"KDC" (space) message & send to 7575

برادر ممالک میں مصالحت کی کوشش اورداخلی سیاسی صورتحال

سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشمکش کا خاتمہ دراصل اُمتِ مسلمہ کا ایک دیرینہ خواب ہے‘ جو عالمی قوتوں کے مخصوص عزائم کے باعث شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پا رہا۔ پاکستان کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ اسلامی دنیا کے تمام ممالک باہمی اتفاق و اتحاد کی بنیاد پر ایسے پلیٹ فارم کی تشکیل کریں ‘جو مسلم اُمہ اور عالمی برادری کی ترقی و خوشحالی کا باعث ہو۔ اس مقصد کے لئے اسلامی ملکوں کے درمیان ہم آہنگی کی ہر کوشش میں پاکستان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ایران اور سعودی عرب کے بارے میں وزیراعظم عمران خان نے بالکل درست کہا ہے کہ ایک ہمارا ہمسایہ اور دوسرا مشکل کی گھڑی میں ساتھ دینے والا بھائی ہے‘ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات روزِ اول سے نہایت مستحکم بنیادوں پر استوار ہیں ۔ 1964ء میں صدر ایوب خان نے سرحدی جغرافیائی حدود کو ازسرنو منظم کرتے ہوئے اور ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بلوچستان کے سرحدی علاقے تفتان کے سینکڑوں گاؤں ایران کے حوالے کردیے تھے ۔ جہاں تک سعودی عرب کا معاملہ ہے تو حجاز مقدس کی وجہ سے یہ سرزمین ہر مسلمان کی عقیدت کا مرکز ہے‘ یہی وہ حقائق ہیں ‘جن کے باعث ریاض اور تہران میں چپقلش اسلام آباد کے لیے سخت تکلیف و تشویش کا باعث ہے۔ پھر ایسے حالات میں ‘ جب یہ دونوں برادر ممالک پاکستان کے ساتھ اپنی اپنی سطح پر مثالی تعلقات میں بندھے ہوئے ہیں‘پاکستان کی خواہش ہے کہ دونوں میں موجود غلط فہمیوں کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
وزیراعظم عمران خان سعودی عرب اور ایران کے درمیان سہولت کاری کی سفارت کاری کر رہے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے ایران اور سعودی عرب کا دورہ بھی کیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے ہزاروں فوجی اور جدید ہتھیار سعودی عرب بھیجنے کا اعلان کردیا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگان) کے مطابق تین ہزار لڑاکا طیارے ‘ ڈیفنس سسٹم اور پیٹر یاٹ میزائل بھی سعودی عرب بھیجے جائیں گے۔ امریکی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اضافی مدد کے لئے درخواست کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ سعودی سلطنت کو بڑھتے ہوئے خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ماہ سعودی عرب کے بقیق اور خریص علاقوں میں سعودی تیل کمپنی آرامکو کی تنصیبات پر ہونے والے حملوں میں تیل صاف کرنے کے بڑے کارخانوں کو نقصان پہنچاتھا ‘ جس سے کمپنی کی پیدا وار معطل ہوئی اورتیل کی عالمی رسد میںپانچ فیصد کمی آگئی تھی‘تاہم ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سہولت کاری کے مشن سے دونوں ممالک میں تنازعات کے حل کی راہ نکلنے کی اُمید ظاہر کی ہے‘ تاہم وزیر اعظم عمران خان کی کوششیں اس وقت ہی کامیاب ہوں گی جب ملک کی معیشت کے اندر بہتری آئے گی ‘کیونکہ سب سے بڑا مسئلہ ریاست کی اپنی صلاحیت کو بہتر کرنا ہے۔
عمران خان کو ادراک ہونا چاہیے کہ امریکی نیو ورلڈ آرڈر کے تحت اس خطے میں ایران اور پاکستان ہی وہ عسکری قوتیں ہیں ‘جن کو انتشار اور خلفشار میں مبتلا کرنے کے لیے امریکہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کے بادل گہرے کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جنگ کا آغاز ہوگیا تو مشرق وسطیٰ کے ممالک کی جغرافیائی حدود کا از سر نو جائزہ لیتے ہوئے بعض ممالک کی سرحدیں تبدیل کرکے ان کا نقشہ بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے‘ ممکن ہے سعودی عرب کی جغرافیائی حدود پر بھی اثر ات مرتب ہوں۔سعودی عرب بھی اس امریکی پالیسی کو بھانپ چکا‘ اس لیے خطے میں امن کا خواہاں ہے ‘تاہم امریکی پالیسی کی وجہ سے ایران سعودی عرب اختلافات جس نہج کو پہنچ چکے ہیں‘ ان کو معمول پر لانا مشکل ہے‘ لیکن ناممکن نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو اسلامی تاریخ‘ بین الاقوامی حالات اور بڑی طاقتوں کی سازشی تھیوری کا مکمل ادراک ہے‘ اس لیے امید کی جانی چاہیے‘ وہ ایک اچھے سہولت کار کے طور پر کردار ادا کریں گے اور خطے میں کشیدگی اور جنگ کے منڈلاتے بادل چھٹ جائیں گے۔سعودی عرب کو اپنی فوجی صلاحیت کا بھی مکمل طورپر ادراک ہے‘ کہ ان کی افواج نے سعودی عرب کے قیام سے اب تک کسی کھلی جنگ میں حصہ نہیں لیا ۔ اسی لیے سعودی عرب کی افواج کو جنگی حکمت عملی کا عملی تجربہ حاصل نہیں۔ 1948ء میں مصر‘ اُردن اور شام کی افواج نے اسرائیل کا مقابلہ کیا اور اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1956ء میں نہر سوئیزمیں سعودی عرب غیر جانبدار رہا‘ اسی طرح 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں سعودی عرب نے خاموشی اختیار کیے رکھی‘ 1973ء کی مصر ‘اسرائیل اور شام کی جنگ میں سعودی عرب نے سفارتی سطح پر اپنی حمایت کا اظہار کیا‘ 1982ء میں عراق اور ایران کی جنگ میں سعودی عرب عراق کی پشت پناہی کرتا رہا‘ لیکن عملی طور پر غیر جانبداری کا ہی اظہار کیا گیا۔اس خطے میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں سعودی عرب اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی سے اپنے ملک کی حفاظت کرتا رہا؛ چنانچہ اب‘ امریکہ سعودی عرب میں اسلحے کے ڈھیر جمع کراکے جو جنگی ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے‘ سعودی عرب کو وزیراعظم عمران خان کی اعلیٰ ذہانت اور لیڈرشپ سے فائدہ اٹھانا چاہیے‘ لیکن تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو آج تک دنیا کے جس بھی حکمران نے ایران عرب تنازعے میں قدم رکھا‘ وہ ناکام ہوا۔
مولانا فضل الرحمن کی احتجاجی تحریک سے خطرہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔اس احتجاج کے بعد سیاست پہلے جیسی نہیں رہے گی‘اس میں واضح تبدیلیاں ہوںگی۔ بعض تجزیہ کارصدارتی نظام کی طرف پیش قدمی کا بھی خدشہ ظاہر کرتے ہیں‘ لیکن سیاست وہ نہیں رہے گی ‘مگر ایک بات طے ہے کہ پاکستان کی عسکری قوت مزیدمضبوط پوزیشن میں آجائے گی‘ کیونکہ عالمی طاقتوں‘ یعنی امریکہ‘ چین اور روس کا اس پر انحصار بڑھے گا۔ مولانا فضل الرحمن کی سوچ سے پاکستان مسلم لیگ (ن )میں گروپ بندی ہو چکی ہے۔ ان کی پارٹی کے اہم رہنماؤں پر عدم اعتماد نواز شریف نے کردیا ہے‘ان میں احسن اقبال‘ خواجہ محمد آصف ‘جاوید لطیف ‘مریم اورنگزیب اورعطا تارڑ کے نام لیے جارہے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسی نفسیاتی جنگ میںعدم اعتماد کی مہم کسی منصوبے کا حصہ ہو‘ لیکن میری اطلاع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) میں گروپ بندی ہوچکی ہے ۔مولانا فضل الرحمن کی ماضی کی تحریک‘ ان کا رویہ اور 2002ء کے انتخابات کے بعد ان کی سیاسی چالیں‘ سب شہبازشریف اپنی نظر سے دیکھ چکے ہیں‘ گویا الزامات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو کسی طور ختم ہونے میں نہیں آرہا‘مگر حکومت کا المیہ یہ ہے کہ لوگ ہمیشہ لمحہ موجود کو دیکھتے ہیں‘ ماضی میں کم ہی جھانکتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان ثالثی مہم کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان میں صدارتی ریفرنس کے مندرجات پر بھی غور کریں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے جواب میں جو موقف اختیار کیا ہے‘ اس کے اثرات مولانا فضل الرحمن کی تحریک کے منطقی انجام کو پہنچنے کے بعد سامنے آئیں گے‘ اسی دوران میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن کے دو ار کان کی تقرری کے لئے پارلیمنٹ سے دوبارہ رجوع کرنے کا خوش آئند فیصلہ دیا ہے۔ بادی النظر میں انہوں نے صدر مملکت کی سمری کو مسترد کردیا ہے۔ اس دوران اپوزیشن اور میڈیا پر مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کا خط بنام فضل الرحمن سوار ہے‘انہوں نے اس فیصلے پر باریک بینی سے غور ہی نہیں کیا کہ صدر مملکت نے جن دو ارکان کا تقرر آئین کے آرٹیکل 213 سے انحراف کرتے ہوئے کیا تھا‘ اس کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریاستی مفاد میں پارلیمنٹ کے حوالے کر کے صدر مملکت کو بچا لیا ہے‘ کیونکہ الیکشن کمیشن نے دو ارکان کی تقرری کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ دوسری جانب تحریک انصاف کی قیادت پر فارن فنڈنگ کیس کی تلوار لٹکتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں