوئے ہیں اور ان سب کو شودر سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم نے ان صحافیوں کی شکایات پر دھیان نہیں دیا اور آج یہی کیفیت دیکھنے میں آرہی ہے کہ آرمی چیف سے بھی بزنس کمیونٹی باقاعدہ گلے شکوے کر رہی ہے ۔اعدادوشمار کے سرکاری تناظر میں ارباب اختیار کو معاشی غور اور ترقی و خوشحالی کے دعووں کو زمینی حقائق سے جانچنا ہوگا۔ بزنس کمیونٹی کا آرمی چیف سے عشائیے پر ملاقات کرنا بھی ایک طرح سے حکومتی پالیسیوں پر عدم اعتماد کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ بزنس کمیونٹی حکمران جماعت کے دعووں پر یقین نہیں کر رہی ہے۔
تحریک انصا ف حکومت کے لیے غیر ملکی فنڈنگ کا کیس بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مقررکردہ سکروٹنی کمیٹی کو مبینہ طور پرتحریک انصاف کے 23اکاؤنٹس کی تفصیل مل گئی ہے ۔ الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ کے متعلق کیس کی سماعت کے دوران بتایا گیا ہے کہ سٹیٹ بینک نے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کی تفصیل کے بارے میں رپورٹ پیش کر دی ہے اور مزید سماعت 10اکتوبر تک ملتوی کردی ہے‘ جبکہ درخواست گزار کا موقف ہے کہ تحریک انصاف نے امریکہ‘ڈنمارک‘ آسٹریلیا اور مشرق وسطیٰ سے فنڈز حاصل کئے‘ جو کہ غیر قانونی ہے ۔ بادی النظر میں تحریک انصاف نے فارن فنڈنگ کیس کو پُر اسرار بنا دیا ہے ۔ عدالت سے حکم امتناعی کا سلسلہ چار سال تک جاری رکھا اور بقول آصف علی زرداری عارف نقوی سے بھی فارن فنڈنگ حاصل کی گئی‘ جو ان دنوں منی لانڈرنگ کیس میں برطانیہ کی جیل میں ہیں۔ اب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دس اکتوبر کے بعد روزانہ سماعت کر کے اس اہم معاملے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے ۔یقینا فیصلہ میرٹ پر ہی آئے گا۔ اگر تحریک انصاف کی توقع کے بر عکس فیصلہ آیا توقیادت کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہوگا اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی بھی ہوسکتی ہے اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 212کے تحت پارٹی کو کالعدم قرار دینے کی شق موجود ہے۔ تحریک انصاف کو اس کیس کے بارے میں سنجیدگی سے اپنے دلائل دینے ہوں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں