"KDC" (space) message & send to 7575

داخلی سیاسی منظر نامہ اور مسئلہ کشمیر

قومی انتخابات کو متنازعہ بنانے کی حکمت عملی اپوزیشن کی اہم پالیسی رہی ہے اور وکٹ کے دونوں اطراف کھیلتے ہوئے انہوں نے ناصرف حکومت کو دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری اور بڑے پراجیکٹس کے لیے بھی مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن کی نگاہیں صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت گرانے پر لگ گئیں‘ جہاں چودھری پرویزالٰہی اور ان کے ہم نوا ارکانِ اسمبلی نے حکومت کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے ۔ان حالات میں وزیراعظم عمران خان اپنے تین مشیران کے گھیرے میں ہے‘جبکہ جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی جو تحریک انصاف کے سنجیدہ حلقوں میں نمایاں پوزیشن میں ہیں‘ اب بظاہر پس منظر میں چلے گئے ہیں۔دوسری جانب فواد چوہدری ہیں‘ جنہوں نے بڑے اچھے انداز میں اپنے کارڈ کھیلتے ہوئے اپنی پوزیشن اندرونی طور پر مستحکم کر لی ہے۔ ادھر پنجاب میں بزدار حکومت بدستورپھسلتی جارہی ہے اور کئی حلقے پنجاب اسمبلی میں ان ہاؤس تبدیلی کے لیے ملک احمد خان کو آگے لا نا چاہ رہے ہیں اور انہیں رانا ثنا اللہ کے اشارے کا انتظار ہے‘ تاہم مسلم لیگ (ن) اگرچہ تذبذب کا شکار ہے‘ مگرکئی اہم معاملات میں غیر مشروط حمایت سے مسلم لیگ (ن) فوائد بھی حاصل کر رہی ہے۔مثال کے طور پرشاہدخاقان عباسی‘ احد چیمہ‘ فواد حسن فواد اور حمزہ شہباز کو ریلیف حاصل ہو چکا ہے‘ جبکہ بیوروکریسی میں بھی شہبازشریف کا بااعتماد دھڑا غالب ہے‘ اس طرح شہباز شریف دھیرے دھیرے اپنے مقاصد حاصل کر رہے ہیں۔ اس سارے محلے محلاتی جوڑ توڑ میں نواز شریف کا مطمحٔ نظر یہ ہے کہ کسی قومی حکومت کا حصہ بننے کے بجائے عمران خان کی حکومت کو فی الحال برداشت کر لیا جائے‘ کیونکہ قومی حکومت میں اپوزیشن شریکِ اقتدار ہوتی ہے تو انتخابات میں قومی حکومت میں شریک جماعتوں کا وہی حشر ہوگا‘ جو پاکستان مسلم لیگ (ق) کا الیکشن 2018ء میں ہوچکا ہے کہ 342 کے ایوان میں صرف پانچ ارکان کی نشستوں پر براجمان ہیں اور وہ بھی تحریک انصاف سے انتخابی ایڈجسٹمنٹ کی بدولت۔ اگر تحریکِ انصاف سے ان نشستوں پر معاہدہ نہ ہوتا تو (ق) لیگ شاید دو نشستوں تک ہی محدود ہوجاتی ۔
اب کچھ ذکر وزیراعظم عمران خان کے دورۂ ملائیشیا کا ‘ جس میں بار بار یہ ابھر کر سامنے آتا رہا کہ وزیر اعظم کو مہاتیر محمد کی کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی غلطی کا احساس شدت سے ہو رہا ہے ۔ کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت کو ناکام خارجہ پالیسی کے مترادف ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس کانفرنس کے حوالے سے پاکستانی کو ابھی تک صفائیاں دینا پڑ رہی ہیں۔ اب وزیر اعظم نے اگلے سال ملائیشیا کانفرنس میں شرکت کا عندیہ دیا ہے‘ مگر اگلے سال بھی وہ شرکت کر پاتے ہیں یا نہیں ‘ یہ دیکھنے کے لیے ہمیں ایک سال کا انتظار کرنا پڑے گا‘ کیونکہ عالمی سیاست میں جو تیز تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ‘ ان کے پیش نظر پیشگی کچھ بھی اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔بہرکیف اس میں شبے کی گنجائش نہیں کہ مہاتیر محمد کے اس دور میں ملائیشیا پاکستان کے زیادہ قریب آیا ہے۔ مہاتیر محمد نے مسئلہ کشمیر پر جو اصولی مؤقف اختیار کیا ہے اسے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔اگرچہ ملائیشیا کی معیشت میں بھارتی نژاد افراد کا اہم حصہ ہے اور دونوں ملکوں کے باہمی تجارتی لین دین کا حجم ساڑھے دس ارب ڈالر ہے ‘ مگر مہاتیر محمد نے مسئلہ کشمیر کے معاملے میں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلق کی پروا نہیں کی اور اس طرح وہ ایک معتبر مسلم رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں ‘جومفادات پر حق اور انصاف کو قربان نہیں کرتا۔ 
اس برس پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر پر جوش و جذبہ دیدنی تھا اور ہر لحاظ سے قابل ستائش۔یوں نظر آتا تھا کہ پوری قوم میں مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر نئی روح بیدار ہو گئی ہے۔مگر باوجود اس کے بادی النظر میں ماضی کی طرح موجودہ حکومت کے پاس بھی جموں و کشمیر کے معاملے پر ابھی تک کوئی جامع حکمت عملی نہیں ہے۔ 5 اگست 2019ء کو نریندر مودی نے پاکستان میں سیاسی استحکام نہ ہونے کا فائدہ اٹھایا اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو انڈین یونین کا حصہ بنا کر پاکستان کو دو راہے پر کھڑا کر دیا۔تاہم پاکستان نے اس نازک موقع پر جموں و کشمیر کیلئے خصوصی نمائندے کا فوری تقرر نہیں کیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جو وزارت خارجہ میں ایڈوائزری کونسل بنائی ہوئی ہے اس کے ارادوں سے قوم باخبر ہے کہ ان کے بعض ارکان اس نازک اور حساس مسئلے کیلئے کوئی ٹھوس تجاویز دینے سے قاصر ہیں‘ کیونکہ ان کی سوچ اور پاکستان کی عوام کی سوچ میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ہم اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے غیر رسمی مشاورتی اجلاس کو اپنی تاریخی فتح قرار دیتے ہیں‘ مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس مشاورتی اجلاس کا کوئی اعلامیہ تک سامنے نہیں آیا‘ جبکہ پاکستان کشمیر کے معاملے پر او آئی سی کی وزارت خارجہ سطح کا ہنگامی اجلاس بھی منعقد نہیں کراسکا ‘کیونکہ مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک کی حمایت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اس فورم پر حسب توقع کامیابی حاصل نہیں ہوپا رہی۔ان حالات میں کشمیر کمیٹی کی قیادت کو بھی تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ سیدفخرامام اپنی پیرانہ سالی اور صحت کے مسائل کے سبب جارحانہ طرز ِ سفارت اختیار کرنے میں بے بس نظر آرہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے شاید انہیں نمائشی طور پر کشمیر پارلیمانی کمیٹی کا چیئرمین مقرر کر رکھا ہے‘ کیونکہ حکومت ان سے مشاورت کرتی ہوئی کبھی نظر نہیں آئی ۔ یوم یکجہتی کشمیر پر ان کا آزاد جموں و کشمیر کی اسمبلی سے خطاب ضروری تھا‘ مگر انہیں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ان حالات کا نوٹس لیتے ہوئے سید فخر امام کو از خود کشمیر کمیٹی کی سربراہی سے دستبردار ہوجانا چاہیے۔
پانچ اگست 2019 کو نریندر مودی کے اقدامات کے فوری بعد شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی کو جواز بناکر لائن آف کنٹرول کو دوبارہ سیزفائر لائن میں بدلنے کا یک طرفہ اعلامیہ جاری کرنا چاہیے تھا۔ اگر شملہ معاہدہ کے پیراگراف نمبر چار کا مطالعہ کریں تو اس معاہدے میں جموں و کشمیر کے بارے میں ایک ہی سطر ہے کہ مسئلے کے حل کیلئے کوشش کرنی چاہیے۔شملہ معاہدے کا95فیصد حصہ مقبوضہ علاقہ جات کی واپسی اور 90 ہزار جنگی قیدیوں کی رہائی کے طریقہ کارپر زور دیتاہے۔ اس کے برعکس معاہدہ تاشقند میں جموں و کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد کے بارے واضح ذکر ہے کہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق حل کیا جائے۔ان حالات میں بھارتی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر دیوار سے لگانے کے لیے مقبوضہ کشمیرکی نمائندگی کرنے والی ایک جلاوطن حکومت کے قیام کے بارے میں وزارت خارجہ کو غوروفکر کرنا چاہیے کیونکہ 64-1963ء کے اوائل میں جب شیخ عبداللہ بیرونی دورے پر تھے اورانہوں نے وزیراعظم نہروکی منافقانہ حکمت عملی کو بے نقاب کیا تو انڈیا نے ان کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کی دھمکی دی‘ جس کے جواب میں پاکستان کی حکومت نے ان کو پاکستان کا پاسپورٹ فراہم کرنے کا اعلان کردیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا تھا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے لیے لندن میں جلاوطن حکومت بنانے کا حق بھی محفوظ رکھتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے حقِ خود ارادیت کی آواز بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے جلاوطن حکومت وقت کا تقاضا ہے۔ جلاوطن حکومت کے قیام سے بھارتی مسلمانوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو گی اور سکھ قوم بھی بھارتی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں ۔ اس طرح پوری دنیا میں پھیلی ہوئی کشمیری قوم‘ سکھ قوم اور بھارت کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت سے بھارت کی حکومت کو سرنگوں کر نے میں کامیاب ہوجائے گی اور بھارت کی قابض افواج کو سری نگر میں سرنڈر کرنا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں