"KDC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم پر بھاری ذمہ داری ہے

آزادی مارچ کا رُخ پارلیمنٹ ہاؤس کی جانب کر دیا جاتا ہے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ اس کا اندازہ الفاظ میں نہیں لگایا جا سکتا‘ لیکن یہ بے حد نقصان دہ ثابت ہوگاکیونکہ امریکہ‘ برطانیہ ‘ بھارت ‘اسرائیل اور دیگر یہ تاثر دیں گے کہ پاکستان میں مذہبی گروپ غالب آ رہے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے اخراج بے حد مشکل ہوجائے گا‘ عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط بھی مشکل ترین ہوجائیں گی اورملک میں پریشر گروپوں کے غالب آنے کا نفسیاتی حربہ آزمایا جائے گا۔ اگر اگست2014ء میں عمران خان اس کی بنیاد نہ رکھتے اور آئین اور جمہوری اداروں کو بے توقیر نہ کرتے تو آج اپوزیشن جماعتیں بھی ان کے نقش ِقدم پر نہ چلتیں۔ سارے قدآور لیڈر حکومت کے خلاف متحد ہیں ‘خواہ ان کی پارلیمنٹ میں کوئی وقعت ہے یا نہیں ‘لیکن سیاسی‘ عوامی اوراخلاقی و زن ان کا بہت ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے ستائے عوام بھی اپوزیشن کے رہنماؤں کی باتیں مانتے جا رہے ہیں۔سنجیدہ طبقہ صرف ایک سوال کررہا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے‘ تو اپوزیشن بڑی قوت کے طور پر اسمبلیوں میں کیوں موجود ہے؟ اور اگر موجودہ اسمبلیاں دھاندلی کی پیداوار ہیں تو استعفیٰ کیوں نہیں دیتے ؟اگر اپوزیشن آج استعفیٰ دے دیتی ہے تو 15 فروری 2020ء تک الیکشن ہو سکتے ہیں‘ جو ایک جمہوری طریقہ ہے اور نئے انتخابات سے عالمی سطح پر تاثر صحیح جائے گا۔
اب مولانا فضل الرحمن کی حکمت عملی کو دیکھنا ہوگا کہ کیا کرتے ہیں‘ لیکن جو بھی ہورہا ہے وہ صحیح نہیں اور اس کے طویل المدت اثرات انتہائی ضرر رساں ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن کا لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب الارمنگ ہے۔ اب الٹی میٹم کی معیاد آگے بڑھتی ہے یا اس پر ہی انحصار کیا جائے گا اور مولانا فضل الرحمن کیا اعلان کرتے ہیں‘ یہ دیکھنا باقی ہے۔ معاملات کسی اور طرف تو نہیں جا رہے ؟ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے‘ کیونکہ خان عبدالقیوم خان کے اکتوبر 1958ء کے لانگ مارچ اور اکتوبر 1958ء میںمتحدہ اپوزیشن کی ناکام گول میز کانفرنس کے نتیجے میں ملک میں پہلا مارشل لا لگا‘پھر 25 مارچ 1969 کو صدر ایوب کے خلاف عوامی احتجاج‘ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے متکبرانہ رویے کے خلاف پانچ جولائی 1977 ء اور 12 اکتوبر 1999 ء کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔گزشتہ چند سال سے ہمارے مقتدر ادارے انتہائی غیر جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے آپ کو ایک فاصلے پر رکھا ہوا ہے ‘ تاہم موجودہ صورتحال میں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ یہ فاصلے ختم کریں۔اس کا صحیح حل بادی النظر میں یہی نظر آرہا ہے کہ متحدہ اپوزیشن کے رہنما مشترکہ طور پر آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ سے ملاقات کرکے اپنے تحفظات ان کے روبرو پیش کریں۔
وزیراعظم عمران خان کی نااہل ٹیم کی وجہ سے ملکی ادارے پریشانی کا شکار ہیں ‘ عدلیہ کی بے توقیری کرکے غیرمشروط معافی مانگنے کا سلسلہ 2014ء سے جاری ہے‘ جس کی وجہ سے ریاستی ادارے بھی یقینا گہری سوچ میں ہیں۔ ملک اندرونی و بیرونی مسائل میں گھرا ہوا ہے‘جبکہ مولانا فضل الرحمن کی کال پر ملک کے کونے کونے سے مظاہرین اسلام آباد پہنچے ہوئے ہیں۔ اس اجتماع میں غالب اکثریت پشتونوں کی ہے ‘جن کا تعلق وزیرستان اور سابق فاٹا کے علاقوں سے ہے ‘جہاں ماضی میں آزاد پشتونستان کی تحریک چلتی رہی اور ماضی میں کمزور افغانستان ان کی اخلاقی حمایت بھی کرتا رہا ‘مگر ان کی اس طرح مدد نہیں کی جو اَب وہ بھارت سے مل کر کرنے کی پوزیشن میں ہے ۔اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ موجودہ دھرنے پر بھارت کی خفیہ ایجنسی بھی نظر رکھے ہوئے ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستان کی عسکری قیادت کوملک کی سیاسی قیادت نے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ان حالات کے باوجود عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہے‘ جس کی وجہ سے حالات تیزی سے خراب ہوئے ہیں‘ کیونکہ مولانا فضل الرحمن نے اپنا کام جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اس موسم کا انتخاب کیا ہے‘ کیونکہ نومبر کے پہلے اور دوسرے ہفتے میں بارش شروع ہونے کی توقع ہے‘ جس کے دوران تحریک ناکام ہو سکتی ہے‘ یہی وجہ تھی کہ مولانا فضل الرحمن نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے آزادی مارچ کی تاریخ آگے بڑھانے سے انکار کر دیا تھا۔ایک سابق وزیراعلی بلوچستان کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی ناکامی کا تاثر غلط ہے‘ کیونکہ انہوں نے اسلام آباد کے اجتماع کو دوربین سے دیکھا اور حدِ نظر تک لوگ نظر آئے۔ بقول ڈاکٹر عبدالمالک یہ مولانا فضل الرحمن کی کامیابی ہے کہ ملک کی دو بڑی جماعتیں اور بااثر علاقائی جماعتیں ان کی پشت پر کھڑی ہیں۔ ان حالات میں اہم ذمہ داری وزیراعظم عمران خان کی ہے کہ وہ براہ راست مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کرکے درمیانی راستہ نکالنے کی سعی کریں اور ہر صورت تصادم سے بچنا ہوگا ۔وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی کی کمزور ترین وکٹ پر کھڑے ہیں‘ اگر سرداراخترمینگل‘ پیرپگاڑا اور متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ چودھری شجاعت حسین بھی اعتماد کے ووٹ سے یوٹرن لیتے ہیں تو وزیراعظم عمران خان کی حکومت چند لمحوں میں زمین بوس ہو جائے گی اور بادی النظر میں یہی منظر دیکھنے میں آرہا ہے۔ قومی اسمبلی کے اتحادی وزیر اعظم کی حمایت سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بارے میں سوچ بچار میں لگے ہوئے ہیں ۔
وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور گردوارہ کے لیے آنے والے سکھ یاتریوں کے لئے دو شرائط ختم کردی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پاسپورٹ درکار نہیں ہوگا‘ محض درست شناخت ہی کافی ہے۔ دوسرا یہ کہ انہیں دس روز قبل اندراج کی زحمت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔مزید یہ کہ بابا گرونانک کے 550 ویں جنم دن کے موقع پر کوئی بھی چارجز وصول نہیں کیے جائیں گے ۔کرتارپور راہداری کا قیام پاکستان کی طرف سے نہ صرف بھارتی سکھوں‘ بلکہ دنیا بھر کی اقلیتوں کے لیے ایک پیغام ہے‘ اسلام اور انسانیت کا پیغام‘ کہ ہر انسان کو جینے کا بھی حق ہے اور اپنے عقائد و نظریات پر مکمل آزادی کے ساتھ عمل کرنے کا بھی۔ کرتارپور سکھوں کے لیے انتہائی متبرک ہے‘ جہاں ماضی میں انتہائی دشواریوں کے باعث‘ یاتری بمشکل ہی آپاتے تھے۔وزیراعظم پاکستان کے سکھ یاتریوں کے لیے حالیہ اقدامات انتہائی اہم ہیں‘ اگرچہ پاسپورٹ اور دس روز قبل رجسٹریشن کی شرائط ختم کرنے سے پاکستان کی بین الاقوامی سرحد کے تقدس پر حرف آنے کے احتمال بھی ہے ۔ وزیراعظم پاکستان نے بھارت کے دو کروڑ سکھوں کی مذہبی رواداری کے پیش نظر اہم قدم اٹھایا ہے‘مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ملک میں کوئی بغیر پاسپورٹ کے آئے؟ وزیراعظم ملک کی سرحدوں کے تقدس کا لحاظ رکھیں‘ اسی قسم کی غلطی نواز شریف نے بھی بھارتی قیادت سے دوستی کے جذبے سے مغلوب ہوکر کی تھی‘ جس سے ملک میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی تھی۔ پاکستان کے عوام بابا گرونانک کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘مگر ان کی تعلیمات سے انحراف کا سلسلہ دسویں گرو کے دور میں شروع ہوگیا تھا‘ جب مسلم کشی کرنے والوں کو سکھ کا خطاب دیا گیا۔حیرت ہے کہ مولانا نورالحق قادری اور تقی عثمانی صاحب جیسے قابل فخر اور جید علما نے بھی ان کے اس قدم پر اپنے ریمارکس دینے سے گریز کیا ۔سکھوں کی محبت اور بین الاقوامی طور پر خود کو لبرل منوانے کیلئے جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں‘ ان سے وزیر اعظم کی شخصی حکومت کا تصور ابھرتا جارہا ہے ۔
کیامقبوضہ کشمیر میں تعینات دو لاکھ سکھ فورسزانسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے معاملے میں بھارتی حکومت کے غیرانسانی احکام ماننے سے گریز کریں گی؟ جس طرح ستمبر1965ء کی جنگ کے دوران گورکھا فورسز نے سرکار احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کے بارڈر سے واپسی کی راہ اختیار کرلی تھی‘ کیونکہ محمد ایوب خان نیپالی افواج کے بھی اعزازی فیلڈمارشل تھے اور صدر ایوب خان نے گورکھا افواج کو واپس جانے کے سرکاری احکامات جاری کیے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کو 9نومبر کے روز بابا گرو نانک کے جنم دن کے موقع پر سکھ فوجیوں کو مقبوضہ کشمیر سے نکلنے کی اپیل کرنی چاہیے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں