"KDC" (space) message & send to 7575

لانگ مارچ بڑے مذاکرات کا پیش خیمہ

مولانا فضل الرحمن کے سیاسی احتجاجی لانگ مارچ کا سیاسی منشور کیا ہے ؟ پہلی بات یہ کہی جا رہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے کشمیر کے تنازع میں پاکستان کے حقوق کا بھر پور طریقے سے دفاع نہیںکیا‘ مگر مولانا فضل الرحمن کشمیر کے بارے میں کیا حکمت عملی اختیار کریں گے؟ اس بارے وہ ابھی تک مکمل طور پر خاموش ہیں۔ یہی نہیں ‘بلکہ وہ طویل عرصہ تک کشمیر کی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں‘ مگر ا س وقت بھی کشمیر ان کی نظروں سے اوجھل رہا۔ دوسری بات یہ کہتے ہیں کہ غریب عوام کی زندگی افراطِ زر اور اقتصادی بدحالی نے اجیرن کردی ہے‘ یہ بات درست ہے‘ مگر اس مسئلے کا حل کیا ہے اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے اتحادیوں کے پاس غربت مٹانے کے لیے کیا پلان ہے؟ اس پر بھی وہ فی الحال خاموش ہیں۔ اس بات پر کوئی زیادہ حیرت نہیں ہوئی کہ میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی حمایت کی ہے‘ میاں نواز شریف کو اپنی اشرافیہ کی پارٹی کی کمزوریوں کا بخوبی علم ہے کہ وہ احتجاج کی سیاست کرنے کی اہل نہیں ہے۔ انہوں نے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے خلاف بھی تحریک نجات شروع کی تھی‘ جو چند دنوں ہی میں فلاپ ہوگئی تھی۔ نواز شریف کو اس کا بھی بخوبی علم ہے کہ پنجاب کے عوام بالخصوص ان کی پارٹی کے ارکان نہ تو انقلابی ہیں اور نہ ہی احتجاج کی سیاست کو پسند کرتے ہیں۔ نوازشریف کو اس کا بھی بخوبی ادراک ہے کہ ان کی پارٹی کے پارلیمانی ارکان سخت موقع پرست واقع ہوئے ہیں اوران میں صلاحیت ہی نہیں کہ ایک مضبوط اور فعال حزب اختلاف بن سکیں۔ ایسی صورت میں اگر حکومت پر دباؤ ڈالنا ہو تو ان کے پاس صرف یہی آپشن رہ جاتا ہے کہ وہ اپنے مفاد میں مولانا فضل الرحمن کی چھتری کے نیچے آجائیں ۔اس میں شک نہیں کہ نوازشریف زیرک سیاستدان ہیں ‘جو سیاست کے رموز کو عمران خان سے زیادہ سمجھتے ہیں‘ اس لیے بظاہر امکان یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی احتجاجی تحریک ایک معاہدے کے تحت اختتام پذیر ہوگی‘ مگر اس کا بھی قوی امکان ہے کہ اس معاہدے میں نوازشریف کھڑے نظر نہیں آرہے ہوں گے۔
میڈیا فی الحال اعتماد کی فضا پیدا کرنے میں ناکام نظر آ رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ میڈیا 2012ء سے احتجاجی تحریکوں کو ہوا دیتا رہا ہے‘ مگر عمران خان نے ان کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ اب شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہو کہ عوام کی اکثریت کی حالات حاضرہ کے تجزیاتی پروگراموں میں بھی دلچسپی کم ہو گئی ہے‘ کیونکہ ان احتجاجی تحریکوں نے1968ء سے اب تک عوام کو دکھوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ صدر ایوب خان کے دورِ حکومت کو اگر تسلسل دیا جاتا تو آج ملک صنعتی ترقی میں جاپان سے آگے نکل جاتا‘مگر نام نہاد جمہوریت کے لالی پاپ دے کر ملک کے غریب عوام کو غربت کی لکیر سے نیچے پھینک دیا گیا ہے۔ وہ سیاسی پارٹیاں جو پارلیمان میں براجمان ہیں ‘وہ سڑکوں پر سیاست نہیں کرتیں‘ جبکہ ہمارے آرام طلب سیاستدان زیادہ وقت لندن میں گزارتے ہیں اور اپنا علاج بھی لندن‘ فرانس‘ امریکہ اور جرمنی سے ہی کر اتے ہیں؛ البتہ ان سے پارلیمانی روایات سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔قابل ِغور ہے کہ بریگزٹ کے معاملے پر برطانیہ کی دونوں بڑی پارٹیوں میں شدید کشمکش ہے‘ مگر کسی نے احتجاجی تحریک کی دھمکی نہیں دی۔
مولانا فضل الرحمن کی اگر لانگ مارچ تحریک کامیاب ہوئی‘ تو intra-institutional مذاکرات‘ جس کی طرف پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اشارہ کیا تھا‘ ان کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے ملک کی بہتری کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کے مابین مذاکرات پر زور دیا تھا‘ جس میں عدلیہ‘ افواجِ پاکستان‘ پارلیمنٹ اور قومی ادارے شامل ہوں‘ جو ملک کے موجودہ تناظر میں ترامیم کریں اور ان کو سسٹم کا حصہ بنایا جائے‘اسی طرز پر جو صدرایوب خان نے مارچ 1969ء اور وزیر اعظم بھٹو نے مئی 1977ء میں شروع کرائی تھی؛ اگرچہ اسی کے نتیجے میں دونوں کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور ملک سیاستدانوں کی ہوس پرستی کے بلیک ہول سے آج تک باہر نہ نکل سکا۔
وزیر اعظم عمران خان نے سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے لنگر خانہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران عوام کو بے صبر قراردیا تھا‘ مگر حقیقت جو مان لینی چاہیے یہ ہے کہ بے صبر عوام نہیں ہیں‘ بے صبر سیاستدان ہیں جو اپنی بے صبری سے ملک کو دولخت کرانے میں شریک تھے۔ اب اگر مولانا فضل الرحمن کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار کے مستقبل کا روڈ میپ بنانے کی تجویز سامنے آتی ہے تو اس معاہدے میں عمران خان‘ مولانا فضل الرحمن‘ شہباز شریف ‘بلاول بھٹو زرداری اور اسفندیارولی خان شامل ہوں گے اور اس کی گارنٹی ریاست کے طاقتور ادارے دیں گے یا ممکن ہے‘ چیف جسٹس آف پاکستان کی نگرانی میں نگران سیٹ اپ تشکیل دے دیا جائے‘ جس طرح 2006 ء میں بنگلہ دیش میں چیف جسٹس بنگلہ دیش کو عبوری صدر بنا کر ملک میں فوج کی نگرانی میں انتخابات کروائے گئے تھے ‘جو بین الاقوامی سطح پر صاف شفاف اور غیر جانبدار انتخابات قرار دیے گئے تھے۔ راقم الحروف نے اقوام متحدہ کی دعوت پر اُن انتخابات کا جائزہ لیا تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں 1968ء سے ہی یہی کچھ ہو رہا ہے‘ جنرل یحییٰ خان کی سازش اور ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کی اقتدار کی ہوس نے ملک کو آگے بڑھنے سے روکے رکھا ۔اب بھی موجودہ جمہوریت ہوس پرست سیاستدانوں کے قبضے میں ہے اور اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ اب تیسری قوت‘ یعنی ایک نئی جمہوریہ آگے لائی جائے گی اور اس کے لیے لندن میں بعض سیاسی شخصیات سے رابطے قائم کیے جارہے ہیں ‘جو سندھ کارڈ کے لیے موزوں ترین شخصیات ہوگی۔بہرکیف مولانا فضل الرحمن کو پختہ یقین ہے کہ ان کا لانگ مارچ روات تک پہنچنے سے پہلے ہی ایک ٹیلی فون کال آنے کے بعد تکمیل کو پہنچ جائے گا اور دسمبر سے پہلے تبدیلی کا بگل بج جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن کے قریبی ساتھیوں کو حیرانی ہے کہ مولانا کی خود اعتمادی کی ایک اور وجہ بھی ہے کہ صوبائی حکومتوں کی نااہلی کی بدولت ان کا کام مشکل ہونے کے بجائے آسان ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
نواز شریف نے چالیس سال بعد شہباز شریف کی حکمت عملی کو نظر انداز کرکے شہباز شریف پر عدم اعتماد کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ کے لئے مولانا فضل الرحمن سے رابطے کی ذمہ داری حسین نواز کو سونپ دی ہے۔ شہبازشریف چاپلوسی‘ مکاری‘ عیاری اور فریب دینے کے ماہر ہیں‘ انہوں نے صدر پرویز مشرف کے ساتھی بریگیڈیئر نیاز احمد کا اثرورسوخ استعمال کیا اور بریگیڈیئرنیاز احمد کی وساطت سے شریف خاندان جدہ سے لندن شفٹ ہوگیا۔ بعدازاں شہباز شریف نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سادگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 2013ء کے انتخابات میں نقب زنی کرائی اور کسی حد تک 2018ء کے انتخابات میں بھی۔ پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کی پشت پر کوئی مخصوص حکمت عملی ہی تھی‘ جو بظاہر نظر تو آ رہی ہے ‘ اس کی پشت پر نااہل نگران حکومت بھی تھی۔ میری رائے کے مطابق ‘مولانا فضل الرحمن کا لانگ مارچ بڑے مذاکرات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں