"KDC" (space) message & send to 7575

پرویز مشرف کیس اور فیصلے کے نتائج

سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے نے ملک میں بے چینی کی صورت حال پیدا کردی ہے۔ خصوصی عدالت کی طرف سے سابق صدر پرویز مشرف کو آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت کا حکم سنایا گیا ہے ۔ خصوصی عدالت کی جانب سے آئین معطلی کے جرم میں سابق صدر مملکت اور سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو دی گئی سزائے موت پر پاک فوج کے ترجمان نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کو افواجِ پاکستان نے شدید اضطراب سے لیا ہے ‘کیونکہ پرویز مشرف آرمی چیف‘ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور ملک کے صدر رہے ہیں۔ انہوں نے 40 برس سے زائد عرصہ ملک کی خدمت کی اور دفاعِ وطن کے لیے جنگیں لڑیں‘ وہ یقینا کبھی غدار نہیں ہو سکتے‘نیز فیصلہ صادر کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل میں ضروری قانونی تقاضے اور ذاتی دفاع کے بنیادی حقوق کو نظر ا نداز کیا گیا۔ کیس میں آئینی اور قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کیے گئے۔
ملکی عدالتی تاریخ میں چونکہ یہ پہلا کیس تھا جس میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سابق صدرِ مملکت اور آرمی چیف کو موت کی سزا سنائی گئی‘ اس لیے اس فیصلے پر ملک بھر کے قانونی‘ آئینی اور سیاسی حلقوں میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہونا فطری اَمر تھا۔ اٹارنی جنرل انور منصور ‘ وفاقی وزرا اور حکمران جماعت نے بھی اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا ۔ شیخ رشید نے تو جذباتی انداز میں یہاں تک کہہ دیا کہ اس فیصلے سے فاصلہ بڑھے گا اور ان کو اس فیصلے کی بنیاد پر حالات خراب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں‘ کیونکہ قوم کی طویل عرصہ خدمت کرنے والے سابق صدر مملکت اور پاک فوج کے سپہ سالارپر غداری کا لیبل لگایا گیا ‘ جس سے قومی ادارے کے تشخص اور وقار پر حرف آیا ہے۔
یہ کیس انتہائی غیر معمولی نوعیت کا ہے ‘جس کے فیصلے سے ملک کی سیاست اور انصاف کی عملداری پر دور رس نتائج مرتب ہونے ہیں۔ خصوصی عدالت کے روبرو تین الگ الگ درخواستیں دائر کی گئی تھیں‘ ان میں ایک اعتراض یہ ہے کہ اس کیس میں پرویز مشرف کے سہولت کاروں‘ کابینہ کے ارکان اور دوسرے متعلقین کو ملزم نامزد نہیں کیا گیا‘ جب کہ آئین کے آرٹیکل 2(1) (6) کے تحت ایسا کیا جانا ضروری تھا۔ اسی درخواست میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز‘ سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس (ر)عبدالحمید ڈوگر کے ناموں کا حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کا بھی پرویز مشرف کے ساتھ ہی ٹرائل ہونا ضروری ہے‘ مگر خصوصی عدالت نے یہ آئینی تقاضا پورا نہیں کیا‘ چونکہ مشرف کیس کے فیصلے پر پاک فوج کی جانب سے ایک قومی ادارے کے طور پر تشویش اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے‘ جس میں جنرل مشرف کی ملک و قوم کے لیے بے پایاں خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے‘ اس لیے اس کیس میں ایک قومی ادارے کے تحفظات کا ازالہ ضروری ہے۔ اگر اس معاملے میں قومی اداروں کے مابین کسی قسم کی غلط فہمی پیدا ہوتی ہے تو یہ ملک کی بقا و سلامتی کے حوالے سے خوشگوار صورتحال نہیں ہوگی۔ ایسے ہائی پروفائل کیس کے میرٹ کے ساتھ ساتھ ملکی اور قومی مفادات کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ اس کیس میں خصوصی عدالت کے فیصلے سے بطورِ ادارہ پاک فوج کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ اس ہائی پروفائل کیس میں خصوصی عدالت کے معزز ججز نے آئین کے آرٹیکل (2)(1)(6) کی روح پر بھی عملدرآمد نہیں کیا‘ کیونکہ جنرل مشرف نے ایمرجنسی 3نومبر 2007ء کو لگائی تھی‘ تب آرٹیکل 6 میں لفظ '' آئین کی معطلی ‘‘شامل ہی نہیں تھا ‘یہ لفظ 10 اپریل 2010ء کواٹھارہویں ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا ‘جبکہ آئین کے آرٹیکل 12 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کوئی فوجداری قانون ماضی سے نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ 
اس کیس کے عوامل دیکھیے کہ چوہدری نثار علی خان نے جب جنرل مشرف کے خلاف 18 نومبر 2013 ء کو آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا تب چیف جسٹس افتخار چودھری کے بحیثیت چیف جسٹس 23 دن باقی تھے‘ اب جب خصوصی عدالت نے فیصلہ سنایا تب (اُس وقت کے) چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ میں تین دن باقی رہ گئے تھے اور جسٹس آصف سعید کھوسہ سے منسوب ایک بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ چند دنوں میں ایک اہم فیصلہ آنے والا ہے‘ لیکن انہوں نے خود سے منسوب اس بیان کی تردید کردی۔
3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی لگاتے ہوئے صدر پرویز مشرف نے اپنی نشری تقریر میں کہا تھا کہ ان کو وزیر اعظم شوکت عزیز نے سمری بھجوائی تھی کہ وفاقی حکومت کو مفلوج کرکے سنگین صورتحال پیدا کردی گئی ہے اور وفاق کے مفاد میں ایمرجنسی لگائی جارہی ہے۔پرویز مشرف نے کہا تھا کہ 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے حالات میرے سامنے آئے تھے‘ اسی شام چھ بجے وزیراعظم ہاؤس سے کال آئی کہ وزیراعظم وفاقی سیکریٹریز کو چائے پر مدعو کر رہے ہیں‘ لہٰذا جب میں وہاں پہنچا تو ریڈ زون پر جنگ کی کیفیت کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ آرمی کے بکتربند دستے وہاں موجود تھے اور وزیراعظم ہاؤس میں پراسرار خاموشی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ہم خصوصی کوچزکے ذریعے ایوانِ صدر پہنچے تو رات 8 بجے صدرِ مملکت نے جسٹس عبدالحمید ڈوگر سے چیف جسٹس کے طور پر حلف لیا اور بعد ازاں چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے جسٹس فقیر محمد کھوکھر‘ جسٹس نواز‘ جسٹس فیاض اور جسٹس بُٹر نے بطور جج سپریم کورٹ کے حلف لیا ۔ اسی تقریب میں وائس چیف آف سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ وفاقی وزرا بشمول وزیراعظم‘ اسلام آباد میں مقیم تمام سفارتکار موجود تھے اور اسی دوران صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا جس کے تحت تمام ججز کو بشمول چیف الیکشن کمشنر کے ازسرنو حلف اٹھائے جانے کے احکامات صادر کیے گئے تھے تو مجھے چیف الیکشن کمشنر قاضی محمد فاروق نے واضح پیغام دیا تھا کہ وہ بطور چیف الیکشن کمشنر حلف نہیں اٹھائیں گے اور مستعفی ہونا ان کے لیے اعزاز ہوگا۔ میں نے صدر پرویز مشرف کو وزیراعظم شوکت عزیز‘ وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور طارق عزیز کی موجودگی میں چیف الیکشن کمشنر کے تحفظات سے آگاہ کر دیا‘ انہوں نے فوری طور پر چیف الیکشن کمشنر کو دوبارہ حلف لینے سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کے احکامات جاری کر دیے اور 4 نومبر 2007ء کو چاروں ہائی کورٹس میں ججز سے ازسرنو ایمرجنسی آرڈر کے تحت حلف لیا گیا اور بیشتر جج حضرات حلف نہ اٹھانے سے گریز کرتے ہوئے مستعفی ہوگئے‘ جن میں جسٹس آصف سعید کھوسہ‘ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس سردار محمد رضا بھی شامل تھے۔
3 نومبر کی ایمرجنسی کی بعد ازاں سپریم کورٹ نے توثیق کر دی تھی اور پارلیمنٹ نے بھی اس پر تصدیقی مہر لگا دی تھی اور اسی ایمرجنسی کے سائے تلے 22 نومبر 2007ء کے الیکشن کا شیڈول جاری کیا گیا۔ملک بھر سے ریٹرننگ آفیسرز کا تقرر عمل میں لایا گیا اور 28 نومبر کو ہی وائس چیف آف سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بطور چیف آف آرمی سٹاف کے کمان سنبھالی اور ایمرجنسی اٹھانے سے بیشتر ہی قومی انتخابات کے تمام امیدواروں کے کاغذات نامزدگی بھی منظور کیے گئے۔بہرکیف سابق صدرپرویزمشرف کو سنائی جانے والی سزا سے ملک میں بے یقینی کی فضا پیدا ہوئی ہے اور موجودہ ملکی حالات میں اس کے گہرے اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔ اس تناظر میں حالات نمایاں طور پر کشیدہ معلوم ہوتے ہیںاور اداروں میں سخت جذبات اُبھر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں