"KDC" (space) message & send to 7575

فارن فنڈنگ کیس، ہوا کا رخ بدل گیا

سیاست میں مفاہمت کی آڑ میں اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے اور سب کی سننا پڑتی ہے ‘ ان حالات میں پاکستان میں سیاسی کھیل بڑے دلچسپ مرحلے میں داخل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ دعو ے بہت ہو رہے ہیں کہ 2020ء میں سیاست کا رنگ بہت بدل سکتا ہے‘ اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ سیاست کے کھلاڑی حکومت کو چلانے والے اداروں کے ساتھ بامقصد مذاکرات سے آئندہ کے معاملات طے کرنے کے لیے خاموش ڈپلومیسی میں مصروفِ عمل ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے بڑے عزم سے سوچا تھا مگر قومی مفاد کے نام پر ہماری کچھ شخصیات نے عالمی معاشی اداروں کے ساتھ مل کر حکومت کو مایوس کیا اور عمران خان صاحب کو اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑا۔
وزیراعظم عمران خان اور ان کے آئینی ماہرین کو ادراک ہی نہیں کہ ملک کی اشرافیہ خطے کی صورتحال کے مدنظر اندرون ملک سیاست کے لیے نئے عمرانی معاہدے کے لیے غورو فکر کررہی ہے۔ اس معاہدے میں نوازشریف عدالتی فیصلوں کی وجہ سے قابل توجہ نہیں رہے۔ نواز شریف اس مرحلے پر شہباز شریف اور ان کے ہم خیال گروپ سے بھی مایوس نظر آرہے ہیں‘ جنہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ خفیہ طریقے سے پلی بارگین کے ذریعے مریم نواز کو بھی لندن لاسکیں گے ۔اس معاہدے میں ایک اور خاموش کردار سابق صدر زرداری کا بھی ہے۔ آصف علی زرداری مکمل خاموشی سے تعاون کر رہے ہیں‘ جبکہ بلاول بھٹو زرداری رنجیدہ اور شرمندہ نظر آتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اربوں روپوں کے اثاثے بچانے کے لیے بہت زیادہ قیمت دے دی ہے اور اب سندھ حکومت بلاول کے ساتھ زیادہ عرصہ چلتی نظر نہیں آتی اور اندرون خانہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سندھ کی حد تک باہمی اشتراک سے حکومت سازی کرنے کی خفیہ مفاہمت پر کام کر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اندازہ ہوتا جا رہا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کے بغیر اکیلے اپنی حکومت کو نہیں چلا سکتے ‘پھر ان کی کابینہ کے چند وزرا مسلسل عوام اور عمران خان کو مایوس کر رہے ہیں اور وزیراعظم ان پر کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان کے ایک بے باک وزیر نے تو علیحدہ سات رکنی پارلیمانی گروپ بنا رکھا ہے اور کسی وقت بھی بجلی گرانے کی پوزیشن میں ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی کابینہ پر مختلف مفاد پرست گروہوں نے قبضہ کر رکھا ہے‘ جوقابلِ اعتبار نہیں ۔
عمران خان صاحب اپنے سیاسی جلسوں اور انتخابی مہموں میں آئی ایم ایف کے خلاف کھل کر بات کیا کرتے تھے اور انہوں نے احتساب کے نام پر ہی عوام کو اپنے ساتھ ملایا ‘لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ آئی ایم ایف کے حامی بن گئے اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئی ایم ایف نے ملکی معیشت کو یرغمال بنالیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو ادراک ہونا چاہیے کہ ملک کی معیشت بدحال ہو چکی ہے‘ اس صورتحال میں عوام کا پارلیمانی نظام پر اعتبار متزلزل ہے اور تحریک انصاف کی حکومت کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے۔ دوسری جانب بھارت میں بھی معاشی اور سماجی مسائل کی وجہ سے نریندر مودی کی اپنی حکومت پرگرفت کمزور ہورہی ہے اور اور دہلی کے انتخابات میں عبرتناک شکست کی وجہ سے مودی اپنی حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ بچانے کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال کر سکتا ہے محدود جنگ کا آپشن ان میں ایک ہے۔ بھارت کی جانب سے اس آپشن پر پر غور کیا جا رہا ہے جبکہ امریکہ اور یورپی ممالک پاکستان کو بھرپور جواب دینے سے منع کرتے ہیں اور'' شملہ پلس‘‘ معاہدہ کروانے کی امید دلا رہے ہیں۔تاہم محدود کشیدگی بھی پاکستان اور خطے کے امن کیلئے شدید خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان انڈیا کو بھرپور جواب دینے کی پوزیشن میں ہے ‘ مگر پاکستان کے اتحادی ممالک ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جب ہم ایک کال پر کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو آگے خود ہی سوچ لیں کہ ہم اپنے فیصلوں میں کس حد تک آزاد ہیں۔
پاکستان جس قسم کے خطرات میں گھرا ہوا ہے‘ ان حالات میں عسکری قیادت کو مشورہ اور مشاورت سے کچھ بڑے فیصلے کرنا ہوں گے‘ جبکہ عدالت عظمیٰ نے بھی چند اہم فیصلے کرنے ہیں‘ جن میں ایک اہم کیس خود وزیراعظم عمران خان سپریم کورٹ میں لے کر گئے ہیں اور وزیراعظم کی آئینی ٹیم نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف بلاجواز نظرثانی کی درخواست بھی ریفرنس کے طور پر دائر کر رکھی ہے۔ ان دونوں اہم مقدمات کے بعد پاکستان میں ہوا کا رخ تبدیل ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو معزز ارکان کے تقرر کے نوٹیفکیشن میں وزارتِ پارلیمانی امور نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے‘ جس کی آئینی اور قانونی ضرورت نہیں تھی‘ کیونکہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے بڑی دانشمندی سے ارکان الیکشن کمیشن کے تقرر کے لیے پارلیمنٹ کی بالادستی پر زور دیا تھا اور ان کا فیصلہ مشاورتی حیثیت کا حامل تھا ۔ بادی النظر میں پارلیمانی وزارت نے اپنی دانشمندی سے کام نہیں لیا اور ظاہر یوں کیا گیا ہے کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں ان معزز ارکان کا تقرر کیا گیا ہے۔ویسے حکومت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ مجھے اسی طرح کا خدشہ تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملازمت میں توسیع کرتے ہوئے وزارت دفاع کے حکام نوٹیفکیشن میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کا حوالہ دیں گے‘ جس کے بعد حکمران اپنی انتخابی مہم میں یہ اشارہ دیں گے کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کی تھی‘ جس طرح نوازشریف کی لندن یاترا کا سارا بوجھ انہوں نے عدالت پر ڈال رکھا ہے کہ عدلیہ کے احکامات کی وجہ سے وزیراعظم نے منظوری دی ۔
وزیراعظم عمران خان اپنے اردگرد کے ان انتظامی‘ آئینی اور قانونی معاونین خصوصی پر نظر رکھیں جو اپنے طرز عمل سے غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں اور بقول چودھری شجاعت حسین وزیر اعظم فسادیوں سے بچیں اور ملک میں مہنگائی کے سیلاب کو روکنے کے لیے اپنی ٹیم کو برطرف کرکے ان کو عوام کی عدالت میں پیش کریں۔بہرکیف ملک مستقبل قریب میں ایک ایسےstop-gap انتظام کا منظر دیکھنے کے قریب ہے‘ ایسی تبدیلیاں جو سب کو حیران کر دیں گی اور عدالتیں ممکنہ طور پر ایک بار پھر انتہائی اہم کردار ادا کریں گی۔ عدالتوں کے سامنے تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس اب زیر سماعت ہے ‘اس کے اثرات بھی گہرے ہوں گے اور اس کی آڑ میں بعض بڑی تبدیلیاں بھی رونما ہو سکتی ہیں۔ یہ سارے معاملات اب عدالتوں کے سامنے خود بخود آگئے ہیں۔ تینوں بڑی جماعتوں‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے فنڈنگ کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانا موجودہ الیکشن کمیشن کی اہم ذمہ داری ہے؛ چونکہ وزیراعظم عمران خان نے فارن فنڈنگ کیس کی سماعت کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن پارٹی کے فنڈنگ کی جانچ پڑتال کرنے کا مجاز ہی نہیں ہے ‘اس پٹیشن کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن پاکستان کی پرواز بلند ہوکر بام عروج تک پہنچ جائے گی اور پھر فارن فنڈنگ کیس کا جو فیصلہ الیکشن کمیشن پاکستان نے کرنا ہوگا‘ اس سے آئندہ کے لیے صاف شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے گی اور انتخابی عمل ممکنہ طور پر غیرجانبداری کا حامل ہو جائے گا۔یاد رہے کہ سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا نے تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کے بارے میں جو فیصلہ 12 اکتوبر 2019ء کو لکھا تھا اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اپنے دفاع میں اسی فیصلے کو سپریم کورٹ کے روبرو پیش کرنا ہوگا ۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل مالیات سردار طارق نے یہ بتایا ہے کہ انہوں نے فارن فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی تحقیقاتی ٹیم کو دس ہزار سے زائد دستاویزات جمع کراکے اکبر ایس بابر کی خواہشات پر پانی پھیر دیا ہے۔ حقیقت کیا ہے ؟ یہ اس کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں