"KDC" (space) message & send to 7575

مخلوط حکومت کی اُلجھنیں!

پاکستان میں جب بھی مخلوط حکومتیں تشکیل دی جاتی ہیں‘ ان کا زیادہ تر وقت حکومت بچانے میں ہی گزرا ہے‘ یہ سلسلہ قیام پاکستان سے جاری ہے۔ 1958ء کے مارشل لا سے قبل صرف سات برس کی مدت میں کئی وزیراعظم تبدیل ہوئے تھے‘ حکومتیں اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہی تھیں کہ بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم نہرو نے کشمیر پر رائے شماری کرانے سے اس بنیاد پر فیصلہ کن مذاکرات سے معذرت کا اظہار کیا تھا کہ وہ جب بھی کسی وزیراعظم سے کشمیر مذاکرات کے لیے شیڈول بناتے ہیں وزیراعظم تبدیل ہوجاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی انہی مسائل کا سامنا ہے‘ انہوں نے اسد عمر‘جہانگیر ترین اور پرویز خٹک پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی جو حکومت کے اتحادیوں کے تحفظات دور کرے‘ مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘ تاہم یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان میں جمہوری رویے پروان چڑھتے نظر آتے ہیں۔اسی سے اندازہ لگا لیں کہ وزیراعظم عمران خان اپنے تمام فیصلے کابینہ‘ کور کمیٹی اور متعلقہ فریقین کی مشاورت ہی سے کرتے ہیں اور جہاں کوئی کوتاہی ہوتی ہے عدلیہ سخت نوٹس لیتی ہے‘ جیسا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ ہو یا ریلوے کا معاملہ ۔ عدالت عظمیٰ نے ان معاملات میں قوم کی حقیقی ترجمانی کی ہے۔
حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ ملک میں جب بھی سیاسی مسائل سامنے آتے ہیں ‘ طرز حکومت کے حوالے سے نئی بحثیں چھڑ جاتی ہیں کہ ملک میں کونسا نظام ہونا چاہیے‘ صدارتی یا پارلیمانی جمہوریت؟یاد رہے کہ صدر ذوالفقارعلی بھٹو نے بھی 1972 میں آئین ساز اسمبلی کے ذریعے آئین صدارتی طرز پر بنانے کی کوشش کی تھی‘ لیکن ان کے مرکزی وزیر قانون محمود علی قصوری اور متحدہ اپوزیشن کی شدید مخالفت کی وجہ سے وہ ایسا نہ کرسکے تھے۔ لیکن آئین کی اصل روح کو دیکھا جائے تو صدر کے تمام اختیارات وزیراعظم کو تفویض کردئیے گئے اور صدر کی حیثیت برائے نام ہی رہنے دی ‘ اس طرح جب ملک میں انتخابی سیاسی بحران پیدا ہوا تو صدر آئین کو بچانے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور اسی ضد کو مارشل لا کے ذریعہ پورا کیا گیا۔ اب اگر ملک میں صدر اور وزیراعظم کے مابین اختیارات کو بیلنس کرنا مقصود ہو تو ملک میں صدر کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرانے کیلئے آئین کے آرٹیکل 41 میں ترمیم کرنا ہوگی اور صدر کے انتخابات کیلئے چھ الیکٹورل کالج کی جگہ پر بالغ رائے دہی کی چند سطروں کا اضافہ کرنا ہو گا اور اسی مقصد کے لیے ملک کی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کا متحد ہونا ضروری ہے۔کیا ایسا ممکن دکھائی دیتا ہے؟ 
جہاں تک مخلوط حکومتوں کے مسائل کا معاملہ ہے تو بھارت میں بھی سیاسی جماعتیں ایسے ہی مخلوط حکومتوں کے خطرات سے کئی بار گزر چکی ہیں ۔اس طرح کی مخلوط حکومت میں نمبر گیم میں گھری حکومتیں مشکل ہی سے عوام کو درپیش مسائل حل کر پاتی ہیں۔ پاکستان میں بینظیر بھٹو کی حکومت 1988ء اور 1993ء میں بھی اسی طرح کے مسائل میں گھری ہوتی تھی اور ایسے ہی موقع پر خان عبدالولی خان نے تبصرہ کیا تھا کہ پچاس کروڑ کے عوض پوری پارلیمان کو خرید کر خواہش اور پسند کی حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے۔ 1990ء اور 1993ء میں 50 کروڑ کی اہمیت آج کے 50 ارب روپے کے لگ بھگ تھی۔تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں اپنی نشستیں 156 ہیں‘ جن میں 25 کے لگ بھگ وہ آزاد امیدوار بھی شامل ہیں جنہوں نے الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی اور اسی طرح خواتین کی مخصوص نشستوں کی وجہ سے ان کی تعداد 156 تک پہنچ گئی ‘ جبکہ اسے سادہ اکثریت کے لیے 342 کے ایوان میں 171 سیٹیں درکار ہیں۔ سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 15 سیٹوں کی کمی پاکستان مسلم لیگ (ق)‘ متحدہ قومی موومنٹ‘ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ‘بلوچستان نیشنل پارٹی ‘ شیخ رشید اور زین بگٹی کے ووٹ کو ساتھ ملا کر حکومت کی تشکیل دی گئی۔ اسی کمزوری کی وجہ سے چھوٹی پارٹیاں وزیر اعظم عمران خان کے اعصاب سے کھیلتی ہیں۔اگرچہ وزیراعظم مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اور وہ فی الحال کسی دباؤ میں آنے والے نہیں ‘ لیکن اگر آزاد امیدوار ‘جو نظریۂ ضرورت کے تحت تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اپنا مسکن بدل لیتے ہیں اور آزاد امیدواروں کا بلاک بنا لیتے ہیں تو وہ آئین کے آرٹیکل 63(1) کی زد میں نہیں آتے۔ ان پر فلورکراسنگ کی شق بھی نافذ نہیں ہوتی اور اسی طرح مخصوص نشستوں کی حامل خواتین بھی اگر تحریک انصاف کے دائرہ کار سے باہر آجاتی ہیں تو عائشہ گلالئی کیس کے مطابق ان پر بھی فلورکراسنگ کی شق لاگو نہیں ہوگی۔ عائشہ گلالئی کیس میں چیف الیکشن کمشنرسرداررضا کا فیصلہ اور بعد ازاں چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار صاحب کا فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
ادھرتحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے فارن فنڈنگ کیس کے بارے الیکشن کمیشن کے اختیارات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کے حوالے سے تحقیق کرنے یا کرانے کے اختیارات نہیں رکھتا‘ اسی حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017 ء کی دفعہ 204 اور 210 کی جانب توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ ان دفعات کی رُو سے الیکشن کمیشن جانچ پڑتال کرنے کا مجاز ہے اور اس کے رُولز میں واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن اسی وقت کسی پارٹی کو کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری کرے گا‘ جب متعلقہ سیاسی پارٹی سیکشن 204 اور سیکشن 210 کے معیار پر پورا اترتی ہو۔بادی النظر میں اگر الیکشن کمیشن کو ایسے اختیارات سے محروم کردیا جائے تو سیاسی پارٹیوں کے فنڈنگ کی جانچ پڑتال کس ادارے کو تفویض کی جائے گی جو پارٹی فنڈنگ کو چیک کر سکے؟ بظاہر جناب عمران خان نے سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کر کے ان کے اختیارات پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے اپنے دفاع میں سابق چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا کے تمام فیصلے جو اُن کے کمیشن نے جاری کئے تھے‘ سپریم کورٹ کے روبرو پیش کئے جانے چاہئیں۔ان میں 10 کتوبر 2019ء کا فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ جس میں چیف الیکشن کمشنر نے تحریک انصاف کے بارے میں لکھا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کو مؤخر کرانے میں تحریک انصاف کیا کیا کرتی رہی ہے۔اسی طرح ازبکستان کے الیکشن قوانین کے تحت کوئی غیرملکی کسی بھی سیاسی جماعت کو فنڈنگ دینے کا مجاز نہیں‘ حتیٰ کہ جو شہری کسی غیر ملک میں رہائش پذیر ہو ازبکستان کا شہری ہونے کے باوجود کسی سیاسی جماعت کو فنڈ دینے کا مجاز نہیں۔ بھارت کے الیکشن کمیشن کا طریقہ کار بھی قابل غور ہے‘ انڈین الیکشن لا کے مطابق تمام سیاسی جماعتیں اپنے اثاثہ جات کی پٹرتال چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ سے کرانے کے بعد رپورٹس سپیکر پارلیمنٹ کو پیش کرتی ہیں اور پھر پارلیمنٹ میں اوپن بحث کے بعد کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔اب سپریم کورٹ میں اکبر ایس بابر ایسی دستاویزات پیش کرنے کے دعوے کر رہے ہیں‘ جن سے تحریک انصاف کی ہائی کمان کو ناقابل ِتلافی نقصان پہنچے گا ۔ان کے دعوے میں کتنی صداقت ہے‘ یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا‘ لیکن اگر اکبر ایس بابر سپریم کورٹ کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو لامحالہ الیکشن کمیشن اپنی تحقیقی ٹیم کی رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ کرنے کے بارے میں مکمل اختیارات کو بروئے کار لائے گا اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت کے دوران میڈیا پر جو بحث شروع ہوگی اس کا تحریک انصاف پر جو شدید اثر پڑے گا ‘ وہ الگ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں