"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی افہام و تفہیم ناگزیر ہے

حکومت اور متحدہ اپوزیشن اپنی روایتی زور بیانی کے باوجود مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھ چکی ہے‘ اس کا کریڈٹ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ‘ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر‘چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت حسین کو جاتا ہے۔ احتجاجی تحریک کو تصادم کے راستے پر نہ ڈالنے کی حکمت عملی قابل ستائش ہے۔ اس مذاکراتی مشن کو ناکام بنانے کے لیے کئی حکومتی شخصیات متحدہ اپوزیشن پر تیر برسا رہی ہیں‘ تاہم حکومت کا فرض ہے کہ وہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرے ۔ پاکستانی سماج کو انسانی اقدار‘ قانون کی بالا دستی اور جمہوری رویوں کے بنیادی حسن پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اسلامی جمہوری ملک ہے‘ اس لیے یہاں کوئی بھی اسلام کے اصولوں سے متصادم آئینی وقانونی ترمیم یا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ نہیں دے سکتا ۔سو‘ جو باتیں ہوئی ہی نہیں‘ ان پر حکومت مخالف سیاست کی عمارت اٹھانے سے گریز کیا جائے ‘تو مناسب ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن اور متحدہ اپوزیشن کا یہ موقف درست ہے کہ 25 جولائی 2018 ء کے انتخابی عمل اور نتائج کے حوالے سے شکایات اور تحفظات کے لیے جس پارلیمانی کمیٹی کا اعلان کیا گیا‘ سال بھر گزرنے کے باوجود نہ تو اس کمیٹی کے قواعد و ضوابط بن سکے اور نہ ہی کسی اجلاس کا انعقاد ہوا ۔پارلیمانی کمیٹی نے کام نہیں کرنا تھا تو وزیراعظم کو اس کا اعلان ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس حوالے سے اگر حزب اختلاف یہ سمجھتی ہے کہ حکومت نے صرف وقت گزاری کے لیے کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا تو یہ کسی حد تک درست بھی ہے ‘لیکن متحدہ اپوزیشن لیڈرزبھی جواب دہ ہے کہ اس نے پارلیمانی کمیٹی کے قواعد و ضوابط نہ بنانے پر حکومت سے جواب طلبی کیوں نہیں کی اور اپوزیشن کے ارکان نے معنی خیز خاموشی کیوں اختیار کیے رکھی؟ یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپوزیشن کو مذاکرات پر آمادہ کرے اور کسی تاخیر کے بغیر انتخابی عمل اور نتائج پر شکایت کی تحقیقات کیلئے قائم پارلیمانی کمیٹی کے قواعد و ضوابط بنائے ۔ کمیٹی کااجلاس بلانے کے لیے فی الفور اقدامات کئے جائیں‘ لیکن اگر قانون کی نظر سے پارلیمانی کمیٹی کے دائرہ اختیار کا جائزہ لیا جائے تو اس کا وقت اب گزرچکا ہے ‘کیونکہ ریکارڈ محفوظ نہیں رہا اور تمام شہادتیں معدوم ہوچکی ہیں۔ اس پارلیمانی کمیٹی کو فعال بنانے کی ذمہ داری لیڈر آف اپوزیشن پر عائد ہوتی ہے ۔ حکومت ظاہر ہے کہ ایسے معاملات پر گرمجوشی نہیں دکھا سکتی ‘مگر اپوزیشن کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ کام کرے ‘جیسا کہ عمران خان11 مئی 2013ء کے الیکشن کے فوراً بعد انتخابی دھاندلیوں کے بارے میں ایک سال تک الیکشن کمیشن کا گھراؤ کرتے رہے اور عدالتوں میں بھی گئے اور آخرمیں چیف جسٹس افتخار چودھری کی عدالت میں گئے جہاں ان کی تضحیک کی گئی اور کیس خارج کر دیا گیا۔ اس کے بعد عمران خان نے 10 اگست 2014ء کو انتخابی طبل جنگ بجا دیا۔
ان تمام مراحل سے اپوزیشن بخوبی واقف تھی‘لیکن انہوں نے اپنا قیمتی وقت اپنے دیگر معاملات کی نذر کر دیا۔ عوام جن مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے جمہوری اقدار اور قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج سے تو مسائل کے حل کی توقع ہو سکتی ہے‘ مگر محاذ آرائی اور تصادم کا راستہ مسائل کی سنگینی میں اضافہ کرنے کے ساتھ جمہوریت مخالف قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع بھی دیتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن تجربہ کار ‘ جہاندیدہ اور زیرک سیاستدان ہیں‘اس لیے امید کرنی چاہیے کہ وہ پرامن جدوجہد کو تصادم کے راستے پر نہیں ڈالیں گے ‘تاہم یہ سامنے کی بات ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا احتجاجی ہجوم پرجوش اور آمادۂ مزاحمت ہے۔ اسلام آباد میں اپنے پہلے ہی خطاب میں مولانا فضل الرحمن نے بلا تاخیر عسکری اداروں کی طرف اشارہ کیا ‘ مگر افواجِ پاکستان نے دوٹوک انداز میں اس کا موثر جواب دیا ہے کہ فوج سول حکومت کے ماتحت ہے اور وہی کام کرے گی جو سول حکومت اسے تفویض کرے گی۔اس بیان ‘جوابی بیان اور جواب الجواب کے تین سطری مکالمے میں وزیراعظم عمران خان غیر متعلق ہوگئے‘ جس نے خطرات کے سایوں کو مزید گہرا کردیا ہے۔حکمران پارٹی کے اتحادی چودھری شجاعت حسین ‘مولانا فضل الرحمن سے ملے اور درمیانی حل کی تجویز پر غوروفکر ہوتارہا ۔ بادی النظر میں اس سنگین سیاسی بحران میں حکومت کے اتحادی وزیراعظم عمران خان کے رویے ‘ طرز حکومت ‘ان کے غیر حلف یافتہ مشیران اور اور دہری شہریت کے حامل مشیرِ خاص‘ جو ہر دورے میں وزیراعظم کے ساتھ شریک گفتگو رہتے ہیں ‘ سے سخت ناراض نظر آرہے ہیں ۔ مولانا کے احتجاجی مارچ اور دھرنے سے اتحادیوں کے بھی کان کھڑے ہوگئے ہیں اور ان کی نگاہیں مستقبل کے سیاسی منظر پر لگی ہوئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی نیک تمناؤں‘ خواہشات اور ملک کی تعمیر و ترقی کے منصوبوں کی راہ میں وزرا حائل ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو ہم اپنے کالموں میں مسلسل باور کرا رہے ہیں کہ ان کے چند وزرا ایک خاص سوچ کے تحت اپوزیشن کو اشتعال دلانے کے مشن پر ہیں۔ اسی طرح کا معاملہ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار آخری دونوں میںپیش آیا تھا‘ جب ان کے اقتدار کا سورج غروب ہورہاتھا تو غلام مصطفی کھر‘ ڈاکٹر غلام حسین‘ مولانا کوثر نیازی اورعبدالحفیظ پیرزادہ اپوزیشن کو دھمکیاں دے رہے تھے ‘ تاکہ قومی اتحاد کے ورکر اور رہنما جوش میں آکر مارشل لا کے لیے راہ ہموار کریں ۔اسی کے نتیجے میں پانچ جولائی 1977ء کا سانحہ پیش آیا۔وزیر اعظم عمران خان کے چندوزرا بھی اسی راہ پر گامزن ہیں ‘ مگر بدقسمتی سے عمران خان کو اپنے ان وزرا کے ایجنڈے کا احساس نہیں ۔ مولانا فضل الرحمن ایک زیرک اور سنجیدہ منطق کے حا مل سیاستدان ہیں‘ لہٰذا ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر حکومت اور متحدہ اپوزیشن‘ جس کی سربراہی مولانا فضل الرحمن کررہے ہیں‘ انتہا پسندانہ بیانیہ ترک کرکے افہام و تفہیم کی فضا پیدا کریں ۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے اپنی نئی تقریریں اور بیانات میں جو باتیں کہی جارہی ہیں وہ حساسیت کے ماحول کے لیے سازگار نہیں ۔ اس معاملے میں حکومتی اتحادیوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ‘کیونکہ ملک کی ترقی اور معاشی بحالی کے لیے‘ امن و امان برقرار رکھنے اور قومی اتحاد و یکجہتی کے لیے‘ ان پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اپوزیشن کو ملکی اور غیر ملکی معاملات اوراہم ایشوز کو اجاگر کرنا چاہیے ۔ایسے سنگین اور حساس معاملات کو منظر عام پر لانے کے لیے مولانا فضل الرحمن کے پاس جو ثبوت ہوں وہ بھی قوم کے سامنے پیش کریں‘ محض بے بنیاد الزامات سے گریز کریں ۔ قوم پہلے ہی مایوسی کے گرداب میں ہے‘ قوم کے جذبات سے بلا جواز نہیں کھیلنا چاہیے۔اسی طرح مولانا فضل الرحمن کو حساس اداروں کے بارے میں گفتگو کر کے افغانستان اور بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے ۔ پاکستان کے حساس اداروں کے بارے میں ان کے جو جذبات الیکشن 2018 ء کے حوالے سے ہیں ‘ درست نہیں ہیں۔ حساس اداروں پر الیکشن میں مداخلت کے الزامات لغو ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن کا یہ مطالبہ بھی غیر حقیقی اور غیر مناسب ہے کہ آئندہ الیکشن میں افواج پاکستان کی خدمات حاصل نہ کی جائیں ۔پاکستان کے معروضی حالات اور امن و سلامتی کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ الیکشن کے ماحول کو امن رکھا جائے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 218 کے مطابق صاف شفاف انتخابات کرانے کا ذمہ دار ہے اور اس کے لیے پولنگ سٹیشن کے اندر اور باہر ماحول پرامن رکھنے کے لیے افواجِ پاکستان کو ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے‘ جس کا آغاز 1997ء کے جنرل الیکشن سے حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے کیا گیا تھا ۔اپوزیشن کا افواج پاکستان کی خدمات مستعار نہ لینے کا مطالبہ آئین کے آرٹیکل 63 سے انحراف تصور کیا جائے گا ۔الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 220 اور 245 کے تحت آرمی طلب کرتا ہے۔مولانا فضل الرحمن کے اس احتجاجی پروگرام سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضا ہموار ہو رہی ہے‘ جس کا حکومت ہی نہیں ملک کو بھی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں