"KDC" (space) message & send to 7575

حکومت ‘اپوزیشن افہام و تفہیم، وقت کا تقاضا

جمہوریت میں سیاسی مشاورت سے گریز دراصل جمہوریت سے گریز کے مترادف ہے کہ اس عمل میں سب کی صائب رائے کو اہمیت دیتے ہوئے معاملات کو حل کیا جاتا ہے۔اگرچہ ایسا ہمارے ہاں کم ہی نظر آیا لیکن قومی نوعیت کے معاملات پر حکومت اور حزبِ اختلاف کے متحد ہونے کے بعض مظاہر بھی ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بھارت کی بالاکوٹ میں جارحیت کا واقعہ ہی دیکھ لیں‘ پوری پارلیمان یکسو ہو کرافواج پاکستان کی ہمنوا دکھائی دی۔ملک کو درپیش دیگر اندرونی و بیرونی چیلنجز بھی ایسے ہیں کہ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے اتحاد و یگانگت اور افہام و تفہیم وقت کا تقاضا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس امر کا ادراک کرتے ہوئے گزشتہ دنوں سرکاری افسروں سے خطاب میں اسی عزم کا اظہار کیا تھا‘ لیکن ان کے ترجمانوں نے پوائنٹ سکورنگ کیلئے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنانے کی روش جاری رکھی۔ ان کے ترجمانوں میں مختلف خیالات اور نظریات سے جڑے لوگ موجود ہیں۔ وزیراعظم کو اپنے ان ترجمانوں کو سبکدوش کرنا ہو گا۔ اصولی طور پر وزارتِ اطلاعات ونشریات کے مشیر یا وفاقی وزیر ہی حکومتی پالیسی کے ترجمان ہوتے ہیں۔ اس طرح وزیراعظم آفس میں بھی ایک ہی ترجمان ہونا چاہیے جو وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی طرح حکومتی پالیسی پر سرکاری مؤقف پیش کرے۔ سابق حکمرانوںنے بھی بہت سے ترجمانوں کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں جس کی وجہ سے ان کو زوال دیکھنا پڑا‘ جبکہ صدر آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں حکومتی ترجمانوں کی بھرمار نہیں تھی‘ وزیر اطلاعات ہی ترجمان تھے۔ موجودہ حالات میں جبکہ ملک معاشی مسائل کے گرداب سے نکلنے کی سعی میں ہے‘ غربت بڑھتی جا رہی ہے‘ مہنگائی نے عوام کی قوتِ خرید پر کاری ضرب لگائی ہے‘ سیاسی ماحول سازگار نہیں‘ اختلافات بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں اور بے یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں‘ وزیراعظم کی طرف سے سیاسی مشاورت کی بات احسن اقدام ہے۔ سنجیدہ حلقوں کا استدلال ہے کہ آرمی ایکٹ 2020ء کی منظوری کے بعد ازسرنو نئے عمرانی معاہدے کے لیے گرینڈ مذاکرات کا آغاز وزیراعظم پاکستان کو کرنا چاہیے‘ تبھی حقیقی مثبت تبدیلی کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔ پارلیمنٹ اب دوراہے پر کھڑی ہے‘ عوام دیکھنا چاہتے ہیں کہ پوری پارلیمان انہیں کیسی مثبت تبدیلی فراہم کرتی ہے۔
آرمی ایکٹ 2020ء میں ترامیم کی منظوری کے طریقہ کار کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس پر ووٹنگ زبانی ہو گی‘ قواعد کے تحت اس پر خفیہ رائے شماری کی ضرورت نہیں۔ قومی اسمبلی قواعد کا پانچواں شیڈول موڈ آف ڈویژن فراہم کرتا ہے‘ جس کے مطابق جب اقلیت ڈویژن( تقسیم) کی خواہش کرتی ہے اور سپیکر مطمئن ہوتا ہے کہ یہ مطالبہ قواعد کا غلط استعمال نہیں تو وہ ڈویژن کرانے کا حکم دے گا اور ہدایت دے گاکہ ڈویژن کی گھنٹیاں دو منٹ کے لیے بجائی جائیں تاکہ وہ ارکان جو اپنے چیمبر میں موجود ہیں وہ واپس اپنی جگہوں پر چلے جائیں۔ گھنٹیاں رکنے کے بعد لابیوں کے تمام راستوں پر تعینات عملہ ڈویژن اختتام پذیر ہو جانے تک کسی کو بھی اندر آنے یا باہر جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ پھر سپیکر قومی اسمبلی کے سامنے تحریک کی شرائط پڑھے گا اور دوسری مرتبہ سوال رکھے گا۔ اگر اب بھی ڈویژن کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ کہے گا کہ ''Yes‘‘ والے دائیں جانب اور ''No‘‘ والے بائیں جانب تقسیم ہو جائیں۔ جو ووٹ دینا چاہتے ہیں وہ Yes یاNo کی لابیوں میں چلے جائیں اور سپیکر کی جانب سے مقرر کئے گئے Teller(بتانے والوں) کے سامنے ایک فائل پیش کریں گے۔ Teller کے ڈیسک پر پہنچ کر ہر رکن بدلے میں تقسیم کا عدد پکارے گا جو اس مقصد کے لیے دیا گیا ہو گا۔ اس کے بعد Teller اس نمبر کو ڈویژن لسٹ میں شامل کر دیں گے اور ساتھ ہی ممبر کا نام بھی پکاریں گے‘ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ اس کا ووٹ صحیح طریقے سے ریکارڈ کیا گیا ہے وہ رکن اس وقت تک نہیں جائے گا جب تک وہ واضح طور پر Teller کی جانب سے پکارا جانے والا اپنا نام سن نہ لے۔ ہر رکن کو دئیے گئے ڈویژن نمبر سے الگ سے آگاہ کیا جائے گا۔ ہر رکن کے سیٹ کارڈ پر بھی وہ نمبر لگا دیا جائے گا۔ جب ڈویژن لابیوں میں رائے شماری کا عمل مکمل ہوگا توTeller سیکرٹری قومی اسمبلی کو ڈویژن لسٹ فراہم کریں گے جو ریکارڈ کیے گئے ووٹس کو شمار کرے گا اور پھر Yes اورNo کے کل ووٹس سپیکر کو پیش کرے گا۔ ڈویژن کی رائے شماری کے نتیجہ کا اعلان سپیکر قومی اسمبلی کریں گے اور اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جائے گا ‘ یہی طریقہ سینیٹ میں بھی اپنایا جائے گا۔
اس مشکل ترین مرحلے سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ وزیراعظم پارلیمانی جماعتوں کے حزب اختلاف کے ارکان کو باقاعدہ بریفنگ کیلئے اپنے چیمبر میں مدعو کریں اور آرمی ایکٹ 2020ء میں ترامیم کی منظوری کیلئے اتفاق رائے کا جذبہ اجاگر کریں۔ اپوزیشن نے اپنی جاندار حکمت عملی سے پارلیمانی اقدار اپنانے پر اصرار کیا ہے‘ لہٰذا وزیراعظم کو فخر امام کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں‘ وہ قومی اسمبلی کے تمام قواعد وضوابط بخوبی سمجھتے ہیں۔ دراصل اپوزیشن آرمی ایکٹ میں ترامیم پر بحث محض اس لیے کرانا چاہتی ہے کہ اپوزیشن آرمی ایکٹ 2020ء کی ترامیم کی منظوری سے بیشتر حکومت پر شدید تنقید کرنے اور 19 اگست کے نامکمل نوٹیفکیشن‘ جس سے قومی ادارے کی سبکی ہوئی اور چیف جسٹس(ر) آصف کھوسہ کے ریمارکس کو اپنی بحث میں لانا چاہتی ہے‘ تاکہ حکومت کی نااہلی کا پردہ چاک کیا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ اپوزیشن کی شدید تنقید کو حکومتی ارکان ہضم نہیں کر پائیں گے اور ایوانوں میں شدید محاذآرائی ہوگی۔ ان حالات میں وزیراعظم کی حکمت عملی یہی ہونی چاہیے کہ اپوزیشن کی تنقید کو خندہ پیشانی سے سنتے رہیں۔ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو میڈیا میں نظر آنے کے لئے ماحول کو گرمانے کی کوشش کریں گے۔ گزشتہ سال سیاسی‘ معاشی اور عدالتی اعتبار سے ہنگامہ خیز رہا‘ احتساب کے عمل نے سیاسی دھند میں بے پناہ اضافہ کیا اور پارلیمنٹ کی بالادستی برائے نام رہی۔ عدالتی اُفق پر آرمی چیف کی توسیع اور جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزاکے فیصلے نے ارتعاش پیدا کیا۔ مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ نے حکومت کو کمزور کردیا۔ حکومت اور اپوزیشن میں جاری کشیدگی میں مزید شدت آئی۔ وزیر اعظم نے اپنے انتخابی نعرے کے پیش نظر اپوزیشن کے خلاف سخت رویہ رکھا۔ سیاسی محاذآرائی‘ مہنگائی‘ بیروزگاری اور جرائم کے سدباب پر فیصلہ کن اقدامات سامنے نہیں آئے۔ کشمیر کی اندوہناک صورتحال رہی؛ تاہم وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں کشمیر پر اپنے خطاب میں قومی اور ملی اُمنگوں کی بھرپور ترجمانی کی۔ سیاسی استحکام کسی بھی ملک کی سماجی ترقی اور معاشی استحکام کی اولین ضرورت ہے لیکن پاکستان کے معروضی حالات پر نظر ڈالی جائے تو ملک اس وصف سے محروم دکھائی دیتا ہے۔ سیاسی درجہ حرارت کافی اوپر چلا گیا ہے‘ لیکن اس نارمل سطح پر لانے کیلئے کسی طرف سے نہ تو کوئی قابل ذکر کوشش کی جارہی ہے اور نہ ہی کوشش کی کامیابی کیلئے حالات سازگار ہیں۔ ترقی یافتہ جمہوری معاشروں میں پارلیمنٹ ایسا ادارہ ہے جو مختلف نقطہ ہائے نظر کو ایک دوسرے کے قریب لانے کیلئے مؤثر پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے‘ لیکن ہمارے ملک میں اسے بروئے کار لانے کی کوئی کاوش نظر نہیں آتی۔ ان حالات میں ملکی معاملات اور مسائل پارلیمنٹ میں لائے جائیں‘ یہی معاشی استحکام کا تقاضا ہے۔ قوم درست طور پر یہ سمجھتی ہے کہ ملک کو 60 سالوں کے سیاسی مغالطوں‘ جمہوری مبالغہ آرائی‘ منافقت‘ ریاکاری اور جمہوریت سے انحراف کاخمیازہ بھگتنا پڑا ہے؛ چنانچہ لازم ہے کہ اہلِ اقتدار سیاست میں اجتماعیت اور قومی مفاد کو پیش نظر رکھیں‘ کشیدگی‘ محاذآرائی سے گریز کریں اور کشادہ دلی سے جمہوری رویوں کو فروغ دینے کی مثالیں قائم کریں۔
پنجاب میں حکومتی امور میں بہتری کی بجائے مسائل پیدا ہونا شروع ہوچکے ہیں‘ اور تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی غضنفر عباس کی قیادت میں آٹھ اضلاع کے ناراض ارکان صوبائی اسمبلی نے وزیر اعلی عثمان بزدار پر عدم اعتماد کردیا ہے اور ان کی تعداد بڑھتے ہوئے 20 ارکانِ صوبائی اسمبلی تک پہنچ چکی ہے۔ ان ارکانِ اسمبلی کا مؤقف ہے کہ وزیراعلیٰ بیوروکریسی کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں اور وزیراعظم کی نئی بیوروکریسی ارکانِ صوبائی اسمبلی کی تضحیک کررہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں