"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی ہم آہنگی اور قومی مفاد

پارلیمنٹ میں بعض اہم امور بشمول آرمی چیف کی مدتِ منصب میں توسیع سے متعلق آئینی اور قانونی ترمیم کے معاملات چل رہے ہیں‘ جن کے لیے حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں میں مثالی ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنا ریاست کے مفاد میں ہے‘ تاہم لندن میں نواز شریف فیملی کی رہائش گاہ کے سامنے احتجاج کے واقعے نے سیاسی کشیدگی میں خاصی حد تک اضافہ کردیا ہے اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ محمد آصف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے حکومتی قائدین کے خلاف بھی ایسے ہی اقدامات کرنے اور پارلیمنٹ میں قانون سازی کیلئے حکومت کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس بیان کی عملی صورت میں ملک شدید سیاسی بگاڑ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے ۔وزیراعظم نے جلتی پر تیل کا کام یوں کیا کہ نوجوانوں کو بدعنوانوں کا تعاقب کرنے کی ترغیب دی‘ مگراس قسم کی تحریک سے سیاسی کشیدگی کا باعث بننے والے لندن جیسے واقعات ہی رونما ہوں گے۔
وزیراعظم عمران خان اپنے مقابل کسی متبادل کو نہیں دیکھ رہے ‘ تاہم سیاسی رواداری کا دامن تھام کر بھی مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں‘ ذاتی انتقام کا تاثر دلانے والی سیاسی کشیدگی اور محاذآرائی کی فضا تو ان عناصر کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو سکتی ہے‘ جنہیں جمہوریت پسند نہیں آ تی۔اس فضا میں اگر جمہوریت کی بساط پھر لپیٹے جانے کی نوبت آگئی تو اس کا حکومت ہی کو زیادہ نقصان ہوگا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ حکومت کرپشن کا تدارک اور عوام کو ریلیف یقینی بنا کر جمہوریت پر عوام کا اعتماد مضبوط کرے‘ کیونکہ جمہوریت کمزور ہونے سے ملک کمزور ہوگا تو اس کی ذمہ داری حکمران جماعت پہ ہی آئے گی۔ پارلیمان کے اندر اور باہر بالخصوص قومی سطح پر متحرک سیاسی جماعتوں کو طے کر لینا چاہیے کہ ملک کے سیاسی نظام کو کس حد تک لے کر جانے کی ضرورت ہے۔برسراقتدار تحریک انصاف اور اس کی ہم خیال سیاسی جماعتیں حزب اختلاف کی مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی ‘ جمعیت علمائے اسلام‘ جماعت ِاسلامی‘ ایم کیو ایم‘ اے این پی اور دیگر جماعتیں اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ سسٹم کو لپیٹنے کی باتیں عملی شکل اختیار کر گئیں تو اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔
یہ سسٹم یا نظام ہی دراصل وہ شاخ ہے جس پر حزب ِاقتدار و اختلاف کی جماعتوں کا بسیرا ہے۔ عام آدمی کے روزوشب اور معمولات ِزندگی پر تو سیاسی اور غیر سیاسی نظامِ حکومت کا شاید کوئی اثر نہ پڑے‘البتہ سسٹم ضرور اس سے بری طرح متاثر ہو گا اور جمہوریت کا راگ الاپنے والی اصلی اور جعلی آوازوں کا دم ضرور گھٹ جائے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ پارلیمان میں موجود سیاسی عناصر پارلیمان کے تقدس‘عوامی توقعات‘ قومی وقار اور استحکام کے تقاضوں کو مدنظر رکھیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ اور ارکان کی تقرری اور چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ِ منصب کے معاملے پر قانون سازی در اصل سیاسی قوتوں کی دانش کا امتحان بھی ہے اور پارلیمان کی بالادستی اور جمہوریت کے استحکام کو یقینی بنانے کا تاریخی موقع بھی۔ سیاسی قوتوں نے اس موقع کو عدم برداشت اور مخالفانہ سوچ کے باعث ضائع کردیا تو قوم ان کو مسترد کر دے گی۔
میرے خیال میں وزیراعظم کو اپنے اہم اتحادی پاکستان مسلم لیگ (ق) کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے‘ کیونکہ بظاہر ان کے ارادے پنجاب میں مسلم لیگ کی مشترکہ حکومت بنانے کے ہیں اور ان کی خواہش اور منصوبہ بندی یہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان مسلم لیگ( ق )مشترکہ طور پر ضم ہو کر ایک نئی سیاسی قوت تشکیل دیں اور پنجاب کے موجودہ سسٹم کو تبدیل کر کے گڈگورننس کی بنیاد رکھ دی جائے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پاکستان مسلم لیگ (ن)‘مسلم لیگ کی کولیشن بنانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے اسے رجسٹرڈ کروانا چاہیں تو ماضی میں ایسی مثال موجود ہے جب پاکستان مسلم لیگ (ق) میں دیگر اہم جماعتیں مثلاً پاکستان مسلم لیگ فنکشنل ‘ پاکستان مسلم لیگ ضیا الحق‘ پیپلزپارٹی شیرپاؤ گروپ اور دیگر جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ق) میں ضم ہو کر پاکستان مسلم لیگ کے نام پر اکٹھی ہوگئی تھیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پاکستان مسلم لیگ کے نام پر رجسٹرڈ ہوئی تھیں‘ جس کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین ہیں۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ ایسے ہی منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے اسی سوچ پر کام ہورہا ہے ‘ کیونکہ دونوں جانب کی مسلم لیگوں کے اہم رہنماؤں نے مجھ سے اس کی قانونی حیثیت کے بارے میں رائے لی تھی۔ میرا مؤقف یہ تھا کہ پہلے مجھے اس کا ابتدائی ڈرافٹ دکھایا جائے تب اس پر قانونی رائے دی جا سکتی ہے۔مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ابتدا میں پنجاب میں اہم تبدیلی ہونی ہے‘ اوراصل معاملہ پنجاب کی چیف منسٹری کا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ( ن) کی خواہش ہے کہ ان کی جماعت سے وزیراعلیٰ منتخب کیا جائے کیونکہ موجودہ صوبائی اسمبلی ان کے166 سے زائد ارکان براجمان ہیں۔ اب اگر شہباز شریف‘ جو اَب عملًا نواز شریف کے اثر و سحر سے نکل چکے ہیں‘ 1993ء والے منظور وٹو فارمولا پر عمل کرتے ہیں تو پھر پرویز الٰہی کو وزیراعلی منتخب کراناہوگا‘اور پنجاب میں مشترکہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اگر پرویزالٰہی وزیراعلیٰ منتخب ہوجاتے ہیں تو پنجاب ترقی کی دوڑ میں دیگر صوبوں سے آگے نکل جائے گا۔
سندھ اسمبلی نے چھٹی مردم شماری پر تھرڈ پارٹی آڈٹ کے لیے پیش کردہ ایک قرارداد‘ جسے ایوان کے تمام پارلیمانی گروپوں کی تائید حاصل تھی‘ متفقہ طور پر منظور کر لی۔ اس قرارداد کا پس منظر یہ ہے کہ 2017ء کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ سے کچھ زائد ہے‘ ان اعدادوشمار کو ماہرین درست قرار دیتے ہیں‘ لیکن سیاسی جماعتیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حکومت سندھ نے تو مردم شماری کے ابتدائی نتائج ہی کو مسترد کردیا تھا۔ الزام یہ تھا کی وفاقی حکومت نے قومی مالیاتی ایوارڈ میں حصہ نہ بڑھانے کے لیے سندھ کی آبادی کو کم ظاہر کیا ۔ دوسرا مؤقف کچھ یوں ہے کہ شہری آبادیوں کا دباؤ بڑھ رہا ہے‘ پورے ملک سے آبادی کراچی منتقل ہورہی ہے ‘ تاہم شہر کی آبادی میں گزشتہ 17 برس میں صرف 60 فیصد اضافہ دکھایا جارہا ہے جو منطقی اور عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں کثیرمنزلہ عمارتیں موجودہیں۔ پورے ایشیا میں سب سے زیادہ کچی آبادیاں یہاں ہیں‘ حکومت سندھ نے انہی خدشات کو نواز دور کی اسمبلی‘ سینیٹ اور حکومت کے سامنے رکھا تھا‘ تب بھی سندھ حکومت کے تحفظات کو نظرانداز کر دیا گیا۔ دیگر صوبوں سے بھی کراچی کی جانب نقل مکانی ہو رہی ہے۔ آبادی کا دباؤ بے تحاشا بڑھنے کی وجہ سے پورے شہری کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ یہ متفقہ قرارداد اس امر کی متقاضی ہے کہ وفاقی حکومت مردم شماری پر سندھ کے تحفظات کو دور کرے۔ اب مشترکہ مفادات کونسل کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ قومی مردم شماری کے نیٹ ورک کو شفاف بنانے کے لیے تھرڈ پارٹی آڈٹ کروایا جائے۔ 2018 ء کے انتخابات عبوری مردم شماری کے گزٹ پر کروائے گئے تھے اور آئین کے آرٹیکل 51میں عبوری قومی مردم شماری کی رپورٹ پر حلقہ بندیوں کے نتیجے میں کراچی تین نشستوں سے محروم ہو گیا تھا ‘ جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب کی فاضل سات نشستوں کی تقسیم میں اصولی طور پر کراچی کے عوام کے مفادات کو نظر انداز اور ایک نشست اسلام آباد کیلئے مختص کرتے ہوئے باقی صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو الاٹ کردیں‘جبکہ اصولی طور پر یہ نشستیں کراچی منتقل ہونی چاہئے تھیں۔میں نے اپنے کالموں میں مسلسل اس ناانصافی کے بارے میں آواز اٹھائی‘ لیکن وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے مسلسل خاموشی اختیار کئے رکھی کہ اس طرح کراچی کے اردو بولنے والوں کو فوائد حاصل ہونے کے امکانات تھے۔ 
بادی النظر میں قومی مردم شماری نے نادرا کے اصولوں کو مدنظر رکھا‘ اب اگر مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے تھرڈ پارٹی سے آڈٹ کرایا جاتا ہے تو قومی اسمبلی کی نشستوں کے بارے میں جو ابہام پایا جاتا ہے اس کے ازالے کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی اور حتمی مردم شماری کے لیے گزشتہ نوٹیفکیشن کی روشنی میں کراچی کے لیے قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ناگزیر ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں