"KDC" (space) message & send to 7575

چیف الیکشن کمشنرکی بھاری ذمہ داریاں

چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے حکومت اور اپوزیشن میں سکندر سلطان راجہ کے نام پر اتفاق ہو گیا‘ اس طرح ایک اہم ترین عہدے پر تقرری کا عمل گزشتہ ہفتے بخیر وخوبی مکمل ہوا۔ ان معاملات پر حکومت اور حزب اختلاف کے ارکان میں چند ماہ سے ڈیڈلاک پیدا ہو چکا تھا جس کے براہ راست اثرات الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر بھی مرتب ہو رہے تھے۔ وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے مابین چیف الیکشن کمشنر و اراکین کے ناموں پر اتفاق نہ ہونے کے بعد یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوایا گیا‘ تاہم نتیجہ سامنے نہ آنے پر صدر مملکت نے خلافِ توقع اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ارکان کی دو نشستوں پر ازخود تقرری کرکے اٹھارہویں ترمیم کی خلاف ورزی کر دی‘مگر اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا نے ان تقرریوں کو مسترد کردیا۔ بعدازاں اپوزیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں صدر مملکت کے اس اقدام کو چیلنج کر دیا اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے معاملہ پارلیمان کے سپرد کردیا۔ بہر حال پارلیمانی کمیٹی نے چیف الیکشن کمشنر کے منصب کے لیے سکندر سلطان راجہ جبکہ سندھ سے ممبر الیکشن کے لیے نثار درانی اور بلوچستان کے لیے شاہ محمد جتوئی کی تقرری پر اتفاق کرلیا۔ 
یہ کہنا درست نہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار چیف الیکشن کمشنر کے لیے ایک سابق بیوروکریٹ کا انتخاب ہوا ہے۔واضح کرتا چلوں کہ 23 مارچ 1956ء کو ایف ایم خان‘ جو برٹش انڈیا سروسز کے بیوروکریٹ تھے اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر بھی رہے‘ صدر سکندر مرزا اور وزیراعظم چوہدری محمد علی کی مشاورت سے انہیں چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا۔ بعدازاں صدر ایوب خان نے 1969ء میں مغربی پاکستان کے گورنر اختر حسین کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا اور صدر ایوب خان سے اختلافات پیدا ہونے پر ان کو مستعفی ہونا پڑا ۔ ان کے بعد آئی سی ایس کے سینئر بیوروکریٹ جی معین الدین اوراین اے فاروقی بالترتیب چیف الیکشن کمشنر مقرر ہوتے رہے اور 25مارچ 1969ء کو ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد چونکہ آئین منسوخ کر دیا گیا تھا‘ لہٰذا آئینی طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان غیر فعال ہو گیا اور بعد ازاں یکم جولائی 1969ء کو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر صدر جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے مارشل لا آرڈر 1969ء کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج عبدالقدیرخان‘ جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا ‘ کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کرکے عدلیہ سے چیف الیکشن کمشنر کی خدمات مستعار لینے کی روایت شروع کی ‘ جسے بعد ازاں 1973ء کے آئین نے تحفظ فراہم کر دیا اور 1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سجاد احمد جان‘ بعدازاں جسٹس دراب پٹیل‘ جسٹس مشتاق حسین‘ جسٹس ایس اے نصرت‘ جسٹس نعیم الدین‘ جسٹس فخر عالم‘جسٹس عبدالقیوم چودھری‘ جسٹس ارشاد حسن خان‘ جسٹس عبدالحمید ڈوگر‘ جسٹس قاضی فاروق‘ جسٹس حامد علی مرزا‘ جسٹس تصدق حسین جیلانی‘ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم اور جسٹس سردار محمد رضا بالترتیب چیف الیکشن کمشنر مقرر ہوتے رہے۔
1969ء تک بیوروکریٹس چیف الیکشن کمشنر مقرر ہوتے رہے اور اب تیسرے مرحلے میں پھر ایک بیوروکریٹ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو ملک کے موجودہ حالات میں خوش آئند ہے اور چیف الیکشن کمشنرکا تقرر‘ متفقہ فیصلے کی صورت میں ہونے سے اچھی روایت قائم ہونے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ شاندار روایات کے حامل اور مضبوط کردار کے بیوروکریٹ رہے ہیں۔چیف الیکشن کمشنر کا حلف اٹھاتے ہوئے ان کے روبرو فارن فنڈنگ کیس ہے‘ جو تقریباً پونے چھ سال سے زیر التوا ہے اور تحقیقی کمیٹی میں بھی 20ماہ سے جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ ملک کی تمام چھوٹی بڑی اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا اس کیس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور الیکشن کی رات کو جس پراسرار طریقے سے سسٹم از خود بند ہوا یا کرایاگیا‘وہ کیس بھی ایف آئی اے میں زیرالتوا ہے‘ اس کی انکوائری بھی ہونی ہے۔ علاوہ ازیں فیصل واوڈا کی دہری شہریت کا کیس بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے معزز ارکان کی خدمت میں تجویز پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ موجودہ نظام نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مفلوج بنا رکھا ہے۔ اہم انتخابی فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں زیرالتوا ہیں اور جو فیصلے الیکشن ٹربیونلز سے ارکان اسمبلیوں کی نااہلی کے بارے میں آتے رہے‘ ان پر ارکان اسمبلی حکم امتناعی کے سہارے اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے تک پارلیمنٹ کا حصہ رہے۔ اسی طرح خواتین کی مخصوص نشستوں کا معاملہ عدالت میں محفوظ ہے اور متعلقہ خواتین پارلیمنٹ کے رکنیت سے لطف اندوز ہورہی ہیں۔ ان معروضی حالات میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کو چیف جسٹس آف پاکستان سے بالمشافہ ملاقات کرکے کوئی ایسا حل نکالنا چاہیے جس سے آئین و قانون کی پاسداری بھی برقرار رہے اور جو الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے مطابق نااہل ہو رہے ہیں ان کیلئے بھی انصاف کے تقاضے جلد طے ہو جائیں۔اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کے افسران کی تربیت یو این ڈی پی کی فنڈنگ سے جاری ہے۔ معزز ارکان ان افسران کی قابلیت کا اندازہ کرنے کیلئے انہیں انٹرویو کیلئے طلب کریں اور ان سے الیکشن ایکٹ 2017ء‘ آئین و قانون کے متعلق آرٹیکلز اور ہنگامی طور پر کوئی قانونی مسئلہ حائل ہوجائے تو اس کے حل کیلئے اور ان کی دانش کو آزمانے کے لیے امتحان لیں۔ یو این ڈی پی نے الیکشن کمیشن کے افسران کی صلاحیتوں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حلقہ بندیوں کے لیے یو این ڈی پی کا فارمولا اختیار کیا‘ جس کے باعث حلقہ بندیوں کو ملک کی عدالتوں نے مسترد کردیا تھا ‘مگر آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت سپریم کورٹ نے محفوظ راستہ مہیا کرکے الیکشن 2018 ء کی راہ ہموار کی‘ تاہم الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کے بارے میں معززہائی کورٹ کے تحفظات کا ازالہ کرنا ہوگا۔لوکل گورنمنٹ الیکشن کے حوالے سے حکومت کے تیار کردہ الیکشن قوانین میں ابہام پایا جاتا ہے‘ وزیراعظم عمران خان مئیر‘ چیئرمین اور ڈپٹی مئیر کے انتخابات براہ راست کروانے کے پرزور حامی تھے‘ اس پر بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ماہرانہ رائے دینی چاہیے۔ میری ناقص رائے میں میئر اور چیئرمینوں کے براہ راست انتخابات سے بلدیاتی نظام میں آمریت کی راہ ہموار ہوجائے گی اور مئیر اپنے حلقے میں بے لگام ہو کر مغلیہ طرز کے صوبیدار کا روپ دھار لے گا اور اس کی برطرفی اور اس کے خلاف عدم اعتماد کا طریقہ لوکل گورنمنٹ الیکشن میں واضح نہیں کیا گیا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جو غیر ملکی ادارے مالی معاونت کر رہے ہیں ان کا بھی تھرڈ پارٹی آڈٹ کروانا چاہیے‘ کیونکہ شنید ہے کہ غیر ملکی اداروں کے متعلقہ افسران الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بے خبری سے فوائد حاصل کر رہے ہیں۔
سیاسی جمہوری نظام میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ادارے کو بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں ایک مضبوط‘ غیرجانبدارانہ اور متحرک الیکشن کمیشن ہی جمہوری نظام کی کامیابی اور تسلسل کا ضامن ہوتا ہے۔ عام انتخابات ہوں یا جمہوری حکومتوں میں انتخابی عمل کا کوئی بھی مرحلہ‘ الیکشن کمیشن اس کا براہ راست ذمہ دار ہوتا ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی تائید سے نامزد ہونے والے نئے الیکشن کمشنر اپنی ذمہ داریوں کا احساس و ادراک کرتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان وطن عزیز کا انتہائی حساس نوعیت کا قومی ادارہ ہے اس لیے سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ اس کی اہمیت کے پیش نظر اپنے سیاسی کردار کا تعین کریں۔ وقت کے ساتھ ایسا بھی ہونا چاہیے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد جیسے فریضے کی ادائیگی میں نگران حکومت تک کی معاونت سے آزاد ہوجائے۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب سیاسی جماعتیں جمہوری عمل کی بالادستی اور سیاسی نظام کے استحکام میں مکمل اتفاق رائے اور پوری یکسوئی سے عملی پیش رفت کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں