"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی اصلاحات کمیشن بنایا جائے

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017 ء کی پاسداری کرتے ہوئے عام انتخابات سے متعلق جائزہ رپورٹ حکومت پاکستان کو پیش کی ہے۔ اس سے ان اٹھنے والے سوالات پر روشنی پڑتی ہے‘جن کی نشاندہی مذکورہ رپورٹ میں کی گئی ہے۔ملک میں انتخابی دھاندلی کے الزامات کی روایت 1951ء سے چلی آ رہی ہے‘ تاہم الیکشن میں منظم دھاندلی کا اندازہ لگانے یا مزید تحقیق کیلئے جنرل ضیاالحق کے دور حکومت کے الیکشن وائٹ پیپرز پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وزیراعظم بھٹو کے ذہن میں الیکشن میں دھاندلی کے لیے جو میکنزم تھا ا س کی ان وائٹ پیپرز میں واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے۔
اس وقت بھی الیکشن 2018 ء کے نتائج پر بے اطمینانی کے اظہار کے لیے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اپوزیشن کی نو جماعتوں کا حمایت یافتہ لانگ مارچ یا دھرنا کئی روز تک اسلام آباد میں جاری رہا ۔حیرانی اس امر کی ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور ان کے اتحادیوں کے وسائل لامحدود ہونے کے باوجود الیکشن 2018 ء کے بارے میں ان کے جو خدشات ہیںاس کے عملی ثبوت وہ ابھی تک پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔محض آتش فشاں تقاریر سے دھاندلیوں کے بارے میں واضح حقائق سامنے نہیں آتے‘ ان کو اپنے وسائل سے انتخابی دھاندلیوں کے بارے میں ثبوت اکٹھے کرنے کے لیے تحقیقی کمیشن تشکیل دینا چاہیے ۔ مولانا فضل الرحمن نے الیکشن کے بارے میں دھاندلیوں کے سلسلے میں ہوم ورک نہیں کیا۔ا گر مولانا فضل الرحمن واضح ثبو ت اور حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے تحقیقی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کے بعد وزیراعظم پاکستان سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے تو اس میں وزن پایا جاتا۔ اس پس منظر و پیش منظر میں الیکشن کمیشن کی جائزہ رپورٹ سے کئی اور امور پر بحث اور نئے اٹھنے والے سوالات کے جواب بھی ملتے ہیں ‘جبکہ چیلنجز کی نشاندہی کے ساتھ کمیشن کی سفارشات میں قانون سازی سمیت جن اہم اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے اس سے استفادہ کیا جائے تو انتخابی عمل کے دوران پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پایا جاسکتا اور انتخابات کو زیادہ شفاف بنایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر آرٹی ایس کے حوالے سے رپورٹ کا کہنا ہے کہ تمام پولنگ سٹیشنوں میں اس پر عملدرآمد ایک ایسے وقت میں بہت بڑا چیلنج تھا جب اس علاقہ میں انٹرنیٹ کوریج محض 60 فیصد تک محدود تھی۔ اس کے علاوہ 85 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنوں پر سمارٹ فون پر آر ٹی ایس کے استعمال کا بندوبست ایک بہت بڑا ٹاسک تھا‘جس کیلئے مالی وسائل کی بھی کمی تھی ۔ٹیکنالوجی سے نہ آشنا پریزائڈنگ آفیسرز کی آرٹی ایس کے حوالے سے تربیت بھی ایک بڑا چیلنج تھا۔ مذکورہ بالا معاملات سے پیدا ہونے والے مسائل کے باعث الیکشن کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ نئی ٹیکنالوجی کا تعارف فول پروف ہونے تک قانون کے تحت اس کا استعمال لازمی نہیں ہونا چاہیے ۔ الیکشن کمیشن نے مذکورہ چیلنجز کو پیش نظر رکھتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 13(2) کی شق پر نظرثانی کی ضرورت اجاگر کی‘ جبکہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے فراہم کردہ غلط نقشوں کی درستی پر بھی زور دیا ہے ‘حلقہ بندیوں میں ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں کہ بلوچستان میں مختلف پٹوار حلقوں کو کوئٹہ اور قلعہ عبداللہ کے مختلف غیر متصل علاقوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ایسی ہی متعدد مثالوں سے ان تجاویز کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے۔ مختصر لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم ترک کرنے‘پرانی حد بندیوں کے نقائص دور کرنے ‘ نئی حد بندیاں قائم کرنے اور گزشتہ انتخابی فہرست ناقص ہونے کے باعث نئی انتخابی فہرستیں بنانے‘ انتخابات کے انعقاد کے موجودہ تین ماہ کے چھوٹے دورانیے میں مستقل توجہ دینے اور اگلے تمام انتخابات میں تجربہ کار ریٹرننگ افسروں کی تقرری کی تجاویز دی ہیں۔ان تجاویز سے واضح ہے کہ کئی قوانین‘ خاص طور پر الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم ناگزیر ہوچکی ہیں‘ ایسے وقت میں الیکشن 2018ء میں آر ٹی ایس سمیت کئی حوالوں سے سامنے آنے والے سوالات پر روشنی پڑ رہی ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انتخابی عمل میں شفافیت دیکھنے کے خواہشمند تمام حلقے اور سیاسی پارٹیاں ان تجاویز کا اجتماعی جائزہ لیں اور انتخابی اصلاحات کمیشن ازسرنو تشکیل دے کر الیکشن قوانین کو دیگر ممالک کے ہم پلہ بنانے کی کوشش کریں۔ دراصل سابق حکومت نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کی تشکیل عجلت میں کی تھی‘ جب عمران خان اپنے لاؤ لشکر سمیت اسلام آباد میں داخل ہوگئے تھے۔اُس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور اسحاق ڈار کی سربراہی میں جو اصلاحاتی کمیٹی بنائی گئی تھی اس کے ارکان نے عمران خان کے دھرنے اور لرزتی ہوئی حکومت کو دیکھتے ہوئے انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کی مروجہ ترامیم‘ سفارشات اور تجاویز پر توجہ نہیں دی ۔ آر ٹی ایس کی تجویز بھی تحریک انصاف ہی کی طرف سے نیکی کے جذبے کے تحت آئی تھی‘ جس کی الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا نے مخالفت کی تھی۔مولانا فضل الرحمن کی پسپائی سے عمران حکومت کو فائدہ پہنچا ہے ا ور ان کی حکمت عملی کے تحت حکومت اندرونی بحران سے نکل گئی ہے۔ اب حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانا مشکل ہو جائے گا‘ کیونکہ عوام کا حزب اختلاف پر اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے اور مولانا فضل الرحمن کے پلان بی اور سی اور ڈی سے یہ اعتمادبحال نہیں ہو سکے گا۔ مولانا فضل الرحمن نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کی پیروی کی‘ جب ڈاکٹر طاہرالقادری 5 جنوری 2013 ء کو حکومت سے نام نہاد معاہدہ کرکے خاموشی سے اسلام آباد سے نکل گئے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کی تحریک سے بھی حکومت کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہوا اور چند روز میں یہ تحریک دم توڑ گئی۔
اپوزیشن جماعتیں ملک میں ازسرنو انتخابات سے بیشتر نئی انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کر رہی ہیں ‘جس کے تحت ان خامیوں کا ازالہ کیا جائے جو 2018ء کے انتخابات میں واضح نظر آرہی تھیں ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں انہی خامیوں کی نشاندہی کی ہے کہ ملک میں صحیح جمہوری انتخابات اور عوام کی حقیقی نمائندگی اور بدعنوان سیاستدانوں سے جان چھڑانے کے لیے عوام کو حق دیا جائے کہ وہ بیلٹ پیپرز پر موجود ان امیدواروں کو مسترد کردیں جو معاشرے میں بدعنوانی کی علامت ہیں۔ آزاد امیدواروں کو اپنی پسند کی پارٹی میں شمولیت پر پابندی عائد کی جائے جو آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہونے کے بعد کرپٹ پریکٹس کے تحت حکمران جماعت میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسے امیدوار اپنے ووٹروں کے جذبات کی قیمت پر اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔علاوہ ازیں ملک میں مڈ ٹرم کی اصطلاح موجود نہیں‘ جب انتخابات ہوں وہ ازسرنو انتخابات ہی ہوں گے اور اگلی پانچ سال کی مدت کے لیے ہوں گے۔ مڈٹرم انتخابات کی اصطلاح نامناسب اور گمراہ کن ہے ۔
وزیراعظم عمران خان اپنے انتخابی منشور پر عمل درآمد کراتے ہوئے لوٹی گئی دولت برآمد کرانے اور میگا کرپشن مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اسی پس منظر میں تجویز ہے کہ بڑے کرنسی نوٹ کے ڈیزائن تبدیل کرکے حکومت نوٹ ذخیرہ کرنے والوں سے اربوں روپے نکلوانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ جب ذخیرہ اندوز عناصر اپنے اربوں روپوں کے نوٹ تبدیل کرانے سٹیٹ بینک میں جائیں گے تو ان کو ایف بی آر کے اہلکار آسانی سے شکنجے میں جکڑ لیں گے۔ ایک اطلاع کے مطابق کرپٹ عناصر نے اربوں روپے مالیت کے کرنسی نوٹ ذخیرہ کر رکھے ہیں۔ ملکی معیشت کو مفلوج کرنے کے لیے انہوں نے بڑے کرنسی نوٹ اپنی محفوظ جگہوں پر چھپا ئے ہوئے ہیں‘ جس سے ملکی معیشت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور حکومت کو بھی نئے نوٹ شائع کرنے پڑرہے ہیں۔ بڑے کرنسی نوٹ کے ڈیزائن کی تبدیلی سے ملکی معیشت پر مثبت اثر پڑنے کا امکان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں