"KDC" (space) message & send to 7575

نیب قوانین ،ترمیم سے کیا حاصل ہو گا؟

قومی احتساب بیورو کے ضابطہ کار پر اپوزیشن کو تحفظات تھے‘ جنہیں بظاہر دور کرنے کے لیے حکومت نے یکطرفہ طور پر نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کر کے اعتراضات اور تنقید کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ دونوں جانب اس ترمیم کے اپنے اپنے مطلب کے معانی اخذ کئے جارہے ہیں۔ ترمیمی آرڈیننس کی وضاحت کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے اس تاثر کو گمراہ کن قرار دیا کہ اس اقدام کا مقصد احتساب عمل کو ختم کرنا‘ کسی کو این آر او کی صورت میں سہولتیں فراہم کرنا یا حکومتی پارٹی کے حامیوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جہاں کرپشن ہوگی وہاں نیب ہوگا‘ مگر اس کرپشن کو ثابت کرنا ہوگا۔ کرپشن یا کمیشن کے ثبوت نہ ہوں تو کسی پبلک آفس ہولڈر یعنی بیوروکریٹس‘ ارکانِ اسمبلی یا وزرا کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال پر کیس نہیں بن سکے گا اور اس کا فیصلہ عدالتیں کریں گی کہ کس کس کو اس ترمیم کا فائدہ مل سکے گا ۔بقول ان کے‘ جن کیسز میں ریفرنس بن چکے ہیں ان میں بھی کرپشن یا کمیشن کے ثبوت نہیں تو ملزموں کو عدالتوں سے ریلیف ملے گا۔ یہ ریلیف نیک نیتی سے کیے جانے والے فیصلوں پر سیاستدانوں کو بھی ملے گا۔ اس مقصد کے لیے نیب میں چلنے والے اکثر مقدمات دیگر عدالتوں میں منتقل ہوجائیں گے کیونکہ کرپشن سے ہٹ کر تمام معاملات نمٹانے کے لیے الگ الگ ادارے قائم ہیں‘ انہیں یہ کام خود کرنا چاہیے۔ معاون خصوصی برائے احتساب کا کہنا تھا کہ کاروباری برادری اور بیوروکریٹس کے اعتماد کی بحالی کے لیے نیب ترمیم ضروری تھی۔ 
دوسری جانب کے حلقوں کا ماننا ہے کہ قومی احتساب بیورو کے اختیارات پر قدغن لگا کر اور بیوروکریٹس‘ بزنس کمیونٹی اور سیاستدانوں کو قومی احتساب بیورو کے شکنجے سے آزاد کرکے کرپشن کے دروازے کھول دیے گئے ہیں ۔ اس حوالے سے حکومتی ترجمانوں کا یہ کہنا کہ نیب کے اختیارات کم نہیں کیے گئے بلکہ اس کے کام کو آسان کر دیا گیا ہے‘ فریب کے سوا کچھ نہیں۔ اصولی طور پر آرڈ یننس ہنگامی صورت سے نبردآزما ہونے کے لیے جاری کئے جاتے ہیں ‘ تاہم احتساب بیورو کے قوانین کے لیے ایسی ہنگامی صورتحال کا سامنا نہیں تھا کہ ترمیمی آرڈیننس جاری کرنا پڑتا ۔ماہرین اور میڈیا کے غیر جانبدار حلقے متفق ہیں کہ نیب قانون میں ترمیم آرڈیننس کے ذریعے نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں بحث مباحثہ کے بعد کی جانی چاہیے تھی۔ میری ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ ترمیمی قانون سے اپوزیشن جماعتوںکے سیاستدانوں کو فائدہ پہنچے گا‘ حکمران جماعت کے بعض افراد کے خلاف انکوائریاں ختم ہوجائیں گی اور سروس آف پاکستان کی کیٹیگری میں آنے والے سول سرونٹس کے خلاف بھی قومی احتساب بیورو براہ راست کارروائی نہیں کر سکے گا‘ تاہم حکومتی مؤقف یہ ہے کہ نئے قانون کے نفاذ کے بعد بھی اپوزیشن پارٹیوں کی قیادت کو بدستور نیب کیسز کا سامنا رہے گا ان پر منی لانڈرنگ‘ جعلی اکاؤنٹس اور اثاثوں کے کیسز برقرار رہیں گے۔
اپوزیشن کے خدشات اور قانونی ماہرین کی آرا اپنی جگہ مگر اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت نے نیب کے ترمیمی آرڈیننس کے معاملے میں اپوزیشن سے مشاورت نہیں کی‘ نہ ہی پارلیمنٹ کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ آرڈیننس کی مدت چار ماہ ہے اور اس دوران اسے لازماً پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنا ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ انہوں نے دوستوں کے لیے نیب کو بے اثر کر دیا ہے‘ تنقید کا جواز نہیں کیونکہ انہوں نے بزنس کمیونٹی سے خطاب کے دوران بے تکلفی سے ایسے الفاظ ادا کردیئے‘ جس کے بین السطو ر میں یہی معنی اخذ کئے جائیں گے کہ وزیراعظم عمران خان نے ملک کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر اس معافی کا اعلان کیا ہے‘ جسے تاجر برادری اور ماہرین معیشت ملکی معاشی صورتحال کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا قرار دے رہے ہیں۔
بزنس کمیونٹی تو ہر حکومت کی دوست ہوتی ہے اور محض کہنے سے دوستوں کو نوازنے کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔البتہ اس میں شک نہیں کہ نیب ترمیمی آرڈیننس سے ادارے کے اختیارات میں خاصی کمی ضرور آگئی ہے اور یہ باور کیا جا رہا ہے کہ قانون میں ترمیم کے بعد نیب کا کردار 60 فیصد تک کم ہوگیا ہے۔ قومی احتساب بیورو کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2018ء‘ جو نیب کے سربراہ نے صدر مملکت کو پیش کی‘ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ادارے کی جانب سے جن کیسز میں تحقیقات کی جارہی تھیں ان کا 60 فیصد حصہ اختیارات کے غلط استعمال کے متعلق تھا جبکہ صرف چھ فیصد مقدمات آمدنی سے زائد اثاثوں کے تھے۔ قومی احتساب بیورو کے ترمیمی آرڈیننس کے مطابق اب اختیارات کے غلط استعمال کو ایک طرح سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ کرپشن کی تعریف اس انداز سے تبدیل کر دی گئی ہے کہ عالمی معیار کے مطابق بھی یہ تعریف ناقابل قبول ہو گی۔ اختیارات کے غلط استعمال کی سابقہ تعریف کو تبدیل کرکے یہ کردیا گیا ہے کہ یہ صرف اسی صورت جرم ہوگا جب اس کا ثبوت موجود ہوکہ اس سے ذاتی فائدہ اٹھایا گیا ہے یا کسی اور کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔تاہم سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جمہوری حکومت پارلیمان کی بجائے آرڈیننس سے قانون سازی کر رہی ہے۔ اب قوم کو ادراک ہوجانا چاہیے کہ بیوروکریسی‘ کاروباری شخصیات‘ سیاسی رہنما سب اپنے اپنے مفاد میں قانون سازی کے خواہش مند ہیں ‘ انہیں ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد سے کوئی غرض نہیں‘ نہ اس کی فکر کہ یہ ملک بد عنوانی اور غربت کی وجہ سے دنیا بھر میں مخصوص شناخت حاصل کر چکا ہے‘ اور عوام کی محرومیوں کا بنیادی سبب اوپر کی سطح پر پائی جانے والی بدعنوانی ہے۔
اب ایک جائزہ موجودہ سیاسی صورتحال کا‘ اور اس میں قابل ذکر یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو ایم کیوایم اور سردار اختر مینگل سے کھلے تضاد کا سامنا ہے‘ اُدھربلاول بھٹو زرداری نے آصف علی زرداری کی حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کو سندھ حکومت میں اتحاد اور وزارتوں کی پیشکش کر دی ہے جس پر متحدہ قومی موومنٹ نے مشروط آمادگی کا اظہار بھی کیا ہے‘ تاہم متحدہ قومی موومنٹ کے بعض اہم رہنماؤں کا یہ بھی مؤقف ہے کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے طرز عمل سے مایوس ہوکر وہ عمران خان کی حکومت میں شامل ہوئے اور متحدہ قومی موومنٹ والے تحریک انصاف کے مشروط اتحادی ہیں‘ لیکن وعدے پورے نہیں کیے گئے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم اور سردار اختر مینگل کی پارٹی کو حکومت بحران کے وقت ہی اہمیت دیتی ہے ؛چنانچہ حالیہ دنوں بھی جہانگیر ترین کو دونوں سیاسی قوتوں سے مذاکرات کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے ترپ کے پتے سے متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت فی الحال دو حصوں میں تقسیم دکھائی دیتی ہے‘ جس سے کراچی میں اُردو بولنے والوں کی اکثریت اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہو گی ۔متحدہ قومی موومنٹ نے اگر جامع اور ٹھوس پالیسی اختیار نہ کی تو سندھ کے شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے وجود کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور اُردو بولنے والوں کی کثیر تعداد جائے امن کے لیے پیپلزپارٹی میں مدغم ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کے لیے 2019ء کیسا سال رہا‘یہ کوئی راز کی بات نہیں‘ اتحادیوں کے وعدے‘ دعوے صرف انتظار بن کر جگمگاتے رہے‘ جبکہ ایم کیو ایم اس دوران تنظیمی طور پر کیسے دگر گوں حالات سے گزری ‘ یہ بھی سب کے سامنے ہے۔
2019 ء کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سو سے زائد مقدمات نمٹائے۔ فاٹا کے ادغام کے بعد آٹھ اضلاع میں 16 صوبائی نشستوں پر انتخابات کرانے کے علاوہ عام انتخابات 2018 کی رپورٹ شائع کی اور آئندہ کے لئے اپنا پانچ سالہ منصوبہ بھی حکومت کو بھجوایا۔اس سال الیکشن ٹریبونلز کی کارکردگی بھی متاثر کن رہی‘ لیکن عدالتی وجوہ کی بنا پر تحریک انصاف کا غیر ملکی فنڈنگ کا مقدمہ ابھی جائزہ کمیٹی کے پاس زیرغور ہے۔ تحریک انصاف کے غیر ملکی فنڈنگ کیس کے بعد ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھ سکے گا‘تاہم ان دنوں غیر ملکی فنڈنگ کیس کے فیصلے پر شدید دھند چھائی ہوئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں