"KDC" (space) message & send to 7575

دہری شہریت اور ممکنہ خطرات

فیصل واوڈا پر انتخاب میں دھاندلی کا الزام ختم ہونے سے ان کی شہرت بام عروج پر پہنچ گئی تھی‘ تاہم ان کی دُہری شہریت کے معاملے نے ان کی نشست کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کی نااہلی کے لیے درخواست سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے ہیں۔الیکشن کمیشن فیصل واوڈا کی نا اہلی کے لیے دائر درخواست پر سماعت 3 فروری کو کرے گا۔ چند روز قبل ہی یہ انکشاف ہوا تھا کہ فیصل واوڈا نے الیکشن کمیشن میں اپنی دہری شہریت کے حوالے سے غلط حلف نامہ جمع کرایا تھا۔ اب ان کے مدمقابل میاں شہباز شریف الیکشن کمیشن آف پاکستان یا سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہیں تو فیصل واوڈا اپنی نااہلیت کا مقدمہ ہار سکتے ہیں ‘کیونکہ اسی نوعیت کے کیس میں شاہد خاقان عباسی کی ہمشیرہ سعدیہ عباسی اور ہمایوں اختر کے بڑے بھائی ہارون اختر بھی سینیٹر شپ سے محروم کردیے گئے تھے ‘کیونکہ کاغذات نامزدگی پیش کرتے ہوئے دونوں غیر ملکی شہریت کے حامل تھے۔ فیصل واوڈا کے کیس کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو ان کے حلقے کے ریٹرنگ آفیسر کا کردار بھی پراسراریت کے زمرے میں آتا ہے‘ اورکاغذات نامزدگی کی درست جانچ پڑتال نہ کرنے پر اُن کے خلاف بھی عدالتی کارروائی ہوسکتی ہے۔ ریٹرنگ آفیسر نے جب فیصل واوڈا کے امریکی پاسپورٹ پر کینسل کی مہر دیکھی تو اس کو تصدیق کیلئے انہیں فوری طور پر پاسپورٹ ایف آئی اے کے حکام کو بھجوانا چاہیے تھا ‘کیونکہ ایف آئی اے نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 122 افراد کی فہرست مہیا کی تھی جو دہری شہریت کے حامل تھے ‘جن میں فیصل واوڈا بھی شامل تھے۔ایف آئی اے کے ریکارڈ اور دستاویزات کو نظر انداز کرنا ریٹرننگ آفیسر کی نااہلی ہی تصور کی جائے گی یا اس کے پس منظر پر کوئی اور عوامل بھی ہوسکتے ہیں ۔
فیصل واوڈا کے خلاف دہری شہریت چھپانے کا الزام درست ثابت ہوا تو جھوٹا حلف نامہ جمع کرانے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں آرٹیکل 62 ایف کے تحت وہ تاحیات نااہل بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ جب فیصل واوڈا نے ریٹرننگ آفیسر کے پاس کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت صرف کینسل شدہ پاسپورٹ جمع کرایا تھا تو صرف اس سے ان کی دہری شہریت ختم تصور نہیں ہوتی ‘کیونکہ پاسپورٹ تو دوبارہ بھی بنوایا جا سکتا ہے‘ جبکہ اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ موجود ہے کہ دہری شہریت اس وقت ختم ہوتی ہے جب متعلقہ ملک کا امیگریشن آفس شہریت کی منسوخی کا سرٹیفکیٹ جاری کردے۔اس کی واضح مثال‘ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے اپنی برطانوی شہریت منسوخ ہونے کا سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرایا تھا اور اس کی دوسری واضح مثال فوزیہ قصوری ہیں‘ کہ انہوں نے اپنی امریکن شہریت باقاعدہ ختم کرانے کے بعد الیکشن کمیشن کو دستاویزات بھیجوادی تھیں‘اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات اورگروہ بندی کی وجہ سے ان کو انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشست کے لیے نامزد نہیں کیا گیا تھا اور ان کی جگہ دیگر خواتین کو شامل کیا گیا ‘ جن کی پارٹی کے لیے واجبی سی خدمات تھیں۔
اب جبکہ غیر جانبدار اوروسیع تجربے کے حامل سکندر سلطان راجہ صاحب نے بطور چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان حلف اٹھالیا ہے‘ لہٰذا عزت مآب چیف الیکشن کمشنر کو فیصل واوڈا کیس کا گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے ۔میری نظر میں فیصل واوڈا کو ان کے نادان دوستوں نے گمراہ کر کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ 2018ء کے انتخابات سے پیشتراسی نشست پر سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست اختیار بیگ نے بھی کاغذات نامزدگی پیش کرائے تھے‘ لیکن وہ کینیڈا کی دہری شہریت کے حامل ہیں اور انہوں نے مجھ سے آئینی و قانونی رائے کے سلسلہ میں مشاورت کی تھی۔ بقول اختیار بیگ کے ان کی پارٹی کے قانونی ماہرین نے ان کو رائے دی تھی کہ کاغذات نامزدگی جمع کرادیں کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017 میں دہری شہریت کے حوالے سے شقیں پس پردہ چلی گئی ہیں‘ لیکن میں نے ان کو بتایا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63,62کی موجودگی میں وہ الیکشن لڑنے کے لیے اہل نہیں ہیں۔ اختیار بیگ نے میرے مشورے پر عمل کرتے ہوئے پارٹی ٹکٹ واپس کردیا تھا۔ غالباً ان کے بعد پیپلز پارٹی نے عبدالقادر مندوخیل کو پارٹی ٹکٹ دیا تھا‘ جنہوں نے فیصل واوڈا کے ریٹرنگ آفیسر کے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں بھی اپیل دائر کی تھی‘لیکن انتہائی پراسرار طریقے سے انہوں نے سندھ ہائیکورٹ سے اپنی اپیل واپس لے کر فیصل واوڈا کو محفوظ راستہ دیا۔ نئے چیف الیکشن کمشنر اور ارکانِ الیکشن کمیشن کے لیے فیصل واوڈا کا کیس ٹیسٹ کیس ہوگا‘ جبکہ فارن فنڈنگ کیس کے معاملات پر بھی گہری دھند چھائی ہوئی ہے۔
دوسری جانب آٹا بحران اور صوبائی حکومتوں میں پیدا ہونے والے اختلافات نے حکومت کے لیے مقبولیت کا بحران پیدا کر دیا ہے اوروزیراعظم عمران خان اپنی حکومت کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے سوشل میڈیا کے حامیوں کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے بعض حق گو دوستوں نے مجھے بتایا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر حکومتی کارکردگی بالخصوص معاشی بحران اور مہنگائی پر ہونے والی شدید تنقید نے وزیراعظم کو دکھی کردیا ہے اور وزیراعظم اپنے موجودہ ترجمانوں اور وفاقی معاونین کی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں ہیں‘ لہٰذا مین سٹریم کو کاؤنٹر کرنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے اب سوشل میڈیا کا محاذ مضبوط اورفعال بنانے کا مصمم ارادہ کیا ہے۔تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں کے بقول ان کے ترجمان وزیراعظم کے ویژن کو آگے بڑھانے میں ناکام نظر آ رہے ہیں ‘لہٰذا اب سوشل میڈیا پر سرگرم نوجوانوں کو اپنے فلاحی ویژن سے روشناس کرانے کے لیے سوشل میڈیا کو فعال بنایاجا رہا ہے اور سوشل میڈیاکے پراجیکٹ کو' ـڈیجیٹل پاکستان‘ کا نام دیا گیا ہے ۔تاہم ان میں بعض بلاگرز عوام کی نظر میں متنازع ہیں اور ان کوجب آگے لایا جارہا ہے تو عوامی ردعمل سامنے آنے کا اندیشہ بھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو ایسے سوشل میڈیا ایکٹویسٹس اور بلاگرز کی خدمات مستعار لینے سے گریز کرنا چاہیے۔یہی وتیرہ مریم نواز نے وزیراعظم ہاؤس میں اختیار کیا ہوا تھا اور ان کے بلاگروں کو پاکستان ٹیلی ویژن‘ریڈیو پاکستان اور حکومت کے اداروں اور مخصوص کمپنیوں کے ذریعے تنخواہ دی جاتی تھی ۔اس کا نتیجہ عوام نے 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں دیکھ لیا ۔بظاہر اسی راہ پر وزیراعظم عمران خان کے مشیر انہیں لے جانا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو سوشل میڈیا کی سرپرستی کرنے کے بجائے اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لینا چاہیے اور چودھری پرویز الٰہی سمیت تمام اتحادیوں سے قریبی رابطے قائم کرنا چاہئیں اور دوریاں ختم کرنی چاہئیں۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تمام اتحادی اپنے اپنے انداز کے تجربہ کار سیاستدان ہیں ‘ ان سے براہ راست مشاورت حکومت کے فائدے میں ہے۔ میر رائے میں مسلم لیگ (ق) پنجاب میں ان کی مثالی اتحادی ثابت ہو سکتی ہے اور اس سے نہ صرف حکومتی سطح پر پائے جانے والے اختلافات کا خاتمہ ہو گا بلکہ مستقبل میں زیادہ مضبوط اتحاد قائم ہو سکتے ہیں۔ معاصردنیا میں میں سنگل پارٹی کی بجائے اتحادی حکومتیں ہی زیادہ تر جمہوریتوں میں نظر آتی ہیں۔ اس کے لیے حکومت اور اتحادیوں میں اچھا تعلق اور اعتماد ضرورری ہوتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں