"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ‘ آئینی ترمیم کی ضرورت

جمہوری نظام کی یہ بنیادی خوبی ہے کہ اس میں تمام اہم فیصلے فردِ واحد کی بجائے پارلیمنٹ کے ذریعے عددی اکثریت کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔ چونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان جمہوری نظام کے تسلسل میں اہم کردار کا حامل ہوتا ہے‘ اس لیے اس کے چیئرمین اور اراکین کی تقرری کا فیصلہ بھی حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی باہمی مشاورت سے طے پاتا ہے‘ تاہم چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار محمد رضا کی مدتِ ملازمت رواں ماہ (دسمبر 2019ء) میں پوری ہونے کے باوجود تاحال چیف الیکشن کمشنر اور دیگر ارکان کی تقرری کے معاملے پر حکومت اور حزبِ اختلاف میں اتفاق رائے پیدا نہ ہوسکا۔ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کمیٹی کا شیڈول اجلاس ملتوی کرکے پینل اراکین نے آئندہ اجلاس کے حتمی ہونے کی امید ظاہر کی تھی۔وزیرا عظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے مابین روبرو ملاقات کی بجائے خط وکتابت کاتبادلہ ہوتا رہا اور ناموں پر اتفاق نہ ہونے کے بعد یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیا گیا۔ وہاں بھی اتفاق نہ ہو سکا‘ بعد ازاں صدرِ مملکت نے اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے دو نشستوں پر تقرری کردی‘ جسے چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا نے آئین کے آرٹیکل 213 کا سہارا لیتے ہوئے مسترد کردیا اور اپوزیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں صدر کے صوابدیدی اختیارات کو چیلنج کر دیا‘ جس کے نتیجے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود پارلیمان ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ 
بادی النظر میں یہی نظر آرہا ہے کہ مجوزہ پارلیمانی کمیٹی کی ناکامی کے بعد اب 28ویں آئینی ترمیم کے ذریعے مستقل طور پر حل نکل آئے گا۔ 28ویں ترمیم کے ذریعے اٹھارہویں ترمیم میں مزید ترمیم کر کے پرانے سسٹم کوہی اپنانا ہوگا ‘جس کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر اور ارکانِ الیکشن کمیشن کا تقرر صدرِ مملکت اور چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے کیا جائے گا کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت کو برقرار رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ مئی 2013ء کے انتخابات سے پیشتر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چاروں ارکان کا تقرر آئین کے آرٹیکل 213 سے مطابقت نہیں رکھتا تھا اور ان کے تقرر پر اُس وقت کے پارلیمانی لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان کا تقرر کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 213 کو مدنظر نہیں رکھا اور 22 فروری 2013ء کو ڈاکٹر طاہرالقادری نے ان ارکان کی تقرری کے خلاف آئینی پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل کردی تھی‘ تاہم اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈاکٹرطاہرالقادری کی آئینی پٹیشن کو خارج کرتے ہوئے ان کو دُہری شہریت کا حامل غیر ملکی قرار دیا تھا اور کسی غیرملکی کو پاکستان کے کسی آئینی ادارے کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا جواز نہیں بنتا۔ اسی طرح جب 2017ء میں موجودہ الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر کیا گیا تو ان کے خلاف جسٹس وجیہہ الدین نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کردی‘ جس کے مطابق ''الیکشن کمیشن کے ارکان آئین کے آرٹیکل 207 کے مطابق ‘الیکشن کمیشن کے ارکان بننے کے اہل ہی نہیں ‘ ان کے بارے میں فیصلہ سندھ ہائیکورٹ نے ہی کرنا ہے‘ لیکن بادی النظر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اب دوراہے پر کھڑا ہے‘‘۔ تجویز یہی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور ارکان ِالیکشن کمیشن کے تقرر کیلئے اٹھارہویں ترمیم سے پہلے کا طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے چاروں صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت کے بعد صدر ِمملکت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آئینی تقرریوں کو مکمل کرائیں ۔3 نومبر 2007ء کو جنرل پرویز مشرف کی نافذ کردہ ایمرجنسی کے فوراً بعد چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چودھری نے سپریم کورٹ میں موجود غالباً سات ججز کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے سپریم کورٹ اور چاروں ہائی کورٹس کے ججوں کو ایمرجنسی آرڈر کے تحت ازسرنو حلف نہ لینے کا فیصلہ سناتے ہوئے فرمان جاری کردیا کہ نئے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے توہینِ عدالت کے مرتکب ہوں گے۔ اب اگر اس فیصلے کو دیکھا جائے تو رات گئے تک چیف جسٹس آف پاکستان کا فیصلہ چاروں ہائی کورٹ تک لے جانے کیلئے راستے ہی محدود تھے اور تحقیق کی جائے تو چشم کشا واقعات سامنے آئیں گے کہ بعض ججز فیصلے کے وقت موجود ہی نہیں تھے۔ ان سے سات نومبر کو دستخط کرائے گئے بعض ججز کے بورڈنگ کارڈ بھی دیکھنے کا موقع ملا‘ اس رات وہ چیف جسٹس کی عدالت میں موجود ہی نہیں تھے۔
پاکستان کے چیف جسٹس (ر) عبدالحمید ڈوگر اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس افتخار حسین اور دیگر ججز نے اس فیصلے کے خلاف مزاحمت بھی کی۔ بعد میں مفاہمت اور مصالحت کے تحت یہ ججز چیف جسٹس افتخار چودھری کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے گوشۂ عافیت میں چلے گئے اور بعض سینئر ججز اس وقت کی انتظامیہ سے منت سماجت کرکے اہم پوسٹوں پر بھی فائز ہوگئے۔ اسی دوران وفاقی سیکریٹری انصاف و قانون جسٹس یاسمین نے چیف جسٹس (ر) افتخار چودھری کے خلاف جوڈیشل کمیشن کونسل میں ریفرنس بھیجا‘ جس میں بقول ان کے چیف جسٹس افتخار چودھری کا 3 نومبر کی شام کا فیصلہ جعلی اور حقائق کے برعکس تھا‘ صدر آصف علی زرداری نے ان کا بھیجا ہوا ریفرنس سپریم کورٹ آف پاکستان کو نہیں بھجوایا کیونکہ وہاں پر چیف جسٹس افتخار چوہدری خود موجود تھے۔ بعدازاں وہ ریفرنس غالبا تحلیل ہوگیا۔ اب اگر جنرل مشرف اپنے دفاع میں مزید حقائق بیان کریں گے تو ان کو جسٹس(ر) یاسمین کے ریفرنس کو بھی اہم دستاویزات کے طور پر اپنی صفائی میں منسلک کرنا چاہیے اور اب وقت آن پہنچا ہے‘ انصاف کی گھنٹیاں بج رہی ہیں‘ لہٰذا 130 ججز‘ جو جسٹس(ر) افتخار چوہدری کے انتقام کی بھینٹ چڑھ گئے تھے ‘ انصاف کے لیے ریفرنس دائر کریں۔ان معزول ججوں نے جنرل پرویز مشرف سے بھی رابطہ کیا تھا اور ان کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت کا بھی عندیہ دیا تھا‘ لیکن اس وقت کی طاقتور شخصیت ان کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ جنرل حامد جاوید کے ذریعے ان ججز کو پیغام پہنچایا گیا تھا کہ جنرل مشرف سے فی الحال لاتعلقی ہی رکھیں۔ 
قارئین کے علم میں لانا ضروری ہے کہ 130 ججز‘ جسٹس ریٹائرڈ افتخار چودھری کے غیض و غضب کے شکار ہوگئے‘ لیکن پشاور ہائی کورٹ کے جرأت مند اورایماندار جج جہانزیب افتخار چوہدری کے دباؤ میں نہیں آئے اور معزول ہونا قبول کر کے تمام مراعات سے دستبردار ہوگئے‘ لیکن وہ جسٹس (ر)افتخار چودھری کے فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے عدالت جاتے رہے‘ جہاں ان کو انصاف نہیں مل سکا۔ واضح رہے کہ پشاور ہائیکورٹ کے جج جہانزیب کے ہی ریفرنس پر صدر پرویز مشرف نے جسٹس افتخار کے خلاف ریفرنس بھیجوایا تھا‘کیونکہ جسٹس جہانزیب کے خاندانی کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج شاکراللہ جان نے مداخلت کی تھی اور چیف جسٹس افتخار چودھری نے جسٹس شاکراللہ جان کے ایما پر جسٹس جہانزیب کے خلاف ریفرنس بھیجوانے کی کوشش کی تھی۔ اسی دوران جسٹس جہانزیب نے صدر مملکت پرویز مشرف کو چیف جسٹس(ر)افتخار چوہدری کے خلاف اہم آئینی دستاویزات فراہم کیں۔اسی دوران افتخار چوہدری نے 8 مارچ 2007ء کو صدر مملکت پرویز مشرف سے الارمنگ ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور جنرل پرویز مشرف نے ان کو 9 مارچ 2007ء کی صبح ساڑھے گیارہ بجے ملاقات کا عندیہ دیا اور چیف جسٹس صاحب ہنگامی طور پر اپنے بنچ کی کارروائی کو مؤخر کرتے ہوئے آرمی ہاؤس پہنچے‘ جہاں جنرل پرویز مشرف نے ان کے خلاف جوڈیشل ریفرنس تیار کررکھا تھا اور اندرونی سازش کے تحت اس جوڈیشل ریفرنس کو آئین و قانون اور آرٹیکل 209 کے مطابق تیار ہی نہیں کرایا گیا تھا اور مس ہینڈلنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل پرویز مشرف وکلا کی تحریک کی زد میں آ کر اقتدار سے محروم ہو گئے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں