"KDC" (space) message & send to 7575

فارن فنڈنگ کیس ،کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟

دھند آلود سیاسی ماحول میں نواز شریف علاج کے لیے لندن پہنچ گئے ہیں اور ان کی روانگی کے بعد سے ملک کی سیاسی صورتحال تندوتیز سیاسی بیانات کی زد میں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا ہے اور ایک بار پھر دہرایا جا رہا ہے کہ احتساب ان کی پہلی ترجیح ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ایک انٹرویو میں اگرچہ یہ واضح کر دیا ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان ریاستی امور پر کوئی دو رائے نہیں اور آئینی ذمہ داری کے تحت عسکری ادارے جمہوری حکومت کی حمایت کر رہے ہیں‘ اس کے باوجود قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ بلاول بھٹو زرداری‘ احسن اقبال اور مولانا فضل الرحمن کے دعوے ہیں کہ مارچ 2020ء سے پہلے اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں گی۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ( ق) کے حکومتی اتحادی ہونے کی پرانی پوزیشن بھی قائم نہیں رہی۔ بقول مولانا فضل الرحمن پرویزالٰہی ان کے پاس سے قائل ہو کر گئے تھے ۔
سیاسی حلقوں نے آزادی مارچ کے دوران چوہدری برادران کی مولانا سے پے در پے ملاقاتوں کو نئے سیاسی امکانات کا پیش خیمہ قرار دیا تھا اور چودھری برادران کی ملاقاتیں حکومتی کمیٹی سے ماورا رابطوں کا ایک اعلامیہ ثابت ہوئیں اور پرویز خٹک نے پرویز الٰہی کے رابطوں پر بین السطور نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اصل طاقت اور مینڈیٹ حکومتی کمیٹی کے پاس ہے۔ ممکنہ طور پر چوہدری پرویز الٰہی نے پرویز خٹک کے بیانیہ کو وزیراعظم ہی کا بیانیہ تصور کیا ہو گا۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ آزادی مارچ کے اچانک ختم ہونے کا اعلان ملک کی سیاست میں ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا اورباور کیا جاتا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کے حالیہ مصالحتی اور مفاہمتی بیانات نے اپنے لیے راہ ہموار کرلی ہے۔
دوسری جانب نوازشریف کی لندن روانگی کے بعد سے ملکی سیاسی صورتحال گرما گرم ہے۔ وزیراعظم اور ان کے بعض وزرا باؤنسرز کے موڈ میں رہتے ہیں۔ قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے‘امکانات‘توقعات اور خدشات سے فضا مزید بوجھل ہوتی جارہی ہے۔ چوہدری پرویزالٰہی‘ پیر پگاڑا‘ سرداراخترمینگل اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی جیسے رہنماؤں نے حکومت کی پالیسیوں کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے آنے والے وقت میں سیاسی صورتحال کے لیے واضح اشارہ دے دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد میں دھرنے کے دوران چوہدری برادران کے سیاسی کردار نے ملک کے منظرنامے کو محو حیرت کردیا تھا اور صاف نظر آرہا تھا کہ چوہدری صاحبان وزیراعظم کی حکومت کے لیے نہیں ‘ریاست کے لیے بات کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے تھا کہ چوہدری برادران کے گھر جاکر ان کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے‘ لیکن وہاں تو خاموشی اور سناٹا تھا‘ بلکہ دورانِ مذاکرات پُراسرار طریقے سے سوشل میڈیا پر چوہدری برادران کا مذاق اڑایا جاتا رہا۔
اس صورتحال میں نواز شریف کی خوش قسمتی ہے کہ وہ شہباز شریف جیسے وفادار بھائی کی بدولت مشکل ترین دور میں باآسانی ملک سے (بغرض علاج) چلے گئے۔ یہ صورتحال سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی صورتحال کے برعکس تھی‘جو تن تنہا اپنا مقدمہ لڑتے رہے جبکہ ان کے قریبی ساتھی جیسا کہ ممتازبھٹو‘ حفیظ پیرزادہ‘ غلام مصطفی کھر‘غلام مصطفی جتوئی ‘ملک معراج خالد‘مولانا کوثر نیازی اور یہاں تک کہ ان کے اپنے صدر چوہدری فضل الٰہی ان کے خلاف جنرل ضیاالحق کو بریف کرتے رہے۔ یہ تمام حوالہ جات جنرل کے ایم عارف کی سرگزشت میں تفصیل سے درج ہیں۔ چوہدری فضل الٰہی نے ذوالفقار علی بھٹوکو گھاس کا سانپ قرار دیتے ہوئے جنرل ضیا الحق کو مشورہ دیا کہ بھٹو کو منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے ۔ اس کے برعکس شہبازشریف مشکل وقت میں نواز شریف کے ساتھ کھڑے رہے اور ان کی خاطر تازہ ہواکے لیے کھڑکیاں کھولتے رہے۔ نواز شریف کی بیماری پر ہونے والی سیاست کے دوران وزیراعظم عمران خان پر بظاہر یہ بھی عیاں ہو گیا ہے کہ کچھ ریاستی اداروں کی پالیسی سیاستدانوں کی پالیسی سے مختلف تھی۔
پاکستان کی سیاست بدل رہی ہے؛ چنانچہ وزیراعظم عمران خان کو صورتحال کا صحیح ادراک کرتے ہوئے فارن فنڈنگ کیس کی گہرائی تک جانا ہوگا۔ انہیں چاہیے کہ ان کے اردگرد جن قانونی ماہرین نے گھیراڈالا ہوا ہے‘ ان کے سحر سے باہر نکلیں۔ ان ماہرین نے اپنے سابقہ آقاؤں کو جس حال تک پہنچایا ان کی عبرت کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان اپنے اُن دوستوں سے رائے حاصل کریں جو ان کو اس وقت بھی دانش مندانہ رائے دیتے رہے جب اِن آئینی ماہرین کا تعلق عمران خان صاحب سے نہیں تھا۔ فارن فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017 ء کی دفعہ 204 واضح ہے‘ جس میں غیرملکی فنڈنگ کے حوالے سے درج ہے کہ کوئی سیاسی جماعت بالواسطہ یا بلاواسطہ چندہ یا عطیات کسی غیرملکی حکومت‘ ملٹی نیشنل کمپنی‘غیر ملکی فرد‘غیر ملکی فرم یا پروفیشنل سے حاصل نہیں کر سکتی۔ اسی طرح دفعہ 210 کے تحت پارٹی اپنے اکاؤنٹ کی آڈٹ رپورٹ الیکشن کمیشن کو بھجوانے کی پابند ہے‘ جو پارٹی کے سیکرٹری جنرل یا چیئرمین کی وساطت سے بھجوائی جاتی ہے‘ جس کے تحت پارٹی کے صدر یا ان کے مجاز نمائندہ کو تحریری طور پر حلف نامہ دینا ہوتا ہے کہ ان کی پارٹی نے کسی بھی ذرائع سے غیرملکی فنڈز حاصل نہیں کیے اور پارٹی نے جو بھی فنڈز عطیات کی صورت میں حاصل کئے ہیں وہ قانون کے عین مطابق ہیں اور ایسے ذرائع سے یہ فنڈز حاصل نہیں کئے جن کی قانون نے ممانعت کی ہے۔ اسی طرح الیکشن ایکٹ 212 شق (C)میں واضح طور پر درج ہے کہ فارن فنڈنگ میں ملوث سیاسی جماعت جو سیکشن 204 اور 210 کی زد میں آئے‘ کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 212 کو آئین کے آرٹیکل 17 کی پشت پناہی حاصل ہے کہ ایسی سیاسی جماعت جو غیر ملکی کمپنی‘ فرد‘ ادارے یا غیرملکی حکومت سے فنڈز‘ عطیات یا چندہ وصول کرے ایسی سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے اور ایسی سیاسی جماعت کے بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نوٹیفکیشن اور ریفرنس کی صورت میں وفاقی حکومت کارروائی کرنے کی مجاز ہے۔ اسی طرح الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 213 کے تحت متاثرہ سیاسی جماعت کے ارکان پارلیمنٹ اور لوکل گورنمنٹ کے ارکان کی رکنیت کالعدم قرار دے دی جائے گی‘ لیکن اس فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے مشروط کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی توثیق کے بعد ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے۔ 
اصولی طور پر تحریک انصاف نے اپنے جو اثاثہ جات الیکشن ایکٹ 2017 ء کی دفعہ 204 اور پرانے الیکشن قوانین پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 ء کے آرٹیکل 13 کے وقت جمع کرائے تھے ‘پارٹی کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے لاپروائی اور قوانین سے نابلد ہوتے ہوئے جمع کراکے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ حالیہ دنوں میں وزیر اعظم نے نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کو لے کر عدلیہ کے حوالے سے جو کچھ کہا‘ اس کے مضمرات بھی کسی سے اوجھل نہیں‘ بہرکیف وقت کا تقاضا ہے کہ تمام اداروں میں ہم آہنگی برقرار رہنی چاہیے اور وزیراعظم عمران خان عدلیہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے احتیاط کا دامن تھامے رکھیں‘ کیونکہ پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ملک کے ذہین ترین آئینی دانشور اور اعلیٰ ترین جج ہیں۔ اعتدال پسندی ان کی شخصیت کا حصہ ہے‘ حالانکہ اسی طرح کے ریمارکس سابق وزیراعظم نواز شریف نے اکتوبر 1997ء میں چیف جسٹس ریٹائرڈ سجاد علی شاہ کے ایک فیصلے پر دئیے تھے اور اس پر برہمی کا اظہار کیا تھا‘ جس پر چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں