"KDC" (space) message & send to 7575

آئین کی حکمرانی اور نئی جمہوریہ کا خواب

سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے 20 فروری کو سپریم کورٹ میں غیر مشروط معافی نامہ جمع کرادیا اور اپنے 18فروری کے بیان کو واپس لیتے ہوئے شرمندگی کا اظہار کیا ۔انور منصور خان پاکستان کے انتہائی قابل قانون دانوں میں شمار ہوتے ہیں‘ اس لیے ان کے سامنے حقائق تھے تو ان کا دفاع کرنا چاہیے تھا‘ اور اگر نہیں تھے تو ایسی گفتگو سے اجتناب ہی بہتر تھا جو تنازعات کا سبب بنے۔ یہ باور کیا جارہا ہے کہ عدالت ان کے غیر مشروط معافی نامہ جمع کرانے کے باوجود باقاعدہ سماعت کا فیصلہ ماضی کے فیصلوں کی نظیر کے مطابق کرے گی‘ اسی طرح کے معافی نامے طلال چوہدری‘ دانیال عزیز‘ نہال ہاشمی اور دیگر پارلیمنٹرینز کے بھی تھے‘ لیکن اس کے باوجود عدالت عظمیٰ نے حقائق کے مطابق فیصلے کیے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس حکومت اور حکومت کی قانونی ٹیم کے لیے امتحان بنتا جا رہا ہے۔بادی النظر میں حکومت اب تک جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس پر اُٹھنے والے سوالات پر ججوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اب اس کیس سے متعلق حکومتی صفوں میں بھی اختلافات نظر آرہے ہیں اور اسی اختلاف کی بنیاد پر مجھے تو اوپر کی سطح پر اہم تبدیلی ہوتے ہوئے نظر آ رہی ہے‘ جس کے بارے چند روز میں بریکنگ نیوز آنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ انور منصور خان کے عدالت میں دئیے گئے دلائل سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس فائل کرتے ہوئے ٹھوس حقائق پیش کرنے میں ناکامی کا عنصر سامنے آ رہا ہے اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ صدر مملکت نے بھی اتنے اہم اور حساس نوعیت کے ریفرنس کو عجلت میں سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوا دیا اور اب عدالت کے سامنے یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا ججوں کے ٹیلی فون ہیک کیے جارہے تھے؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نمائندگی کرنے والے وکیل سپریم کورٹ سے اس معاملے کی انویسٹی گیشن کروانے کی استدعا کر چکے ہیں۔اس طرح کے معاملات سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے حکومتی ریفرنس کے دوران اعتزاز احسن نے بھی اٹھائے تھے اور حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اٹارنی جنرل ملک عبدالقیوم جوڈیشل کمیشن کو مطمئن نہ کر سکے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس کیس میں اٹارنی جنرل کی جانب سے معزز ججوں کے حوالے سے غیر محتاط گفتگو کی ہر جانب سے مذمت کی گئی‘ جس کا نتیجہ اٹارنی جنرل کے استعفے کی صورت میں برآمد ہوا۔ اس معاملے میں دو مؤقف سامنے آ رہے ہیں۔ایک طرف حکومتی حلقوں کا اٹارنی جنرل کے مؤقف سے لاتعلقی کا اظہارکرتے ہوئے یہ کہنا کہ حکومت آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے اور عدلیہ کا احترام کرتی ہے۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے مذکورہ بیان حکومتی ہدایات کے بغیر دیا گیا‘ لہٰذا اٹارنی جنرل انور منصور خان سے استعفیٰ طلب کرلیا گیا۔ دوسری جانب اٹارنی جنرل کا مؤقف ہے کہ انہوں نے بار کونسل کے مطالبے پر استعفیٰ دیا ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ معاملے پر پاکستان بار کونسل نے وزارتِ قانون و انصاف کے وفاقی وزیر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔ بہرکیف استعفیٰ دیا گیا یا لیا گیا ‘اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے حکومت کو اگر یہ احساس ہو گیا تھا کہ انور منصور خان نے ازخود لائن کراس کی ہے تو ان سے محض رضاکارانہ ستعفیٰ لینے کی بجائے انہیں برطرف کردینا چاہیے تھا ‘تاہم اب سپریم کورٹ کے روبرو وفاقی وزیر قانون و انصاف اور سابق اٹارنی جنرل اور پاکستان بارکونسل کے نمائندے کھڑے ہوں گے اور معاملہ آگے بڑھے گا اور عمران خان کی حکومت کو نئی آزمائش کے امتحان سے گزرنا ہوگا۔
توقع کے مطابق خالد جاوید خان کو اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔خالد جاوید خان‘ ذوالفقارعلی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھی پروفیسر این ڈی خان کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ ان کو آئین اور قانون پر مکمل دسترس حاصل ہے اور انہوں نے ابتدائی طور پر آئین اور قانون کی مہارت اپنے وقت کے اٹارنی جنرل جسٹس ریٹائرڈ قاضی محمد جمیل سے حاصل کی ہوئی ہے۔ دسمبر 1993ء میں خالد جاوید خان اٹارنی جنرل قاضی جمیل کے مشیر تھے۔ میرا ان سے انہی دنوں سے رابطہ ہے ۔ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے وہ مجھ سے مشاورت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ہی اقلیتی نمائندوں کیلئے انتخابات میں دو ووٹ ڈالنے کا فارمولا پیش کیا تھا اور مخلوط نظام کو اپناتے ہوئے جداگانہ انتخابی نظام کے متبادل یہ فارمولا پیش کیا تھا کہ اقلیتی ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے مسلم نمائندوں کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں اور اپنے حلقے کے رکن کیلئے علیحدہ ووٹ کا بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ قاضی جمیل انتخابی کمیٹی کے تحت یہ فارمولہ منظور کرلیا گیا تھا ‘لیکن نواز شریف نے بطور اپوزیشن لیڈر اس فارمولے کو مسترد کر دیا تھا۔ بہرحال اسے پرویز مشرف نے جون 2002ء میں نافذ کر دیا ‘جسے سترہویں ترمیم میں تحفظ دیا گیا اور اب‘ الیکشن ایکٹ 2017ء کا حصہ ہے۔ خالد جاوید خان کے اٹارنی جنرل مقرر ہونے سے عمران خان کو ریلیف ملنے کے امکانات پائے جاتے ہیں‘ بشرطیکہ وزیراعظم عمران خان اپنی آئینی قانونی ماہرین سے چھٹکارا حاصل کریں جن سے سابق حکومت بھی بیزار تھی۔
جدید ریاستی نظام کے بنیادی طور پر تین ستون ہیں:انتظامیہ‘مقننہ اور عدلیہ‘ جن کی مدد سے پورا نظام چلتا ہے۔ بین الاقوامی چارٹر کے تحت سارے قومی ادارے واجب احترام ہوتے ہیں‘ لیکن عدلیہ کا وقار اس لحاظ سے زیادہ بلند اور قابلِ احترام ہوتا ہے کیونکہ آئین کی تشریح کی بھاری اور حساس ذمہ داری عدلیہ ہی پر ہوتی ہے۔ ماضی میں جب کبھی کوئی ادارہ انتظامی مسائل کا شکار ہوا یا کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات پیدا ہوئے تو عدلیہ ہی سے رہنمائی کے لیے رجوع کیا جاتا رہا ہے۔ستمبر 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی حکومت کے انتشار اور انتظامی ومالیاتی بحران سے نبردآزما ہونے کے لیے سپریم کورٹ ہی سے معاونت کے لیے رجوع کیا تھا اور انہی ریمارکس کا سہارا لیتے ہوئے صدر فاروق لغاری نے 5 نومبر 1996ء کو بے نظیر بھٹو کی حکومت کو تحلیل کر دیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے صدارتی ریفرنس کے فیصلے سے پاکستان میں مستقبل کی نئی راہیں کھل جائیں گی اور اسی کوکھ سے نئی جمہوریہ کا تصور سامنے آجائے گا اور سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی انحطاط کے تدارک کیلئے نئی جمہوریہ میں قوم کو یہ موقع دینا ہوگا کہ وہ بذات خود اور بغیر کسی دباؤ کے اس مفہوم کو باور کریں کہ ایمان داری‘ ذمہ داری اور خلوص کے ساتھ اس ملک کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ فرانس کی طرز پر نئی جمہوریہ تعمیر کرکے اس ملک کو ایک نئی سمت میں لے جائیں ۔ اس مقصد کیلئے فرانس کے مرد آہن چارلس ڈیگال کے تجربے سے بھی سیکھنا ہو گا۔صدر ڈیگال نے ریفرنڈم کے ذریعے جمہوریہ کے آئینی خدوخال طے کروائے تھے اور آئینی جمہوریہ کی وجہ سے آج فرانس طاقتور ممالک کی صف میں کھڑا ہے۔ نئی جمہوریہ کی تحریک کی کامیابی کیلئے عدالت عظمیٰ سے رہنمائی حاصل کرنا ہوگی اور آئین کے آرٹیکلز3‘ 5‘17‘25‘39‘62 اور63کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا اور ایک تیسری غیر جانبدار قوت کے ذریعے ہی سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رہنمائی حاصل کرنا ہوگی۔
قوم کو احساس ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں نے اس قوم کو مایوس کیا اور ہمارے بہت سے مسائل کی وجہ بھی انہی پارٹیوں کے کرپشن زدہ سیاسی فیصلے ہیں‘لیکن ملک کے وسیع تر مفادات کے پیش نظر ان پارٹیوں کے ووٹروں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ‘اسی لیے درمیانی راہ نکالتے ہوئے ان جماعت کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کو آگے لانا ہوگا۔ اصلاحی تحریکیں عوام کو جوڑتی ہیں توڑتی نہیں‘ لہٰذا ایک وسیع تر ریفرنس کے تحت ملک میں نئی جمہوریہ کیلئے ریفرنڈم کرانے کے بعد نئے نظام حکومت کا احیا کرنا ہوگا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں