"KDC" (space) message & send to 7575

آرمی ایکٹ کی منظوری سے قومی فضا پر مثبت اثرات

امریکا ایران کشیدگی میں پاکستان کو بہرصورت اپنے مفادات کی پاسداری کرنا ہوگی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ سی پیک کو سبوتاژ کرنا امریکہ اور بھارت کا مشترکہ ایجنڈا ہے‘ اسی لیے پاکستان کو امریکہ ایران کشیدگی میں غیر جانبداری کی پاسداری کرنا ہوگی جو امریکہ کے جنگی اتحاد کے کردار سے گریز ہی میں ممکن ہوسکتی ہے۔یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنے سرکاری پیغام میں واضح طور پر باور کرادیا ہے کہ کسی کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ آج ہمیں قومی مفادات کی ترجمانی کرنے والی ایسی ہی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اس خطے میں ہماری سلامتی سے متعلق ہمارے مفادات چین اور ایران کے ساتھ وابستہ ہیں اور ہمیں اپنی سلامتی اور قومی مفادات کی ہی نگہبانی کرنی ہے۔اگر امریکہ ہمارے خلاف بھارتی جنگی جنون کی بھی حوصلہ افزائی کر رہا ہے اور ایران کے ساتھ کشیدگی میں بھی بالخصوص ہماری سلامتی کے لیے خطرات پیدا کر رہا ہے تو ہمیں اس کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے والا گھاٹے کا سودا ہر گز نہیں کرنا چاہیے ۔ ہمیںاپنی سلامتی اور اقتصادی استحکام کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر امریکہ کے ساتھ تعاون کے معاملہ پر کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ایران کو ان دنوں داخلی خلفشار کا سامنا ہے۔جنرل قاسم سلیمانی کے جاں بحق ہونے سے ان کے آپریشن بھی متاثر ہوں گے۔ نئی صورتحال میں امریکہ پاکستان سے کوئی فرمائش کر سکتا ہے ‘ تاہم وزیر اعظم عمران خان کو ایران کی مذہبی اور سیاسی تحریک کا 1979ء سے جائزہ لینا ہوگا اور جاننا ہو گا کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات کی نوعیت کیا تھی۔یاد رہے کہ شہنشاہ رضا شاہ پہلوی پاکستان کے سیاسی اور جنگی بحران میں پاکستان کی پشت پر کھڑے رہے ۔ انہوں نے صدر ذوالفقار علی بھٹو کو سفارتی سطح پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ مشرقی پاکستان کی قیادت کو اقتدار سپرد کرنا جمہوری طریقہ ہے اور مشرقی پاکستان کے بعد جب صدر ذوالفقارعلی بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کو لائل پور کی ڈسٹرکٹ جیل سے رہا کرنے کا فیصلہ کیا تو شہنشاہ رضا شاہ پہلوی شیخ مجیب الرحمن سے ملنے کے لیے کراچی پہنچ چکے تھے‘ لیکن صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کچن کیبنٹ کے مشورے سے شیخ مجیب الرحمن کو رات کے اندھیرے میں لندن روانہ کر دیا اور شہنشاہ رضا شاہ پہلوی متحدہ پاکستان کا خواب بکھرتے ہوئے دیکھ کر واپس تہران چلے گئے تھے۔
ایران کا موجودہ نظام دو حصوں میں تقسیم ہے‘ سیاسی اور مذہبی۔ ایران کی سیاسی حکومت صدر کے زیرانتظام چلتی ہے جبکہ ملک کی مذہبی حکومت آیت اللہ کے ماتحت ہوتی ہے ۔یہی طریقہ کار سعودی عرب کی حکومت کی تشکیل کے وقت طے ہوا تھا‘ سیاسی عنانِ حکومت شاہ عبدالعزیز بن سعود اور ان کے شاہی خاندان کے سپرد رہی جبکہ مذہبی معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری شیخ عبدالوہاب کے ذمے تھی اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی حد تک اب تک کامیابی سے جاری و ساری ہے۔مشرق ِوسطیٰ کی صورتحال کوئی بھی کروٹ لے سکتی ہے اسی ضمن میں ایران سمیت تمام مسلم ممالک کو اعتماد میں لینا پاکستان کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ ان حالات میں پاکستان کو ماضی کے تجربات سامنے رکھتے ہوئے اپنے مفادات کے مطابق قومی اتفاق سے فیصلے کرنا ہوں گے۔ یہ عمران خان کی خارجہ پالیسی کا بہت بڑا امتحان ہے‘ ایک طرف امریکہ ہے تو دوسری طرف اسلامی اخوت کے رشتے میں بندھا ہوا ایک دوست اور ہمسایہ ملک ایران ہے جس نے مشکل وقتوں میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ہماری حکومت اس معاملے میں کردار ادا کرنے کی کوشش کر تو رہی ہے مگربدقسمتی سے اقتصادی بدحالی اور ملک میں سیاسی خلفشار کی وجہ سے پاکستان کا علاقائی اثر و رسوخ محدود ہے۔ 
داخلی تناظر میں بات کی جائے تو وزیراعظم عمران خان کی حکمت عملی کے تحت قومی اسمبلی نے آرمی ایکٹ 2020ء کے ترمیمی بل کی متفقہ منظوری دے دی ہے ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے آرمی ایکٹ کے ترمیمی بلز کی حمایت کرکے جمہوری طور پر درست فیصلہ کیا ۔ اس پس منظر میں تو چاہیے تھا کہ حکومت حزب اختلاف کی شکر گزار ہوتی ‘ مگر یہاں وہ انہیں طعنے دیتی دکھائی دیتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ حزب اختلاف پر تنقید کرنے والوں کو اہمیت نہ دیں اور باہمی مشاورت سے ملکی معاملات کو آگے لے کر جائیں۔مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف جب سے سیاست میں وارد ہوئے ہیں قومی اداروں کے ساتھ مفاہمت کے ساتھ چلنے کے حامی رہے ہیں۔ ان کی سوچ کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی‘ بلکہ جب ''مزاحمت‘‘ اپنے عروج پر اور'' اختلافات رائے‘‘ اپنے جوبن پر تھا تب بھی میاں شہباز شریف نے مفاہمت کی راہ اپنائی ہوئی تھی۔
میاں شہباز شریف ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے اپنی مفاہمت کی پالیسی کو لے کر آگے بڑھتے ہیں۔ 10 اپریل 1986ء کو جب بینظیر بھٹو اپنی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد لاہور وارد ہورہی تھیں اس وقت عوام کا جمِ غفیر ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھا۔اسی لیے میاں شہباز شریف نے پیپلزپارٹی کی فنڈ ریزنگ میں خفیہ طور پر حصہ لیا اور پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں سے رابطے میں رہے اور ان دنوں خبریں گردش کر رہی تھیں کہ میاں شہباز شریف پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں اور ان کو میاں شریف کی حمایت حاصل ہے ۔میاں شہباز شریف نے جہانگیر بدر (مرحوم) سے گہرے روابط رکھے ہوئے تھے اور اس سلسلہ میں جناب نذیر ناجی جو اُن دنوں نوائے وقت میں کالم لکھتے تھے‘ نے خوبصورت جملہ لکھا تھا کہ میاں شہباز شریف دونوں سیاسی جماعتوں کے اخراجات اُٹھارہے ہیں۔اسی طرح میاں شہباز شریف نے جنرل پرویز مشرف سے بھی بریگیڈیئر نیازاحمد کے توسط سے تعلقات قائم رکھے اور جنرل مشرف ان کے معصوم چہرے سے متاثر ہوکر ان کو وزیراعظم پاکستان بنانے کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔شہباز شریف اپنی گرفتاری کے موقع پر بھی مفاہمت کے حامی رہے۔ گرفتاری کے بعد بھی مفاہمت کے حامی رہے اور جیل میں بھی مفاہمت کے حامی رہے۔
اب پاکستان مسلم لیگ (ن) میں عنقریب اہم تبدیلیاں ہوتی نظر آرہی ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) میں شہباز شریف کا سیاسی فلسفہ غالب آ چکا ہے ۔ دانیال عزیز‘طلال چوہدری‘ آصف کرمانی‘ جاوید لطیف‘ سردارایازصادق‘ خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال مضبوط گروپ کی حیثیت سے سامنے آئیں گے‘ جبکہ مریم اورنگزیب وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی ہیں ۔ان کو بھی سائیڈ لائن کر دیا جائے گا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ بالواسطہ مقتدرہ کے خلاف بیانیہ تھا ‘جو پرویز رشید کی ذہنی اختراع کا نتیجہ تھا۔ بادی النظر میں ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کی اب کوئی وقعت اس لیے نہیں تھی کہ 2018ء کے انتخابات کو اپوزیشن نے کسی فورم پر بھی چیلنج نہیں کیا تھا اور خاموشی سے اپوزیشن لیڈر بھی منتخب ہوگئے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی عمران خان کی بے پناہ مخالفت کے باوجود مقرر ہوگئے ۔ بعدازاں نواز شریف کے لندن جانے سے پہلے مفاہمت کے نتیجہ میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین شپ سے مستعفی ہو کر رانا تنویر حسین کے لیے راہ ہموار کر دی گئی۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو پرویز رشید گروپ نے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ اسی نقصان کو ٹھیک کرنے میں بہت وقت لگے گا۔ میرے نزدیک آرمی ایکٹ پر ووٹ دینے سے بڑی تبدیلی آئے گی۔یہ مفاہمت کا نقطۂ آغاز ہے۔ اگر یوں سمجھ لیا جائے کہ آرمی ایکٹ کی حمایت کر کے شریف برادران کیلئے اقتدار کے ایوانوں کے دروازے کھل جائیں گے تو ایسا نہیں ہوگا ‘لیکن آرمی ایکٹ کی حمایت سے مذاکرات کے لیے مدد مل سکتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں