"KDC" (space) message & send to 7575

نئے اتحاد ‘ نئے امکانات

آرمی ایکٹ کی قانون سازی کے موقع پر نظر آنے والی پارلیمانی مفاہمت کے باوجود حکومت کیلئے سیاسی مسائل میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ پنجاب سے چودھری برادران بھی ایم کیو ایم کی طرح اپنے تحفظات کھل کر بیان کرنا شروع کر دیں۔ وہ ایم کیو ایم کے معاملے کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔ادھر بلوچستان سے سرداراخترمینگل بھی ناراض ہیں اورسندھ سے پیر پگاڑا بھی ناراض ہیں۔ ان حالات میں نئے اتحاد وجود میں آ سکتے ہیں اور بجٹ سے پہلے حکومت کیلئے نئی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے دست ِراست وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے ٹیلی ویژن چینل کے پروگرام میں بوٹ میز پر رکھ کر حکومت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچادیا ہے ۔اس حرکت پروزیراعظم عمران خان کو اسی شام کو اپنے وزیر کو وزارت سے ڈسمس کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دینا چاہیے تھا۔ وزیراعظم عمران خان کے تھنک ٹینک کی رہنمائی کے لیے تاریخی واقعہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مارچ 1972ء میں مرکزی وزارتِ اطلاعات و نشریات نے پاکستان ٹیلی ویژن پر 16 دسمبر 1971 ء کو سرنڈر کرتے اور انتہاپسندوںکے ہاتھوں تضحیک کا نشانہ بنتے نوجوانوں کے شاٹس دکھائے تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل گل حسن نے اُسی شام صدرمملکت اور سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کرکے پاکستان ٹیلی ویژن کے پروگرام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ‘ جس پر صدر بھٹو نے فوری طور پر مرکزی وزیر اطلاعات ونشریات عبدالحفیظ پیرزادہ کو وزارت سے سبکدوش کردیا اور مولانا کوثر نیازی کو وزارت اطلاعات و نشریات مقرر کیا گیا۔ حیرانگی اس امر کی ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے ابھی تک فیصل واوڈا کو وزارت سے الگ کیوں نہیں کیا؟ فیصل واوڈا کے رویے کے خلاف متحدہ اپوزیشن کو بھی آواز اٹھانی چاہیے‘ کیونکہ اپوزیشن نے ریاست کے مفاد میں آرمی ایکٹ 2020 ء میں ترامیم کو متفقہ طور پر منظور کرایا اور جن سیاسی جماعتوں نے کارروائی میں شرکت نہیں کی انہوں نے بھی پارلیمانی قواعد و ضوابط کے مطابق بل کی مخالفت میں ووٹ نہ دیئے ‘بلکہ رسمی طور پر لاتعلقی کا اظہار کیا۔ قانون کے مطابق ان کی خاموشی کو رضامندی ہی سمجھا جائے گا۔ اس طرح اپوزیشن نے تو قومی مفاد میں پختگی دکھائی جبکہ فیصل واوڈا کا طرز عمل غیر مناسب اور اپوزیشن کو اشتعال دلانے والا تھا۔
وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے طرز عمل کی وجہ سے دستوری ترمیم کی منظوری کے بعد حکمران اتحاد میں شامل چھوٹی جماعتوں نے حکومت سے لاتعلقی کے اشارے دینا شروع کر دیئے ہیں‘ جس سے تبدیلی کی قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی اندرونی طور پر خاموش بغاوت کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ایسے امکانات ہیں کہ خواجہ آصف عنقریب پارلیمانی لیڈر کے منصب سے سبکدوش ہو رہے ہیں اور رانا تنویر حسین بھی مخالفت کی زد میں ہیں‘ جبکہ شاہد خاقان عباسی اوراحسن اقبال بھی اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ ادھر پیپلز پارٹی میں فرحت اللہ بابر نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو تنقید کا نشانہ بناڈالا ہے۔ان حالات میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ حکومت کی ناراض اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف کے درمیان انتظامی‘ سیاسی اور انتخابی اختلافات میں کمی کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے ووٹرز کے دباؤ کی وجہ سے وزارت میں شامل ہونے سے صاف انکار کردیا ہے؛اگرچہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا‘ مگر مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہونے پائے گی‘ کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ کی گہری اور سیاسی نظریں پنجاب حکومت کے ممکنہ انجام پر لگی ہوئی ہیں‘جہاں مخلوط حکومت کے قیام کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں‘ جس نے وفاق اور پنجاب کی حکومت کے لیے ناخوشگوار صورتحال پیدا کر دی ہے۔
اس طرح وزیراعظم عمران خان کا حکومتی تجربہ کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ملک میں مہنگائی نے احتجاجی تحریک شروع کرنے کے امکانات پیدا کر دیے ہیں‘ جبکہ عمران حکومت کے وزراعوام سے مذاق کرتے ہیں کہ نومبر دسمبر میں لوگ زیادہ روٹی کھاتے ہیں ‘ جس کی وجہ سے آٹا مہنگا ہوا ہے‘ جبکہ ایک وزیر صاحب روٹی کے وزن میں کمی کو روٹی مہنگی نہ کرنے کا حل بتا رہے ہیں‘ نیز یہ کہتے ہیں کہ فلاں آٹا کھاؤ اور فلاں نہ کھاؤ۔ ایسے حالات میں وزیراعظم ایکشن لینے کی بجائے فقط مسکرا دیتے ہیں‘ لیکن اس صورتحال میں مرکزی اور پنجاب حکومت اور تحریک انصاف کے اندر مخلوط حکومت میں علیحدگی پسندی کی وجہ سے حکومت کمزور ہو چکی ہے۔اگرچہ پراسراریت کے پردے کی وجہ سے فوری طور پر اعتماد کا ووٹ لینے کی تحریک کا جواز پیدا نہیں ہو رہا‘ لیکن اتحادی اپنے مستقبل کے خطرات کی وجہ سے ناخوش ہیں اور آئندہ چند ہفتوں میں ان ہاؤس تبدیلی کے خدشات خارج از امکان نہیں ہیں۔ جہانگیر ترین‘ پرویز خٹک اور اسد عمر کی سیاسی نظریں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اندرونی طور پر ان کو بھی وزیر اعظم عمران خان کی پالیسیوں اور طرزِ عمل سے تحفظات ہیں۔ مجھے متحدہ قومی موومنٹ کے سرگرم رہنما ‘جو مذاکرتی ٹیم کا اہم حصہ ہیں نے بتایا ہے کہ حکومتی ٹیم ان کے جارحانہ‘ مثبت سوالنامے کا سامنا نہیں کر پائی اور ان کی بے چینی سے اظہار ہورہا تھا کہ وہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت سے ناخوش ہیں۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل ‘ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کی انتظامی کمزوریوںسے تحریک انصاف کی حکومت شدید دباؤ میںہے۔ وزیراعظم عمران خان نوازشریف کی لندن یاترا اور آصف علی زرداری کی کراچی روانگی سے خوش نہیں ہیں۔ ان کا کرپشن کے بارے میں جو نظریہ تھا وہ بادی النظر میں ناکام ہوچکا ہے اور دونوں بڑے خاندان کے سربراہ عمران خان کی بے بسی پر مسکرا رہے ہیں۔ میں نے گزشتہ ماہ اپنے کالم میں اشارہ دیا تھا کہ اپوزیشن کو پنجاب حکومت تبدیل کرنے کے لیے صرف 12 ووٹ درکار ہیں‘ جبکہ مسلم لیگ (ق) کے 10 ارکان اور پیپلزپارٹی کے آٹھ کے لگ بھگ وزرا کو ملا کر چوہدری پرویز الٰہی عثمان بزدار کی حکومت کو چند گھنٹوں میں گرانے کی پوزیشن میں ہیں؛چنانچہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کیلئے راہ ہموار ہو سکتی ہے۔صوبے میں آٹے کا شدید بحران‘ بیوروکریسی کے اندرونی حلقوں میں اختیارات کی کشمکش‘ گورنر پنجاب سے مشاورت اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے سے گریز‘ان حالات میں پاکستان مسلم لیگ (ق) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تعاون سے چوہدری پرویز الٰہی آسانی سے پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے کی پوزیشن میں ہیں۔ 
تحریک انصاف کے 20 سے زائد صوبائی اسمبلی کے ارکان ‘ عثمان بزدار کے شاہانہ اخراجات اور اپنے دفتر اور بیڈ رومز کے لیے مہنگے پردے خریدنے اور وزیر اعلیٰ کی سرکاری انیکسی‘ جو عموماً صوبے کے افسران کے لیے مختص ہے‘ اپنے رشتے داروں کے حوالے کر دینے اور ان کے طعام و رہائش سرکاری اخراجات سے پورا کرنے اور بظاہر اپنی سادگی سے وزیراعظم کو متاثر کرنے سے ناراض ہیں؛چنانچہ وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اگر تحریک انصاف کے ناراض ممبر صوبائی اسمبلی ووٹ کاسٹ کرتے ہیں تو ان پر فلورکراسنگ کی شقیں نافذالعمل نہیں ہوں گی۔ دوسری جانب معیشت کی صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے حال ہی میں عالمی معیشت پر جو رپورٹ جاری کی ہے ‘ اس میں پاکستان سے متعلق پیش گوئی ہے کہ یہاں شرح ترقی‘ جو سابق دور کے5.8 فیصد سے کم ہو کر ڈیڑھ سال میں 3.3 فیصد رہ گئی ہے‘ اگلے برس مزید کم ہوکر 2.1 پر آجائے گی‘ یعنی گزشتہ سال کے آخر پر جو اندازہ جاری ہوا تھا کہ کم ہو کر2.4 فیصد ہو جائے گی وہ بھی غلط تھا۔ان حالات میں پاکستان میں معاشی خرابی کے اثرات نمایاں ہونے شروع ہوجائیں گے ۔اب یہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت پر ہے کہ وہ ان چیلنجز سے کیونکر نمٹ سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں