"KDC" (space) message & send to 7575

آرمی ایکٹ ، اپوزیشن کا مثبت کردار

قومی اسمبلی سے آرمی ایکٹ کے ترمیمی بل جس خوش اسلوبی سے منظور کیے گئے اس سے مختلف نوع کی قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوئی ہیں۔ جمہوریت کی تشریح کے نام پر اپنے ذاتی نام نہاد بیانیے کو عوام کے سامنے رکھنے والے چند سیاسی رہنماؤں نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی تھی کہ سیاسی جماعتوں میں عسکری اداروں کے ناقدین کی صف بندی موجود ہے۔تاہم وقت آنے پر تما بڑی سیاسی جماعتوں نے ثابت کر دیا کہ وہ ملکی مفاد کی پاسداری سے پیچھے نہیں ہیں۔اپوزیشن ارکان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اپنے بیانات اس طرح دیتے رہے کہ انتخابی عمل پر شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے اورملک کے ریاستی اداروں کی ساکھ مجروح ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا‘ مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ قائمہ کمیٹیوں اور قومی اسمبلی و سینیٹ سے آرمی ایکٹ خوش اسلوبی سے تمام ضروری مراحل سے گزر گیا ۔ موجودہ قومی اسمبلی میں بارہا ایسے مناظر دیکھے گئے جب اراکین ایک دوسرے کے خلاف ناشائستہ اور نامناسب انداز میں تنقید کرتے رہے‘ لیکن اس کے باوجود قوم کے اجتماعی مفاد کے فیصلے کا وقت آیا تو پارلیمنٹ نے اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دیا۔
قومی اسمبلی میں سروسز چیفس کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی قانون سازی سپریم کورٹ کی ہدایت پر کی گئی۔یہ ایک ایسا معاملہ تھا جو ماضی میں کئی بار رو بہ عمل آچکا تھا ‘مگر پارلیمنٹ نے اس پر قانون سازی نہ کرکے سنگین غفلت کا مظاہرہ کیا۔ آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری سے پارلیمنٹ اپنے بنیادی فرائض کی انجام دہی اور سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل میں سرخرو ہوگئی۔ پارلیمنٹ اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے پاکستان میں ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے۔ احتساب کا نظام ہر حکومت میں اپوزیشن کی نظر میں متنازع ہوجاتا ہے۔ ہر جماعت انتخابات میں برتری حاصل کرنے والی جماعت پر دھاندلی کا الزام عائد کرتی ہے ۔یہ معمول بن چکا ہے جس سے شاید اس الزام کی وقعت کم ہونے لگی ہے۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں متعدد بار حکومت میں رہ چکی ہیں‘ جبکہ تحریک انصاف سابق حکومت کے خلاف دھاندلی کے الزامات میں تحریک اور طویل دھرنے دے چکی ہے‘ یوں تینوں بڑی جماعتیں اگر جمہوریت سے وفا داری کا مظاہرہ کریں تو الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی کا زیرالتوا معاملہ بھی خوش اسلوبی سے حل ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے الیکشن کمیشن کے اختیارات اور انتخابی عمل کی شفافیت کے حوالے سے ایک جامع ترمیمی مسودہ پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت ہے‘ 2010ء میں پیپلزپارٹی نے اٹھارہویں آئینی ترمیم میں پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط بنانے کی کوشش کی مگر یہ ترمیم کچھ معاملات پر مزید غور وفکر چاہتی ہے ۔ ان سب کاموں کے لیے عوامی نمائندوں کو سنجیدہ اور مثبت طرز ِعمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ نظام کوئی بھی ہو اس کو مخصوص اداروں کے ذریعے ہی مضبوط اور مستحکم کیا جاتا ہے۔ہر قوم اور ریاست اپنی ضروریات کے لیے نئے نظام کے نقوش اجاگر کرتی ہے۔ پاکستان مدت سے سکیورٹی خطرات میں گھرا ہے‘ اس کی ضرورت ہے کہ کوئی باصلاحیت عسکری سربراہ جو خطے کے حالات میں پاکستان کو بحرانوں سے بچانے کے لیے کردار ادا کر سکتا ہے تو اس کی خدمات سے زیادہ مدت تک استفادہ کر لیا جائے؛چنانچہ آرمی ایکٹ میں ترمیم حالات سے ہم آہنگ فیصلہ ہے ‘جو قانون کی عمل داری کو نئے دائروں تک وسیع کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ آرمی ایکٹ کی حمایت سے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی سیاسی فائدہ حاصل کر چکی ہے‘ مگر فضل الرحمن فوائد اٹھانے کی صف میں شامل نہیں ہوئے۔آرمی ایکٹ کی منظوری سے اپوزیشن نے ریاست کے ساتھ وفاداری کا خوبصورت ثبوت دیا ہے اور 22 کروڑ عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے عسکری قوتوں کی پشت پر کھڑی ہوگئی ہے۔یوں حکومت اور اپوزیشن سرخرو ہو گئی ہیں۔جنرل قمر جاوید باجوہ عالمی حیثیت کے حامل جنرل ہیں‘ گزشتہ سال جولائی میں جب وہ واشنگٹن گئے تو روایات سے ہٹ کر انہیں 21 توپوں کی سلامی دے کر ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا گیا۔ موجودہ کشیدہ صورتحال میں پاکستان کو ایسے ہی جنرل کی قیادت کی ضرورت ہے۔
چند ہفتوں سے سوشل میڈیا پر غیر ملکی ایجنڈے کے تحت‘ ہماری مسلح افواج اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور اپوزیشن میں اختلاف پیدا کرنے کی راہ ہموار کی جارہی تھی۔ یہ تمام معاملہ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں اختتام کو پہنچا اور بارہ منٹوں میں اسمبلی سے بل پاس ہوا اور سینیٹ سے بھی اسی خوبصورتی سے پاس ہو گیا‘جو خوش آئندہے۔ اب پاکستان نے آرمی ایکٹ 52 میں ترامیم کر کے آرمی ایکٹ 2020ء کی صورت دے دی ہے۔اب سیاسی ہم آہنگی کی جانب بڑھنے کا وقت ہے ‘ اس لیے وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں۔ اپوزیشن کو جیل بھیجوانے کا وقت گزر چکا‘احتسابی ادارے ہی ان سے پوچھ گچھ کرنے کے مجاز ہیں‘ حکومتی رہنماؤں کا اس میں مداخلت کرنا یا دھمکیاں دینا زیب نہیں دیتا۔ وزیراعظم عمران خان کی احتسابی دھمکیاں ناکام ہوچکی ہیں اور قومی رہنما جیل میں ابھی تک مقدمات کی تواریخ ہی بھگت آ رہے ہیں۔ ان سے کھربوں روپے کی دولت واپس لینے کے سہانے خواب تصور ہی ثابت ہوئے ہیں۔ اب اپوزیشن کو برا بھلا کہنے اور گزشتہ حکومتوں کی کرپشن کے ذکر سے عوام کو سروکار نہیں ہے‘ اب عوام عمران خان کی گڈگورننس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان خوش اسلوبی سے حکومت کرنا چاہتے ہیں تو اپنے 80 کے لگ بھگ ترجمانوں کو فارغ کریں اور ایک ایسے ترجمان کو تعینات کریں جو ملکی اور بین الاقوامی امور کا گہراادراک رکھتا ہو۔ عمران خان کے موسمی پرندے ہمیشہ محاذآرائی پر خوش ہوتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے نااہل ترجمانوں کو فارغ نہ کیا تو چند ہفتوں میں ہی ترجمان اپوزیشن اور حکومت کے مابین حالات مزید خراب کرادیں گے اور نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ پھر مولانا فضل الرحمن فارمولا ہی بروئے کار لانا ہوگا۔ 
وزیراعظم عمران خان کے پارلیمنٹ میں متواتر آنے سے حالات کنٹرول میں رہیں گے اور وزرا کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی۔ اس مرحلے پر قومی اسمبلی کے سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کی یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ غیر حلف یافتہ معاونین خصوصی اور مشیران کو پارلیمنٹ کے فلور میں آنے سے روکنے کے لیے رولنگ دیں اور انہی مشیران کو پارلیمنٹ کے فلور میں بیٹھنے کی اجازت دیں جن کا تقرر آئین کے آرٹیکل 93کے تحت کیا گیا ہے ۔ آرٹیکل 93کے معیار پر پورا نہ اترنے والے مشیران قومی اسمبلی کا حصہ نہیں بن سکتے اور کبھی کابینہ کے اجلاس میں بھی بیٹھنے کے حقدار نہیں ہیں۔ وزیراعظم کو آئین کے آرٹیکل93 کی مکمل پاسداری کرنا ہوگی۔ ویسے ہی معاونین اور مشیران کی تقرری کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت آئینی پٹیشن داخل ہوچکی ہے ۔ان حالات میں الیکشن کمیشن کے دو ارکان اور چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے لیے حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی فہرستوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے افہام تفہیم سے نئی فہرستیں پارلیمانی کمیٹی کو پیش کریں۔چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کمیشن ایسے بیوروکریٹس کو لگانا چاہیے جو الیکشن کمیشن کی تمام حکمت عملی‘ رموز اور حساس معاملات سے مکمل ادراک رکھتے ہوں‘ تاکہ انتخابات کی غیر جانبداری قائم رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں