"KDC" (space) message & send to 7575

پنجاب میں نئے صوبے کے قیام کا معاملہ

قومی اسمبلی میں سینیٹ کے الیکشن شو آف ہینڈ سے کرانے کا بل انتخابات ترمیمی بل 2020 پیش کر دیا گیا۔ بل کے اغراض و مقاصد میں درج ہے کہ بل کی منظوری سے سینیٹ کا الیکشن شو آف ہینڈ سے ہو گا تاکہ آئندہ خرید و فروخت اور ضمیر کا سودا نہ ہو سکے کیونکہ ایسے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کی وجہ سے معزز فورموں کا تقدس مسلسل مجروح ہو رہا ہے اور ووٹوں کی خرید و فروخت کے باعث دوسرے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ 
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کا یہ اقدام خوش آئند ہے۔ میں نے سینیٹ کے الیکشن کو شو آف ہینڈ کے ذریعے کروانے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی منظوری سے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں تجویز کیا گیا تھا کہ سینیٹ کے الیکشن کو شو آف ہینڈ کے ذریعے کروانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کی جائے۔ میری تجویز کی اس وقت کے وفاقی وزیر قانون و انصاف ڈاکٹر بابر اور سینیٹر رضا ربانی نے بھی تائید کی تھی۔ اس کوشش میں حکومت کی تشکیل کردہ انتخابی کمیٹی کے سربراہ اسحاق ڈار اور اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کو بھی میں نے جامع رپورٹ پیش کی تھی کہ سینیٹ کے انتخابات کے لیے بہتر ہو گا کہ شو آف ہینڈ کا ذریعہ اپنایا جائے تاکہ ہارس ٹریڈنگ کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ امید ہے کہ یہ بل متفقہ طور پر منظور کر لیا جائے گا کیونکہ پارلیمانی نظام موجودہ طریقہ کار سے نالاں نظر آتا ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے ملک میں سینیٹ کے اگلے انتخابات آئندہ برس (2021) فروری میں ہوں گے، اور اس وقت سینیٹ میں سیٹوں کی جو پوزیشن ہے‘ اس کی بنیاد پر یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ اکثریت کی بنیاد پر تحریک انصاف پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا میں تمام نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی، جبکہ سندھ اور بلوچستان میں بھی اپنے کافی امیدوار کامیاب کرا سکے گی‘ اور اس طرح اسے سینیٹ میں اکثریت حاصل ہو جائے گی۔
اب آئیے بات کرتے ہیں صوبہ جنوبی پنجاب کی۔ میری نظر میں حکومت کا صوبہ جنوبی پنجاب کے لیے پیش رفت کا دعویٰ خوش آئند ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ نئے صوبوں پر ہونے والی سیاست میں عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ سیاسی مقاصد کا حصول پیش نظر رہا ہے اور اس معاملے میں کبھی سنجیدگی اور اخلاص کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ کسی نئے صوبے کے قیام کے لیے آئین کی دفعہ 239 کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہوتا ہے‘ جس کے تحت جس صوبے میں کوئی نیا صوبہ بنانا مقصود ہو‘ اس کی اسمبلی تین چوتھائی اکثریت کے ساتھ نئے صوبے کی قرارداد منظور کر کے وفاق کو بھجوائے گی اور پھر قومی اسمبلی میں قرارداد پر دو تہائی اکثریت کے ساتھ نئے صوبے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس طرح موجودہ حالات میں اور موجودہ اسمبلیوں سے یہ بل منظور کرانا ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ اس وقت تحریک انصاف وفاق اور پنجاب میں معمولی عددی اکثریت کے ساتھ حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہے۔ اس طرح پنجاب میں ایک نیا صوبہ 'جنوبی پنجاب‘ بنانا اس کے بس میں نہیں ہے کیونکہ صوبوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی اپنی اپنی سیاست ہے اور وہ اس کا کریڈٹ کبھی پی ٹی آئی حکومت کو نہیں جانے دیں گے۔ ویسے بھی نئے صوبے کی تشکیل ہمیشہ سوالیہ نشان اور ایک دوسرے کی سیاسی حریف پارٹیوں میں وجہ تنازع بنی رہی ہے۔ علاوہ ازیں کسی نئے صوبے کی تشکیل قومی خزانے پر نیا مالی بوجھ ڈالنے کے مترادف ہو گا‘ جس کی ہماری آج کی قومی معیشت متحمل نہیں ہو سکتی۔ نئے گورنر متعین کرنے، ایک اضافی وزیر اعلیٰ لگانے‘ الگ صوبائی اسمبلی کی تشکیل‘ نئے سیکرٹریٹ بنانے اور اس کا عملہ لگانے سے قومی خزانے پر شدید دباؤ پڑھے گا۔ میرے خیال میں نئے صوبے کے الگ سیکرٹریٹ سمیت تمام انتظامی دفاتر اور ہائیکورٹ قائم کرنے پر اٹھنے والے اربوں روپے کے اخراجات فی الوقت قومی خزانہ برداشت نہیں کر سکے گا۔
صوبوں کی سیاست کرنے والے سیاستدانوں کو بھی یقینا اس کا ادراک ہے؛ تاہم محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے خاطر انہوں نے صوبے کا نعرہ لگانا اپنی مجبوری بنا رکھا ہے۔ اگر نئے صوبے کے قیام کی داعی جماعتیں اس سلسلے میں مخلص ہوتیں تو اس کے لئے آئین کی دفعہ 239 کے تقاضے پورے کرنے کا موقع گزشتہ اسمبلی میں پیدا ہوا تھا‘ جب قومی اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ نون کو تقریباً تین چوتھائی اکثریت حاصل تھی۔ مسلم لیگ نون نے اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی میں قرارداد منظور بھی کرائی مگر پھر قومی اسمبلی میں اس قرارداد کی منظوری کی نوبت ہی نہ آ سکی۔ نئے صوبے کی سیاست کرنے والے عوامی رہنما بعد ازاں تحریک انصاف میں شامل ہو گئے مگر منتخب ہونے کے بعد اپنے اس وعدے کو فراموش کر دیا۔ پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کے معاملے میں گومگو کی کیفیت بدستور برقرار ہے‘ مگر مجوزہ صوبے کے دارالحکومت کے لیے بہاولپور اور ملتان کے مابین کشمکش شروع ہو چکی ہے۔ اسی طرح پنجاب سے نیا صوبہ بنانے سے سندھ اور خیبر پختون خوا میں نئے صوبے کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو بھی نہیں دبایا جا سکے گا اور صوبہ بلوچستان سے بھی پشتون کمیونٹی کے لیے صوبہ بنانے کی تحریک زور پکڑ جائے گی جبکہ ہزارہ صوبے کی تحریک تو پہلے ہی موجود ہے۔
اس سارے تناظر میں دیکھا جائے تو نیا صوبہ بنانے کی مہم عوام کی توجہ بٹانے کی کوشش ہے کیونکہ نیا صوبہ بنانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 239 میں ترمیم کرکے سادہ اکثریت کی شق شامل کرنا ہوگی جیسا کہ بھارت کے آئین میں صوبہ بنانے کے لیے سادہ اکثریت کا ذکر ہے۔ علاوہ ازیں بھارت نے علیحدہ کمیشن بنایا ہوا ہے جو صوبہ بنانے کے لیے سارا سال غوروخوض کرکے اپنی سفارشات مرکزی حکومت کو بھجواتا ہے۔ بہرحال اگر حکومت نئے صوبوں پر سنجیدہ ہے تو اس بارے میں سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرنا ہوگی اور پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں کی سیاسی اور علاقائی قیادت کو بھی اعتماد میں لینا ہو گا کیونکہ پنجاب میں ایک یا دو مزید صوبے بننے کی صورت میں وفاقی ایریا کے سینیٹر فارغ کرنے کے بعد ہر صوبے کے سینیٹروں کی تعداد برابر ہوتی ہے۔ پنجاب میں دو یا ایک صوبے بننے کی صورت میں سینیٹ میں نئے صوبے کے ارکان کا اضافہ ہو گا۔ اگر تعداد 100 پر ہی رکھی جاتی ہے تو ہر صوبے کے موجودہ ارکان سینیٹ کی تعداد کم ہو جائے گی جس پر دیگر صوبے اعتراض کر سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت اس معاملے کی سنجیدگی کو محسوس کرے اور نئے صوبوں کے قیام کے لئے تمام پارلیمانی جماعتوں کے مشورے سے لائحہ عمل تیار کرکے اس پر عمل کیا جائے تاکہ نئے صوبوں کے قیام کا معاملہ خوش اسلوبی سے جمہوری روایات اور سیاسی قدروں کے مطابق حل ہو سکے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کا صوبہ بننے کی صورت میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں نئے صوبے میں منتقل ہو جائیں گی جس سے حکومت کا برقرار رہنا مشکل ہو جائے گا اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی نئے صوبے کو تفویض کر دی جائیں گی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں نئے صوبے بنانے کیلئے سپیکر قومی اسمبلی نے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو چاہئے کہ قدم آگے بڑھانے سے پہلے اس کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لیں۔ اس رپورٹ سے معاملات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ میری بریفنگ کے بعد حکومت نے معاملہ مؤخر کر دیا تھا۔ نئے صوبے بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں‘ لیکن پہلی بات: یہ سیاسی نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر بننے چاہئیں۔ دوسری بات: اس سلسلے میں قدم آگے بڑھانے سے پہلے اس کے معاشی اور اقتصادی پہلوئوں کا جائزہ لینا مناسب رہے گا۔ اس طرح درست راستہ اختیار کرنے میں مدد ملے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں