"KDC" (space) message & send to 7575

آرمی ایکٹ میں ترمیم اور آرٹیکل 243

آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر عدالت عظمیٰ نے روشن مثال قائم کرتے ہوئے پارلیمانی جمہوری نظام کے لیے رہنما اصول کی بنیاد رکھ دی ہے۔ پوری دنیا میں یہی طرز عمل رائج ہے ‘ اسی کا تسلسل جمہوریت کا احسن عمل ہے اور اسی کی وجہ سے وہ بحران پیدا ہونے سے قبل ہی ٹل گیا جس کا اندیشہ محسوس کیا جا ر ہا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست کا مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے ان کی ملازمت میں عبوری طور پر چھ ماہ کی توسیع کر دی‘ جس کا اطلاق 28 نومبر سے ہو گا اور اس ضمن میں قانون سازی 28 مئی 2020ء تک کرنا ہو گی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف‘ فوج کے چیف ایگزیکٹو اور تمام امور کے ذمہ دار ہیں‘ اس لیے عدالت نے بہتر سمجھا کہ ان کی ملازمت میں توسیع کا معاملہ وفاقی حکومت اور پارلیمنٹ کے سپرد کیا جائے اور وفاقی حکومت آئین کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت کے تعین‘ توسیع‘ دوبارہ تقرری اور دیگر معاملات کے لیے قانون سازی کرے‘ جبکہ عدالت چھ ماہ بعد قانون سازی کا جائزہ لے گی۔
کوئی شک نہیں کہ ریاست اور عوام کے مابین طے شدہ عمرانی معاہدہ یعنی آئین کسی بھی ملک کی مقدس ترین دستاویز ہوتی ہے؛ تاہم ایسا بھی نہیں کہ اس میں کسی ابہام کا احتمال ہی نہ ہو۔ پارلیمان کا تو بنیادی فریضہ ہی آئین کا نفاذ اور آئین میں حالات و ضروریات کے تحت ترمیم کرنا ہے۔ آئین میں ایسا کوئی سقم تھا اور عدلیہ نے اس کی نشاندہی کر کے اپنا فرض پورا کیا‘ تاکہ ابہام دور کیا جائے اور آئندہ اس حوالے سے یعنی ان معاملات میں کوئی دشواری پیدا نہ ہو‘ لہٰذا عدالتی فیصلے سے نہ صرف بحران کا خدشہ دور ہو گیا بلکہ خود عدلیہ نے اس کا حل بھی تجویز کر دیا ہے‘ جبکہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کو بھیجنے سے اس کا تقدس بھی اجاگر ہوا ہے اور اس کی قدر بڑھی ہے۔ دوسرا یہ کہ قانون کے نہ ہونے کے باوجود افواجِ پاکستان کے سربراہ کو قانون بنائے جانے تک توسیع دے دی گئی ہے‘ جو خوش آئند ہے۔
آرٹیکل 243 میں ترمیم کرنے‘ آرمی ایکٹ میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں آرمی چیف کی مدت کے حوالے سے شق شامل کرنے اور اس کے آگے رولز 255 میں مناسب ترمیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ ایکٹ بنانے کے لیے حکمران جماعت کو تمام پارلیمانی جماعتوں سے گفت و شنید کرنا ہو گی لیکن یہاں جناب وزیر اعظم کے رویے اور کچھ باتوں کی وجہ سے اپوزیشن کے ہاتھوں میں پاکستان کی سیاست کا رخ نئے موڑ کی طرف موڑنے کا پارلیمانی ہتھیار آ گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے فلور پر یہ معاملہ زیر بحث آنے پر حکمران جماعت کو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف‘ سابق صدر آصف علی زرداری‘ مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی جماعتوں سے براہ راست مذاکرات کرنا ہوں گے‘ لیکن حالات و واقعات سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اغلباً حکومتی ترجمانوں کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ اپوزیشن کے خلاف سخت رویہ جاری رکھا جائے تاکہ محاذ آرائی طول پکڑتی جائے۔ مقتدرِ اعلیٰ یقیناً ان تمام پہلوؤں کی عکس بندی کر رہی ہو گی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم نے اپوزیشن پر نریندر مودی سے ساز باز کرنے کے الزامات لگائے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ان جملوں کو دہرایا جو سوشل میڈیا پر ان کے خلاف اسی طرز پر کہے گئے۔ یہ ایک خطرناک مہم جوئی کا حصہ محسوس ہوتا ہے۔ ان حالات میں حکمران جماعت آرمی ایکٹ اور اس سے وابستہ آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی؟ حکمران جماعت کے آئینی ماہرین کو ادراک نہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے میں آرمی ایکٹ کو آئین کے آرٹیکل 243 سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ پاکستان کے انتہائی حساس ادارے کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم انتہائی ضروری ہے کیونکہ آرمی ایکٹ میں کسی وقت بھی من پسند ترمیم کر کے نئے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیتے ہوئے اپنی خواہشات کے مطابق ترمیم کرنے کا راستہ کھلا رہے گا‘ یہی شاید حکمران جماعت کی خواہش ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کو غالباً آئین و قانون کا ادراک نہیں‘ لیکن وہ بہترین منظم اور پاکستان کے صفِ اول کے رہنما ہیں۔ کامیاب سیاست دان کی پشت پر خیر اندیش آئینی ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے‘ جبکہ وزیر اعظم عمران خان ایسی کسی آئینی ٹیم سے محروم ہیں۔ ان کے ارد گرد جو آئینی ماہرین کا جم غفیر ہے وہ آئین کی باریکیوں سے نا بلد ہیں اور اسی وجہ سے ان کی جانب سے میگا غلطیاں سرزد ہوئیں‘ جس سے خود صدرِ پاکستان مواخدے سے بال بال بچے اور اس کا کریڈٹ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو جاتا ہے‘ جنہوں نے الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تقرری کیس کی سماعت میں جو فیصلہ دیا‘ اس میں صدرِ مملکت کے بارے میں ایسے ریمارکس سے احتراز کیا جن سے ان کے مواخذے کی راہ نکلتی‘ جبکہ اس کے برعکس سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز چیف جسٹس نے حکومت کی نا اہلی اور صلاحیتوں پر بین السطور مہر لگا دی۔
اسی پس منظر میں اپوزیشن جماعتوں اور کسی حد تک بعض اتحادی جماعتوں کو ایوان میں ان ہاؤس تبدیلی کا سنہرا موقع حاصل ہو گیا ہے۔ اس وقت اپوزیشن کی تعداد 158 ہے اور بعض اتحادیوں‘ جو وزیر اعظم سے مایوس ہیں‘ کی شمولیت بھی یقینی نظر آ رہی ہے۔ اس طرح اپوزیشن کی تعداد بظاہر 164 تک پہنچ جائے گی اور آئینی ترمیم کے لیے حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت کا نشان دور دور تک نظر نہیں رہے گا‘ متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) نے لازمی طور پر مقتدرہ طاقت کے حق میں اپنا وزن ڈالنا ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ق) نے بھی۔ حکمران جماعت کو آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم کرنے کے لیے آئینی طور پر پارلیمان میں تنے ہوئے رسے پر سے گزرنا ہو گا اور معمولی سی غفلت سے گرنے کے امکانات ہیں۔ مقتدر حلقے‘ جن کے قومی اور ریاستی مفادات اس ترمیم سے منسلک ہیں یقینا حکمران جماعت کے اندرونی سازشی کرداروں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہوں گے۔ اب عسکری قوتوں‘ ہر فرد اور ادارے کے لیے لمحہ فکریہ ہو گا کہ جو حکمران جماعت 36 لفظوں پر مشتمل ایک نوٹیفکیشن سنجیدگی سے تیار نہیں کر سکتی وہ ملک کے حساس اور خارجہ پالیسی جیسے مشکل ترین معاملات کو کیسے ڈیل کر ے گی؟ ان کی اس نا اہلی کی وجہ سے سی پیک‘ پاک افغان تعلقات اور کشمیر اور لداخ جیسے حساس معاملات بھی خطرے کی زد میں ہیں۔ 
حکمران کی باریک بینی کیا ہوتی ہے‘ اس حوالے سے میں ایک اہم تاریخی دستاویز کا حوالہ دیتا ہوں کہ جولائی 1972ء میں شملہ مذاکرات کے دوران معاہدہ شملہ طے پایا تو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے عیار اور بین الاقوامی امور کے ماہر پی کے دھرن نے خطِ متارکہ کے بجائے لائن آف کنٹرول میں تبدیل کرتے ہوئے ''دی لائن آف کنٹرول‘‘ لکھا تو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے قلم سے ''دی‘‘ حذف کر دیا اور لائن آف کنٹرول کو چھوٹے حروف میں لکھ دیا۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے شاطرانہ مسکراہٹ سے پوچھا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ تو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخی جملہ دہراتے ہوئے کہا: دی لائن آف کنٹرول کا مطلب ہے کہ پاکستان نے لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر منظور کر لیا ہے‘ اس لیے ''دی‘‘ کو حذف کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول کو چھوٹے حروف میں لکھا ہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا‘ اُس وقت تک اس کی حیثیت عبوری اور خط متارکہ کی سی رہے گی۔
لگتا یہ ہے کہ اپوزیشن ریاست کے وسیع تر مفاد میں آرمی ایکٹ اور آئین کے آرٹیکل 243 میں ترامیم کرنے میں رکاوٹ نہیں بنے گی‘ لیکن ان کے ذہن میں جو فارمولا ہے اس کے تحت شاید اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کی تبدیلی کا مطالبہ کرے اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اپوزیشن ممکنہ طور پر عمران خان کو آڑے ہاتھوں لے گی۔ جب تقدیر کی چکی چلتی ہے تو بہت باریک پیستی ہے‘ وزیر اعظم عمران خان سے قوم بڑی توقعات لگائے بیٹھی ہے‘ انہیں ایسے وزرا کو فوراً فارغ کر دینا چاہیے جو ریڈ لائن کراس کر چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں