"KDC" (space) message & send to 7575

صدر کی مواخذہ تحریک اور ممکنہ صورتحال

اپوزیشن جماعتوں نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے کا عندیہ دیا ہے ۔ یہ انکشاف مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی بیرسٹر محسن رانجھا نے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے الیکشن کمیشن کے دو نئے ارکان کی تقرری کا نوٹیفکیشن معطل کیے جانے کے بعد کیا گیا ہے‘تاہم اپوزیشن کی جانب سے صدر مملکت کے مواخذے کی تحریک ناکام ہو گی‘ کیونکہ مواخذے کی مجوزہ تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ایوانوں کے دو تہائی ارکان کی حمایت درکار ہوگی‘ جو اپوزیشن جماعتوں کے پاس نہیں ہے ۔نواز شریف کی لندن روانگی کے معاملے میں چونکہ شہباز شریف کا بڑا عمل دخل ہے ‘لہٰذا شہبازشریف بھی صدر عارف علوی کے خلاف مواخذے کی تحریک میں سرگرم کردار ادا نہیں کریں گے ۔ دراصل اس قسم کی تحاریک کا مقصد حکومت کو ملکی اور غیر ملکی نظروں میں مشکوک بنانا ہوتاہے ‘ تاہم اپوزیشن کو ادراک ہے کہ اس وقت پارلیمنٹ کے ارکان کی مجموعی تعداد 444ہے ‘جن میں قومی اسمبلی کے 342 اور سینیٹ کے 102 اراکین شامل ہیں ۔ اس طرح 296 ارکان دوتہائی بنتے ہیں ‘ جبکہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے دونوں ایوانوں میں تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کو اکثریت حاصل ہے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادی اراکین کی تعداد 176 اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی تعداد 159 ہے۔جمہوری وطن پارٹی کے زین بگٹی بھی اتوار کے روز ہونے والے این اے 259 ڈیر بگٹی کے ضمنی انتخابات میں جیت گئے ہیں۔ قاسم سوری عبوری طور پر قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں ان کا کیس زیر التوا ہے اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت ان کا فیصلہ سپریم کورٹ سے ایک ماہ کے اندر آنے کا آئینی وقانونی استحقاق ہے۔ اب اگر مواخذے سے پہلے قاسم سوری اپنی نشست سے محروم ہوجاتے ہیں تو پھر بھی حکمران جماعت کے ارکان کی تعداد 175 رہے گی ۔ ان حالات میں صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک میں شہبازشریف کا اہم کردار رہے گا۔ وہ چونکہ نواز شریف کے معاملے میں اپوزیشن کی سوچ سے علیحدہ ہوگئے ہیں ‘لہٰذا صدر کو اب اس مواخذے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
تاہم وزیراعظم عمران خان کے اتحادی ان کی پالیسیوں سے نالاں ہیں اور ان کی نگاہیں مستقبل کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی قومی اسمبلی میں تعداد اب 175 رہ گئی ہے اوراگر آزاد ارکان علیحدہ ہو جاتے ہیں تو پھر وزیراعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ لینے میں بظاہر ناکام ہو سکتے ہیں ۔دوسری جانب مقتدر حلقوں کی بھی وزیراعظم عمران خان کی اندرونی اور خارجی پالیسیوں پر گہری نظر ہے۔ایف بی آر کے چیئرمین نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے سرکاری پالیسی کا بیانیہ جاری کرکے اپوزیشن کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے‘ جبکہ وزیراعظم عمران خان نے 10 سال کے قرضوں کے حساب کے لئے جو اعلیٰ اختیار کی کمیٹی بنائی تھی اس کمیٹی نے بھی رپورٹ پیش کی ہے کہ ان قرضوں میں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوئی‘ وہ بالکل جائزاستعمال ہوئے ہیں۔اس طرح وزیراعظم عمران خان کی اپنی تشکیل کردہ کمیٹی نے اپنی ہی حکومت کو آئینہ دکھا دیا ہے ۔قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مقصد بھی وزیراعظم عمران خان کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے اور بادی النظر میں نظر آرہا ہے کہ قاسم سوری کے خلاف تحریک ناکام ہوجائے گی‘ کیونکہ قاسم سوری اپنی رواداری اور مصلحت پسندانہ رویے سے متعلقہ سٹیک ہولڈر ز کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔یہ نظر آرہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان پارلیمنٹ کے بحران سے نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے ‘تاہم انہیں اپنی کابینہ میں اہم تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی دھرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کی حکومت ایک لحاظ سے مضبوط ومستحکم ہوئی ہے ‘ کیونکہ عام شہری عمران خان کی تمام غلطیوں اور نااہل پالیسیوں کے باوجود اس حکومت کو مولانا فضل الرحمن پر ترجیح دے رہے ہیں۔تاہم پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے احتجاج اور '' آزادی مارچ‘‘ کے نام سے مولانا فضل الرحمن کی تحریک سے ملک میں معیشت اور خارجہ امور پر اہم اثرات ضرورپڑ رہے ہیں‘ جس سے مقتدر حلقوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان تحریک انصاف پارٹی فارن فنڈنگ کیس سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے اور عدالتوں سے حکمِ امتناعی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کو تحریک انصاف کی بعض اندرونی شخصیات نے دانستہ طور پر نظر اندازکیا اور وزیراعظم عمران خان کو اندھیرے میں رکھا۔راقم نے گزشتہ کئی مہینوں کے دوران اس کیس کو احسن طریقے سے حل کرنے کی تجاویز وزیر اعظم عمران خان کو بھجوائی تھیں‘ لیکن ان کے اردگرد لوگوں نے اس کیس کو معمولی طرز کی روٹین قرار دیے رکھا ‘حالانکہ ان کے خلاف جو پٹیشن الیکشن کمیشن آف پاکستان میں دائر کی گئی ہے اس پٹیشن میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور دیگر عہدیداران پربیرون ممالک سے ہنڈی اور دیگر مشکوک ذرائع سے فنڈز وصول کرنے اور منی لانڈرنگ سمیت بدعنوانی میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں ۔ ان معاملات میں عارف نقوی‘ جو اِن دنوں برطانیہ کی جیل میں ہیں‘ کے ملوث ہونے کے خدشات بھی ظاہر کئے گئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف گزشتہ پانچ سال سے پارٹی فنڈنگ کیس کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے آنکھ مچولی کھیل رہی ہے ‘ جبکہ وزیراعظم عمران خان اسی حوالے سے ایسی شخصیات کے سحر میں گھر چکے ہیں‘ جو ماضی میں اپنے آقاؤں کے ہاتھوں کئی بار استعمال ہو چکی ہیں۔وزیر اعظم ان دنوں انہی کے مشورے پر عمل کر رہے ہیں۔
داخلی سیاسی حالات سے نکل کر خارجہ معاملات پر نظر ڈالنے کی بھی ضرورت ہے ‘ اور اس میں قابل ذکر یہ ہے کہ 70 ارب ڈالر پر مشتمل سی پیک کی لاگت کے حوالے سے چین کی حکومت متفکر ہے‘ جبکہ بھارت اس سال چین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن گیا ہے ۔اس سے پہلے امریکہ ‘ چین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر تھا ۔چین کے ساتھ تجارت میںبھارت کو 57 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے اور اس تجارتی خسارے کو دور کرنا اس وقت چین اور بھارت دونوں کی نمایاں ترجیح ہے۔اس مقصد کے لیے لداخ‘ نیپال اور سکم کے راستوں سے نئی راہداریاں قائم کی جائیں گی ۔ لداخ کے راستے کو دونوں ممالک نے پہلی ترجیح دے دی ہے‘ جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کی نئی حکمت عملی کو چین کی غیر اعلانیہ تائید حاصل ہونے جا رہی ہے۔اس کے علاوہ چین 20 ارب ڈالر کی ابتدائی سرمایہ کاری سے بھارت میں تین صنعتی زونز بھی قائم کرے گا ‘جن میں بننے والا سامان صرف چین کو برآمد کیا جا سکے گا۔ کیا عمران خان حکومت اندازہ کر سکتی ہے کہ اس کے تاثرات کیا ہوں گے؟ تبت اور اکسائے چن پر چین کے موقف کو بھارت تسلیم کر لے گا اور ان کثیرالطرفہ کوریڈورز سے چین کو بحر ہند سے زمینی راستوں‘ تجارتی ترسیلات اور توانائی کے حصول کے نئے اور محفوظ راستے ملیں گے۔ یقینا اگر ان اہداف کو حاصل کرلیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں چین کو سی پیک یا گوادر کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ یقینا پاکستان کے حوالے سے دیگر بہت سی وجوہات‘ جن میں موجودہ حکومت کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی بھی شامل ہے‘ کے علاوہ یہ صورتحال بھی پاکستان میں موجودہ حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بنتی جارہی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں